اب دہلی کی جامع مسجد کا مکمل اے ایس آئی سروے کرانے ہندو سینا مطالبہ
گپتا نے یہ بھی کہا کہ اگر مسجد کی تعمیر کے دوران کسی بھی ہندو باقیات کا انکشاف ہوتا ہے تو انہیں محفوظ کیا جائے اور یہ معلومات عوام کے سامنے لائی جائیں تاکہ تاریخ کے حقائق واضح ہو سکیں۔
نئی دہلی: ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل کو ایک خط لکھ کر دہلی کی جامع مسجد کا تفصیلی سروے کروانے کی درخواست کی ہے۔ گپتا کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد، جو مغل بادشاہ شاہجہاں نے 1644 سے 1656 کے درمیان تعمیر کروائی، جودھپور اور اُدے پور کے مندروں کے کھنڈرات پر بنائی گئی تھی، جنہیں اورنگزیب نے مبینہ طور پر تباہ کیا تھا۔
خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ ہندو دیوتاؤں کی مورتیاں مسجد کی تعمیر میں استعمال کی گئیں اور کچھ مورتیاں مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے دفن کی گئیں تاکہ ہندو جذبات کو ٹھیس پہنچائی جا سکے۔ گپتا نے اے ایس آئی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جامع مسجد کے حقائق سامنے لانے کے لیے ایک تفصیلی تحقیقات کرے۔
گپتا نے یہ بھی کہا کہ اگر مسجد کی تعمیر کے دوران کسی بھی ہندو باقیات کا انکشاف ہوتا ہے تو انہیں محفوظ کیا جائے اور یہ معلومات عوام کے سامنے لائی جائیں تاکہ تاریخ کے حقائق واضح ہو سکیں۔
جامع مسجد، جسے مسجدِ جہاں نما بھی کہا جاتا ہے، بھارت کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے اور مغل فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ یہ سرخ پتھر اور سفید سنگِ مرمر سے بنی ہے اور ایک وقت میں 25,000 افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش رکھتی ہے۔
یہ مطالبہ ایسے وقت میں آیا ہے جب بھارت کے کئی دوسرے مذہبی مقامات پر تنازعات جاری ہیں، جہاں مندروں کو مساجد میں تبدیل کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ گنانواپی مسجد (وارانسی) اور شاہی عیدگاہ مسجد (متھرا) جیسے مقامات پر بھی اسی نوعیت کے دعوے سامنے آئے ہیں۔
بھارت میں عبادت گاہوں کے مذہبی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے 1991 کا قانون موجود ہے، جو 15 اگست 1947 کی حیثیت کو قانونی طور پر محفوظ رکھتا ہے، لیکن اس قانون کو کئی مقدمات میں چیلنج کیا گیا ہے۔
اے ایس آئی کی جانب سے اس درخواست پر کوئی تبصرہ ابھی تک نہیں آیا، لیکن ان کے فیصلے کے ممکنہ اثرات بھارت بھر میں ایسے تنازعات پر گہرے اثر ڈال سکتے ہیں۔