طنز و مزاحمضامین

کھیل زندگی کے….

نصرت فاطمہ

ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ ۲۰۲۲ء کا ایک سنسنی خیز مقابلہ… جس میں دو روایتی حریف آمنے سامنے، اور میچ اپنے آخری مراحل میں، سب کی نظریں بال پر ہوں اور اختتامی اوور کی ایک بال نوبال قرار پائے..اور پھر ہماری ٹیم کی جیت…!! ایسے میں اس ایک "نو” بال کا ذکر لازمی ٹھہرا۔ بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہم واقعی "نو” بال کے مداح بن گئے۔
سوچیں تو اک ناممکن سی بات لگتی ہے ناں کہ آپ کی ٹیم کے پاس بال کم ہیں اور رن زیادہ بنانے ہیں، اس وقت ایک ایک بال کا حساب رکھنا پڑتا ہے۔ ایسے وقت میں مخالف ٹیم کا کھلاڑی بال کراتے ہوئے ذرا سا لائن سے چوکا اور وہ بال ہی "نو” بال قرار پائے اور ہم اس "نو” بال پر سر دھنتے رہیں۔ جس میں نہ صرف فری ہٹ ملتی ہے، تاکہ آپ من مانی کوئی بھی شارٹ لگا لیں، چاہے کلین بولڈ ہوجائیں اور مزے کی بات کہ اس بال کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں،مگر رن مل جاتے ہیں۔
ہر ایک کی زبان پر یہی چرچا اور خود ہم بھی اس سنسنی خیز مقابلے کے سحر میں ڈوبے رہے۔خیر ہے ہم تو لکھنے بیٹھے ہیں ہمارے پسندیدہ کھیل کے بارے میں، جس میں ہماری ٹیم کی جیت نے میچ دیکھنے کی خوشی کو دوبالا کردیا۔شکریہ ضرور ادا کریں گے ویراٹ کوہلی کا جنہوں نے اس ناممکن لگنے والی جیت کو اپنی شاندار بیٹنگ سے ممکن کر دکھایا۔
جیت کے خمار سے تھوڑا باہر نکلے تو اس احساس میں گرفتار ہوگئے کہ "نو” بال توہماری روزمرہ کی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ مخالف کا ہونا بھی ضروری نہیں، اپنوں میں بھی ہم کبھی کبھی لائن سے چوک بیٹھے تو ساری محنت اُس”نو”بال کی طرح خاک میں مل جاتی ہے جس میں بال کروانے والے کو بس لعن طعن اور پھٹکار ہی ملتی ہے چاہے اس سے پہلے اُس بیچارے نے کتنے ہی "یس” بال کروائے ہوں۔
"زندگی بھر کے امتحان کے بعدوہ نتیجے میں کسی اور کا نکلا”
اور ہم اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ کھیل کود وغیرہ ذہنی صحت کے لیے اچھے ہوتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ضروری نہیں کہ آپ اس کھیل کے مداح ہوں، لیکن آپ کے گھر والے اس کو بڑے شوق سے دیکھتے ہیں تو آپ چین کی بنسی بجائیں۔ آپ کے دو گھنٹے یقینا سکون سے گزریں گے جو آپ کی ذہنی صحت کے لیے یقینا کارآمد ثابت ہوں گے۔ نو بال کے علاوہ ہم نے کرکٹ کے تعلق سے مزید کئی باتوں پر غور کیا توہمارے اندر کا "فلاسفر” مزید جاگ گیاکہ دنیا ایک میدان ہے اور ہم سب دنیا کے کھیل تماشوں میں مگن ہیں۔ کوئی کھیلتا ہے تو کوئی تماشائی ہے۔ کوئی "پھینکتا” ہے تو کہیں (بے چارے عوام) پکڑنے کی کوشش میں بے حال ہے۔ (عزت مآب وزیراعظم)
فرق صرف یہ ہے کہ یہاں ایک نہیں بلکہ بیک وقت کئی کھیل ہورہے ہیں۔ کچھ آوٹ ہوکر پویلین سے باہر جاتے ہیں اور پھرنئے کھلاڑی شامل ہو جاتے ہیں۔ کچھ کلین بولڈ تو کچھ رن آؤٹ اور کچھ کا کیچ پکڑ لیا جاتا ہے۔ کسی کا کیچ ڈراپ بھی ہوجاتا ہے۔ کوئی زخمی ہو کر میدان چھوڑ جاتا ہے تو کوئی رن بناتے نہیں تھکتا اور چوکوں اور چھکوں کی مدد سے سنچری بھی پار کرلیتا ہے۔ کوئی اتنا بہادر کہ اُس بال کو بھی وہ آسانی سے کھیل لیتا ہے جو بال اس کو زخمی کرنے کے لیے پھینکی گئی تھی۔
کھیل زندگی کے تم کھیلتے رہو یارو
ہار جیت کوئی بھی آخری نہیں ہوتی
بہرحال یہ کرکٹ ہے تو ایک گیم ہی، لیکن اس کا جنون کبھی کسی کے لیے جان لیوا بھی بن جاتا ہے۔(حال کی ایک خبر کے مطابق) حالات کی بات کریں تو پہلے کے مقابلے میں ایسے بدلے ہیں کہ کھیل بھی اب کھیل نہیں لگتا۔ سیاست کی نذر ہو گیا ہے۔ نیوز چینلز اور ٹویٹر باقاعدہ میدان جنگ لگنے لگے ہیں اور ایسے میں ہم اپنے بچپن والے دنوں کو یاد کرنا نہیں بھولتے جب کرکٹ دیکھتے ہوئے ہمیشہ یہ احساس ہوا کہ یہ ہمارے کھلاڑی ہیں اور ہمارے ملک کے لیے کھیل رہے ہیں۔ تب بھی کرکٹ ایک جنون ہوا کرتا تھا، لیکن اُس جنون نے کسی کھلاڑی کی بیٹی کے لیے نازیبا الفاظ نہیں کہے، اور نہ ہی کسی کھلاڑی کو خوامخواہ گالیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ خیر بات نکلے گی تو دور تک جائے گی۔ جب بات نکلی ہی ہے اُن پرانے دنوں کی تو ہم کچھ جذباتی ہو گئے۔ کتنی یادیں ذہن پر دستک دے گئیں..
معصومیت بھرے پرانے دور میں الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی کے بچھائے جاتے تھے کہ انجانے میں کہیں بے حرمتی نہ ہو۔ پاس یا فیل۔۔ صرف یہی معلوم تھا، کیونکہ فیصد سے ہم لا تعلق تھے۔ کتابوں میں مور کا پنکھ رکھنے سے ہم ذہین، ہوشیار ہوجائیں گے، یہ ہمارا اعتقاد بھروسہ تھا۔
کیونکہ ہم پیدائشی ذہین ہوا کرتے تھے۔
اسکول میں مار کھاتے ہوئے ہمارے درمیاں کبھی انا بیچ میں آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوا۔ انا کیا ہوتی ہے یہی معلوم نہ تھا۔ مار کھانا ہمارے روزمرہ زندگی کی عام سی بات تھی،مارنے والا اور مار کھانے والا دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہیں ہوا کرتی تھی۔
چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی سناسنایا خوف آڑے آجاتا تھا۔۔۔
زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی تھیں تو ہوش وحواس اڑ جاتے تھے کہ قیامت والے دن آنکھوں سے اٹھانی پڑیں گی۔
منجن سے ٹوتھ پیسٹ تک کے سفر میں ہم نے ہر چیزبہتر سے بہتر کرلی ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں اِس قدرسہولتوں کے باوجود ہمیں گھر میں ایک ایسا ڈبہ ضرور رکھنا پڑتا ہے جس میں، ڈپریشن‘ سردرد‘بلڈ پریشر‘ نیند اور وٹامنزکی گولیاں ہر وقت موجود ہوں..

a3w
a3w