حیدرآباد

علماء اور اسلاف کی جہد و جہد اور قربانیوں کے بغیر آزادی کا تصور ناممکن ہے: حافظ پیر شبیر احمد

حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیت علماء تلنگانہ وآندھراپردیش کے دست مبارک سے ریاستی دفتر جمعیت علماء تلنگانہ وآندھراپردیش واقع زم زم مسجد باغ عنبر پیٹ پرچم کشائی انجام دی گی۔

حیدرآباد: حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیت علماء تلنگانہ وآندھراپردیش کے دست مبارک سے ریاستی دفتر جمعیت علماء تلنگانہ وآندھراپردیش واقع زم زم مسجد باغ عنبر پیٹ پرچم کشائی انجام دی گی۔

متعلقہ خبریں
شہزادی درشہوار ہاسپٹل کے قریب یوم آزادی تقریب کا اہتمام
آزادی، وطن کے متوالوں کے لئے ایک عظیم کارنامہ، مانو میں یومِ آزادی تقریب، پروفیسر عین الحسن کا خطاب
گورنر اور چیف سکریٹری نے ترنگا لہرایا
ہیومن رائٹس ڈیولپمنٹ ویلفیئر اسوسی ایشن کے زیر اہتمام یوم آزادی تقریب
کاروان ساہو میں یوم آزادی تقریب، رکن اسمبلی کوثر محی الدین نے ترنگا لہرایا

آپ نے سب سے پہلے حاضرین اور ملک کے تمام شہریوں کو آزادی کی 78/ ویں مبارک باد پیش کی اس کے بعد آپ نے عوام الناس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا یہ ملک ہمیشہ سے مختلف مذاہب کا گہوارہ رہا ہے اور یہی اس ملک کی سب سے بڑی خوبی اور اسکا حسن ہے۔

ہمارے اس ملک میں دو دن بڑی اہمیت کے حامل ہیں ایک 15/ اگست اور دوسرا 26/ جنوری۔15/ اگست کو انگریزوں کے ناجائز تسلط اور قبضہ سے ملک آزاد ہوا جس کو ہم جشن یوم آزادی کہتے ہیں۔

دوسرا دن 26/ جنوری کو ملک کا قانون مدون اور نافذ ہوا۔ جس کو ہم یوم جمہوریہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔آزادی ایک عظیم نعمت ہے, قدرت کا انمول تحفہ ہے جینے کے اصل احساس کا نام آزادی ہے۔

اس کے برخلاف غلامی درناک اذیت اور خوفناک زنجیر ہے جس میں زندگی بد سے بدتر ہوجاتی ہے یہاں تک کہ ذاتی اختیارات بھی ختم کر دئیے جاتے ہیں انسان ایک زندہ لاش بن کر رہ جاتا ہے اسی آزادی کیلئے انسان تو انسان حیوانات بھی اپنی اپنی طاقت وہمت کے بقدر غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزاد فضا میں سانس لینے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔

اس ملک کے باشندے بھی غلامی کی زنجیروں میں تقریبا جگڑے جاچکے تھے۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں علماء وقت اور باشعور غیور سلاطین اور مسلمانوں کی لگاتار کم وبیش دوسو سال کی دردناک قربانیوں کے بعد لا زوال تحریک آزادی کی دستان رقم ہوئی بالخصوص 1857 کے بعد کے واقعات بھی تاریخ کا ایک الگ حصہ ہے علماء کرام اور ان جیسا حلیہ رکھنے والے مسلمان انگریزوں کی نظر میں باغی قرار دئیے گئے صرف پندرہ دنوں میں تقریبا دولاکھ مسلمان شہید ہوئے جن میں اکیاون ہزار پانچسو ں علماء کرام تھے۔

(1865)؁سے 1867 تک صرف تین سالوں میں چودہ ہزار علماء کرام کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا دہلی کی چاندی چوک سے شاملی تک کوئی کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پر کسی عالم دین کی گردن نہ لٹکی ہو۔یہ ایک تاریخی حقیقت اور ناقابل فراموش سچائی ہے کہ علماء  اور مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس ملک کو آزاد کرانے میں قربانیاں دی ناقابل تصویر دردناک تکلیفوں اور آزمائشوں کے باوجود آزادی کی جدوجہد سے کبھی ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹایا شاہ عبد العزیز رحمت اللہ علیہ کا فتوی حضرت اسماعیل شہید ؒ  اللہ علیہ کی گشتی تحریک اور رشمیی رومال آزادی کی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔

اس کے بعد ان تحریکوں کو آگے بڑھانے کی امنگوں کو لیکر جو تنظیمیں وجود میں آئیں ان میں سب سے نمایاں اور اہم نام جمعیت علماء ہند کا ہے جس کا 19/ نومبر 1919؁ء میں قیام عمل میں آیا۔

جمعیت علماء  ہند کے اکابرین کی دیگر برادران وطن کے ساتھ ناقابل فراموش قر بانیوں اور مسلسل جدوجہد اور جانبازیوں کے بعد یہ ملک انگریزوں کی غلامی سے 15/ اگست 1947 کی درمیانی شب مکمل آزاد ہوا۔

آج بھی یہ سوسالہ تنظیم جمعیت علماء  ہند ملک کی سالمیت وترقی جمہوریت کا تحفظ برادران وطن اور مسلمانوں کے حقوق اور انصاف کی آواز بن کر نیز مظلوموں کی حمایت میں شانہ بہ شانہ اور انسانیت کی خدمت کیلئے ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے۔

آج جشن آزادی کے موقع پر ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم اپنے اسلاف اور اکابرین کی قربانیوں کو زندہ رکھیں گے کبھی پامال ہونے نہیں دیں گے اور جمعےۃ  علماء کے قدم سے قدم ملا کر چلیں گے کیونکہ ان علماء اور اسلاف کی جہد و جہد اور قربانیوں کے بغیر آزادی کا تصور ناممکن تھا۔

لہذا خصوصا اس ملک کا ہر مسلمان اور عموما ہر شہری جمعےۃ علماء کا ایک ستون ہے۔لیکن افسوس کہ ان 78/سالوں میں پیارے وطن ہندوستان کی جدوجہد آزادی کیلئے علماء  و مسلمانوں کی لازوال قربانیوں کا تذکرہ تو دور کی بات چند لوگ کی طرف سے مسلمانوں کے کردار کو داغدار اور اسلام کی شبیہ کو مسخ کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں بالائے ستم منصوبہ بند طریقہ سے اس تاریخ کو مٹانے کی کوشش ہو رہی ہیں۔

ہر سال جشن یوم آزادی منایا تو جاتا ہے نئی نئی کرتب بازیاں تو دکھائی جاتی ہے لیکن نئی نسل کو منصفانہ طور پر اس تاریخ سے کما حقہ واقف نہیں کرایا جاتا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جہدو جہد آزادی کی مکمل تاریخ سے برادران وطن کو آگاہ کرایا جاتا رہے۔

بالخصوص مسلمان اپنی اکابرین کی تاریخی کردار سے اپنی نسل کو واقف کراتے رہیں تاکہ وہ بھی اپنے آباء  واجداد کی طرح باہمت اور اعلی حوصلوں کے ساتھ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتے ہوئے اپنے ملک کی سالمیت اور قوم و ملت کی خدمت میں نمایاں کردار ادا کر سکے۔ اس موقع پرریاستی جنرل سکریٹری محترم حافظ پیر خلیق احمد صابر صاحب‘ مولانا محمد یعقوب صاحب صدر جمعیت علماء حلقہ عنبر پیٹ‘مولانا محمد معز الدین ندوی صاحب نائب صدر جمعیت علماء حلقہ عنبر پیٹ‘ مولانا انصار انور‘ پیر عتیق احمد جناب رمضان صاحب جناب عبد الحبیب صاحب جناب سعید صاحب جناب سید سلمان صاحب جناب عبد اللہ اکبر صاحب شیخ ریاض صاحب جناب عبد الرحیم صاحب‘جناب خالد صاحب جناب سید ارشد صاحب جباب سید اسلم صاحب جناب ابرار ہاشر صاحب سید سمیر صاحب اور دیگر احباب موجود تھے۔

a3w
a3w