ہلدوانی: سپریم کورٹ کے احکام اور ججس کے تاثرات (اہم نکات)
لوگوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کرنے کے لئے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی طرف سے طاقت کے استعمال کی تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ٹھیک بات نہیں ہے۔
نئی دہلی: اتراکھنڈ کے ہلدوانی ضلع میں ریلوے کی زمین پر مبینہ قبضوں کو برخواست کرنے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے احکامات پر روک لگاتے ہوئے سپریم کورٹ نے جمعرات کو اس معاملے پر کئی اہم تاثرات پیش کئے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ریلوے کو اپنی زمین پر دوبارہ دعویٰ کرنے کا حق ہے لیکن ایک ہی وقت میں 50 ہزارلوگوں کو راتوں رات ان کے گھروں سے نہیں نکالا جاسکتا۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ کی سماعت کے اہم نکات یہ ہیں:
جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس اے ایس اوکا کی بنچ پر اس معاملہ کی سماعت ہوئی تھی۔
جسٹس کول نےکہا کہ ہمیں کوئی عملی راستہ نکالنا ہوگا۔ اس میں متعدد زاویوں اور پہلوؤں کا خیال رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے جو چیز ہمیں پریشان کر رہی ہے وہ یہ کہ آپ ایسے منظر نامے سے کیسے نمٹتے ہیں جہاں لوگوں نے 70 سال قبل، پلاٹس نیلامی میں خریدے ہوں؟
آپ یقیناً (ریلوے) لائن کو توسیع دے سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ لوگ 40، 50، 60 سال سے وہاں رہ رہے ہیں، کوئی نہ کوئی بحالی کی اسکیم تو لانی ہی پڑے گی۔
اس مسئلے کا کسی نہ کسی طریقے سے خاتمہ ہونا چاہئے۔ تمام متاثرین کا معاملہ الگ الگ ہوسکتا ہے۔ کچھ بالکل بھی اہل نہیں ہوسکتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن کے لئے بحالی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ اس معاملہ کا ایک انسانی زاویہ بھی ہے۔ آپ کو (حکومت اور ریلوے) کو کچھ کام کرنا پڑے گا۔
سپریم کورٹ کے اس حکم سے ہزاروں لوگوں کو راحت ملی ہے جن کے سر پر بے گھر ہوجانے کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔
لوگوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کرنے کے لئے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی طرف سے طاقت کے استعمال کی تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ٹھیک بات نہیں ہے۔ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ کئی دہائیوں سے وہاں رہنے والے لوگوں کو ہٹانے کے لیے نیم فوجی فورسس کو تعینات کیا جائے گا۔
دوسری طرف عدالت نے علاقے میں مزید کسی بھی نئی تعمیر پر روک لگاتے ہوئے ریلوے اور اتراکھنڈ حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ کیس کی دوبارہ سماعت آئندہ ماہ ہوگی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس اے ایس اوکا نے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کی طرف سے چہارشنبہ کے روز ایک باضابطہ درخواست کے بعد آج اس کیس کی سماعت کی۔
یہ حکم ان رہائشیوں کے لئے ایک بڑی راحت کے طور پر سامنے آیا ہے جو اپنی بے دخلی کو روکنے کینڈل مارچ، دھرنے اور دعائیں کر رہے تھے۔
یہ علاقہ ہلدوانی ریلوے اسٹیشن کے قریب بنبھول پورہ علاقے میں غفور بستی، ڈھولک بستی اور اندرا نگر میں 2 کلومیٹر کی پٹی پر محیط ہے۔ یہاں مکانات کے علاوہ تقریباً نصف خاندان زمین کے لیز پر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس علاقے میں چار سرکاری اسکول، 11 پرائیویٹ اسکول، ایک بینک، دو اوور ہیڈ واٹر ٹینک، 10 مساجد اور چار مندر، کئی دکانوں کے علاوہ دیگر عمارتیں بھی موجود ہیں جو کئی دہائیوں قبل تعمیر کی گئی تھیں۔
یہ معاملہ سب سے پہلے 2013 میں عدالت میں پہنچا جب ایک درخواست علاقے کے قریب ایک ندی میں ریت کی غیر قانونی کانکنی کے خلاف دائر کی گئی تھی۔
طویل مقدمہ بازی کے بعد 20 دسمبر کو اتراکھنڈ ہائیکورٹ نے ہزاروں مکانات کے انہدام کا حکم جاری کیا تھا۔ عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ نے اخبارات میں نوٹس جاری کرکے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ 9 جنوری تک اپنے گھروں کا تخلیہ کردیں۔
دوسری طرف بی جے پی حکومت کو ایک ایسے علاقے کے خلاف کارروائی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے جہاں زیادہ تر باشندے مسلمان ہیں، کارکنان اور سیاست دان بھی احتجاج میں شامل ہوگئے تھے۔
کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ ہریش راوت نے ریاستی دارالحکومت دہرادون میں اپنے گھر پر ایک گھنٹہ طویل مون ورت بھی رکھا۔
انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈ ایک روحانی ریاست ہے۔ اگر 50 ہزار افراد بشمول بچے، حاملہ خواتین، بوڑھے اور عورتیں اپنے گھر خالی کرنے اور سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوں تو یہ بہت افسوسناک منظر ہوگا۔
اسی دوران اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ دھامی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرے گی۔
سپریم کورٹ میں اس معاملہ کی پیروی سینئر کانگریس لیڈر اور سپریم کورٹ کے وکیل سلمان خورشید نے کی۔ عدالت کے فیصلہ کے بعد انہوں نے جو کہا وہ اس ویڈیو میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔