حیدرآباد

حیدرآباد: موسم میں اچانک تبدیلی، احتیاط لازمی، بیماریوں اور ہیٹ اسٹروک کا خطرہ

موسم میں اچانک تبدیلی نہ صرف محکمہ صحت کے عہدیداروں بلکہ عام لوگوں کے لئے بھی خطرہ کا باعث بن سکتی ہے۔ جڑواں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے علاوہ ملحقہ اضلاع میڑچل-ملکاجگیری اور رنگاریڈی اضلاع میں بھی یہی صورتحال بتائی جاتی ہے۔

حیدرآباد: ابھی تو ماہ فروری کی ابتداء ہے اور حیدرآباد میں درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ دن میں 2 بجے کے بعد شہر میں گرم ہوائیں چل رہی ہیں جیسے موسم گرما کے عروج میں ہوتا ہے۔

متعلقہ خبریں
حیدرآباد کے بیشتر مقامات میں سردی کی لہر برقرار
اتھلیٹس کو گرمی سے بچانے کیلئے حکومت نے اے سی بھجوا دئیے
گرمائی اخلاقی تربیتی ٹیوشن سنٹر کیلئے جدید نصاب کی مفت فراہمی
حیدرآباد میں جاریہ ماہ زائد درجہ حرارت کی پیش قیاسی
موسم گرما میں عمرہ کرنے والے زائرین کے لیے نئی ہدایات جاری

موسم میں اچانک تبدیلی نہ صرف محکمہ صحت کے عہدیداروں بلکہ عام لوگوں کے لئے بھی خطرہ کا باعث بن سکتی ہے۔ جڑواں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے علاوہ ملحقہ اضلاع میڑچل-ملکاجگیری اور رنگاریڈی اضلاع میں بھی یہی صورتحال بتائی جاتی ہے۔

محکمہ صحت کے عہدیداروں نے بتایا کہ جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے کیسز میں اضافہ متوقع ہے، جس سے سرکاری اور خانگی دواخانوں پر دباؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

موسم گرما کا آغاز آبی وسائل پر انتہائی دباؤ کا اشارہ دیتا ہے، جو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے ہیضہ، پیچش، اسہال وغیرہ کا باعث بنتا ہے، کیونکہ لوگ ہوا کے رخ کے خلاف جا کر کھانے میں احتیاط نہیں کرتے جس کے نتیجہ میں انہیں ان بیماریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اس کے علاوہ گرمی کو شکست دینے کے لئے لوگ سوڈا، جوس، اور ٹھیلہ بنڈیوں پر کٹے ہوئے پھلوں کا بھی استعمال کرتے ہیں جنہیں ٹھنڈا کرنے کے لئے غیر محفوظ صنعتی برف کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گنے کے رس میں بھی یہی غیر محفوظ برف استعمال کی جاتی ہے۔

بعض اوقات گرمی سے بچنے کے لئے لوگ غیر محفوظ ذرائع سے بھی پانی پی لیتے ہیں جو ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور روٹا وائرس، سالمونیلا، شگیلا اور اسہال جیسے انفیکشن کو باعث بنتا ہے۔

خوراک اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاوہ، گرمیوں کے دوران بیماریوں کی ایک تیسری قسم جن سے ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے وہ ہیں لو سے متعلق بیماریاں۔ اس میں سن اسٹروک سب سے خطرناک ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

سپرنٹنڈنٹ فیور ہاسپٹل ڈاکٹر کے شنکر نے بتایا کہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں عام طور پر آلودہ پانی سے ہوتی ہیں جبکہ ہیٹ اسٹروک 40 ڈگری سیلسیس سے زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایک صحت مند انسان ہیٹ اسٹروک اور دیگر پیچیدگیوں کو برداشت کرسکتا ہے۔ تاہم، گردے اور دل کی بیماریوں اور ذیابیطس جیسی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کے لئے یہ ایک آزمائش ثابت ہوتی ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ وہ شدید گرمی کے دوران حد سے زیادہ احتیاط کریں۔

ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بزرگ شہریوں، ذیابیطس، گردے اور دل کے مریضوں کے جسم کا بنیادی درجہ حرارت زیادہ دیر تک دھوپ میں رہنے سے کافی بڑھ جاتا ہے جس سے مشکلات میں فوری اضافہ ہوجاتا ہے۔