مذہب

اگر حکومت سود ادا کرے یا برائے نام سود لے

حکومت کی بعض اسکیمیں ہیں جن میں بینک سے قرض دلوایا جاتا ہے اور بینک اس پر سود بھی وصول کرتا ہے ؛ لیکن سود کی رقم مقروض کو ادا نہیں کرنا پڑتا، حکومت ادا کرتی ہے ،

سوال:- حکومت کی بعض اسکیمیں ہیں جن میں بینک سے قرض دلوایا جاتا ہے اور بینک اس پر سود بھی وصول کرتا ہے ؛ لیکن سود کی رقم مقروض کو ادا نہیں کرنا پڑتا، حکومت ادا کرتی ہے ،

یا عام طورپر سود کی جو مقدار ایسے قرضوں پر ہوتی ہے، اس کے مقابلہ بہت ہی کم انٹرسٹ وصول کیا جاتا ہے، کیا مسلمانوں کے لئے ایسی اسکیموں سے فائدہ اُٹھانے کی گنجائش ہے ۔ (دلاور حسین، بھیونڈی)

جواب:- اگر حکومت قرض دلوائے اور اس کا سود حکومت خود ادا کردے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ؛ کیوںکہ قرض لینے والا نہ سود لینے میںملوث ہے نہ سود دینے میں ؛

البتہ یہ شکل کہ اس کو تو سود دینا پڑتا ہے یا بینک مروجہ صورت کے مقابلے میں بہت کم، تو یہ صورت قابل غور ہے ، اگر اس سود کی مقدار اتنی کم ہوکہ اس کو سروس چارج شمار کیا جاسکتا ہو تو اس کی بھی اجازت ہوگی ،

اور اس کا اندازہ اس طورپر کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ دور میں جو اسلامی مالیاتی ادارے ہیں، ان کے یہاں سروس چارج کی کیا مقدار ہوتی ہے؟

اگر انٹرسٹ کے نام سے لی جانے والا رقم اسی کے قریب قریب ہو تو اس کو سروس چارج شمار کیا جاسکتا ہے، جو جائز ہے ؛ کیوںکہ اس بات پر قریب قریب اتفاق ہے کہ قرض کا دستاویز لکھنے کی اُجرت مقروض سے لی جاسکتی ہے ؛ بلکہ خود قرآن مجید میں اس کا اشارہ موجود ہے ۔ ( سورۂ بقرہ : ۲۸۲)

بھی ایسے کاموں کی اُجرت کو جائز قرار دیا ہے :

یستحق القاضییجوز لغیرہ کالمفتی فانہ یستحق أجر المثل علی کفایۃ الفتویٰ ۔ (درمختار : ۹؍۱۰۸)

a3w
a3w