شریعت میں فیصلہ کرنے کی اہمیت
قضاء کا معنی ہے’حکم‘ ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ ( بنی اسرائیل) آپ کے رب نے یہ حکم دیا کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو۔ محیط میں لکھا ہے جھگڑوں کو ختم کرنے اور مقدمات کا فیصلہ کرنے کا نام قضاء ہے، بدائع الصنائع میں لکھا ہے لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کرنا قضاء ہے۔ پیش آمدہ واقعہ میں وہ حکم دیا جائے جو کتاب اللہ، سنت متواترہ، سنت مشہورہ یا اجماع سے ثابت ہو۔
مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)
قضاء کا معنی ہے’حکم‘ ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ ( بنی اسرائیل) آپ کے رب نے یہ حکم دیا کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو۔ محیط میں لکھا ہے جھگڑوں کو ختم کرنے اور مقدمات کا فیصلہ کرنے کا نام قضاء ہے، بدائع الصنائع میں لکھا ہے لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کرنا قضاء ہے۔ پیش آمدہ واقعہ میں وہ حکم دیا جائے جو کتاب اللہ، سنت متواترہ، سنت مشہورہ یا اجماع سے ثابت ہو۔
منصب قضاء کی فضیلت اور اہمیت: شمس الائمہ سرخسی لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد حق کے ساتھ فیصلہ کرنا سب سے اہم فرض ہے اور یہ سب سے افضل عبادت ہے کیونکہ اس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنایا اور فرمایا: اني جاعل في الارض خلیفۃ (سورہ بقرہ)ہم زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والے ہیں۔اور حضرت داود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: یا داود انا جعلناک خلیفۃ في الارض(سورہ ص) اے داود ؑ ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنادیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہر نبی اور رسول کو حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم دیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی ونور یحکم بھا النبیون (سورہ مائدہ) ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نورہے جس کے ساتھ انبیاء حکم دیتے ہیں۔
حتیٰ کہ خاتم الانبیا علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی ارشاد فرمایا:(سورہ مائدہ) اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل کیے اس کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کیجئے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے۔ اور یہ حکم اس لئے ہے کہ حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کی وجہ سے عدل وانصاف کا اظہار ہوتا ہے اور عدل کے سبب زمین میں سکون و امن قائم ہوتا ہے، نیز ہر صاحب عقل یہ چاہتا ہے کہ ظلم کو دور کیا جائے، ظالم سے مظلوم کا بدلہ لیا جائے اور ہر حق دار کو اس کا حق پہنچادیا جائے اور نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے اسی مقصد کے لئے انبیاء اور رسل علیھم سلام کی بعثت کی گئی تھی اور خلفاء راشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی تا دمِ زیست اسی مشن کی تکمیل میں لگے رہے۔
عہد رسالت میں قضاء کا نظام : عہد رسالت میں تمام مقدمات کے فیصلے خود جناب رسالت مآب ﷺ کرتے تھے، لیکن بعض اوقات آپ ؐ صحابہ کی تربیت کی خاطر صحابہ کرام کو بھی قضاء کرنے کا حکم دیتے تھے جیسا کہ امام احمد اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں: عن عمرو بن العاص جاء رسول اللہ ﷺ خصمان یختصمان، فقال لعمرو: اقض بینھما یا عمرو ۔۔۔ الخ ( مسند احمد) حضرت عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں دو آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر اپنا مقدمہ پیش کیا، آپ ؐنے حضرت عمرو سے کہا: اے عمرو !ان کے درمیان فیصلہ کرو، حضرت عمرو نے کہا یا رسول اللہ ؐ فیصلہ کرنا تو آپ ہی کا منصب ہے، آپ نے فرمایا ہر چند کہ ایسا ہی ہے، حضرت عمرو نے کہا اگر میں ان کے درمیان فیصلہ کردوں تو مجھے کیا اجر ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا: اگر تم نے ان کے درمیان صحیح فیصلہ کیا تو تم کو دس نیکیاں ملیں گی، اور اگر صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کے باوجود تم سے خطاء ہو جائے تو تم کو ایک نیکی ملے گی۔
جب اسلام کی سرحدیں پھیل گئیں اور نبی کریم ﷺ کی مشغولیات بڑھ گئیں تو آپ نے اسلامی علاقوں میں حضرات صحابہ کرام کو حاکم مقرر کرکے بھیجا اس وقت قضاء کا علیحدہ شعبہ نہیں تھا اور علاقہ کے حاکم کے ہی ذمہ قضاء کے فرائض بھی ہوتے تھے، آپؐ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا اور حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو بحرین کا قاضی مقرر کیا۔ (المطالب العالیہ )
علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں: آغاز اسلام میں خلفاء خود فیصلے کرتے تھے اور منصب قضاء کسی اور کو نہیں تفویض کرتے تھے۔ سب سے پہلے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ منصب دوسروں کے سپرد کیا، آپ نے مدینہ میںحضرت ابوالدر دائؓ کو، بصرہ میں قاضي شریح کو، اور کو فہ میں حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو قاضی مقرر فرمایا۔ حضرت عمر ؓنے حضرت ابو موسی اشعریؓ کو فیصلہ کرنے کے بارے میں ایک خط لکھا آپ کا یہ خط بہت مشہور ہے اور احکام قضاء کے سلسلے میں ایک اساسی دستور ہے اور دستاویزی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت عمر لکھتے ہیں: حمد وصلوٰۃ کے بعد واضح ہو کہ فیصلہ کرنا ایک اہم فرض ہے اور یہ وہ سنت ہے جس کی پیروی کرنا واجب ہے، جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو تواس کا ایسا فیصلہ کرنا بے سود ہے جس کو نافذ نہ کیا جا سکے، مجلس قضاء میں لوگوں کے در میان مساوات رکھو تاکہ امیر تمہاری بے جا حمایت کی امید نہ رکھے اور غریب تمہارے انصاف سے نا امید نہ ہو، مدعی(دعویٰ کرنے والا) کے ذمہ ثبوت پیش کرنا ہے اور مدعیٰ علیہ (جس پر دعویٰ کیا جائے) پر قسم لازم ہے۔
مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا جائز ہے البتہ ایسی صلح جائزہ نہیں ہے جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے، اگر کل تم کوئی فیصلہ کر چکے ہو اور آج اسی میں غور وفکر کے بعد تم پر حق واضح ہو جائے توکل کا کیا ہوا فیصلہ تمہیں حق کی طرف رجوع کرنے سے نہ روکے کیونکہ حق قدیم ہے جس کو کوئی چیز باطل نہیں کر سکتی، حق کی طرف رجوع کرنا باطل پر اڑے رہنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے، جس چیز کی نظیر تمہیں قرآن اور سنت میں نہ ملے تو اس کے امثال اور نظائر پر غور کرو اور ان نظائر پر قیاس کر کے اس چیز کا فیصلہ کرو، اگر دعویٰ کرنے والا کسی غیر موجود حق کا یاکسی میعادی ثبوت کا دعویدار ہو تو مقدمہ کی تاریخ ڈال دو اور اگر وہ ثبوت لے آئے تو اس کا حق اس کے حوالے کر دو ورنہ اس کے خلاف فیصلہ کر دو، کیونکہ شک اور ابہام کو دور کرنے کی اس سے بہتر اور کوئی صورت نہیں ہے۔
عدل وانصاف ، امانت داری ، حق کے ساتھ فیصلہ کرنا چاہئے۔ عن بریدۃ عن النبي ﷺ قال: القضاۃ ثلاثۃ، واحد في الجنۃ ۔۔۔ الخ (ابو داود) حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاضیوں کی تین قسمیں ہیں ایک جنت میں ہو گا اور دو جہنم میں ہوں گے، جنت میں وہ شخص ہو گا جس کو حق کا علم ہوگا اور وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے گا اور جس شخص کو حق کا علم ہو اس کے باوجود وہ فیصلہ میں ظلم کرے اور جو شخص بغیر علم کے لوگوں کے فیصلے کرے وہ بھی جہنم میں ہوگا ۔
عن عائشۃ قالت: سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: لیأ تین علی القاضي العدل یوم القیٰمۃ ساعۃیتمنی ۔۔۔ الخ (مجمع الزوائد)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن انصاف پسند قاضی پر یقینا ایک ایسی گھڑی آئے گی جس میں وہ تمنا کر ے گا کہ کاش اس نے دو آدمیوں کے درمیان ایک کھجور کا بھی فیصلہ نہ کیا ہو تا۔
سلف صالحین کا منصب قضاء کو قبول کرنے سے گریز:ان احادیث کی بناء پر اکثر سلف صالحین سے منقول ہے کہ وہ منصب قضاء کو قبول کرنے سے گھبراتے تھے اور ہزاروں مشقتیںاور صعوبتیں برداشت کرتے لیکن قضاء کا عہدہ قبول نہیں کرتے تھے۔
علامہ سر خسی لکھتے ہیں کہ قاضی شریح نے کہا قضا تو انگارے کی مانند ہے، دو لکڑیوں (یعنی دو گواہوں) کی مدد سے اس کو دُور کر و۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ جب فریقین مؤدب ہو کر اپنے مقدمے کی یکسوئی کیلئے قاضی کے سامنے بیٹھتے ہیں تو آگ کی حرارت قاضی کی طرف بڑھتی ہے اس کو چاہیے کہ وہ دو گواہوں کی مدد سے اپنی ذات کو اس حرارت سے محفوظ رکھے۔ اگر اس نے گوا ہوں کی گواہی کی بنیاد پر فیصلہ کیا تو گویا اس نے اپنی ذات کو جلنے سے بچالیا اور اگر اس نے اس کے برعکس فیصلہ کیا تو اس نے اپنی ذات کو جلا دیا۔
عبدالرحمن بن غنم اشعری فرماتے ہیں کہ زمین کے حاکم پر تف ہے جو اس دن سے نہ ڈرے جب آسمان کا حاکم اس کو جہنم میں ڈالے گا، البتہ (روز ِقیامت) ایسا حاکم (قاضی) بھی ہو گا جس نے عدل و انصاف اختیار کر کے حق کے مطابق فیصلہ کیا، نفسانی خواہشات اور قرابت داری کو پیش نظر نہیں رکھا اور نہ لالچ اور خوف کی وجہ سے فیصلہ کیا بلکہ اللہ کی کتاب کو پیش نظر رکھا ۔
سفیان ثوری کو منصب قضاء کے لیے بلایا گیا تو وہ بصرہ میں جا کر چھپ گئے اور وہیں فوت ہو گئے امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کو کوڑے لگائے گئے اور تین بار قید میں ڈالا گیا لیکن آپ نے منصب قضاء قبول نہیں کیا۔
قرآن مجید کی روشنی میں منصب قضاء قبول کرنے کا بیان : اللہ عزوجل ارشاد فرماتاہے: یَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوَی (سورہ ص) اے داود ؑ!ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے تو تم لوگوں میں حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرو اور خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُم بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن (سورہ مائدہ) اور اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو عدل کے ساتھ فیصلہ کریں بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْط(سورہ نسائ) اے ایمان والو! انصاف پر اچھی طرح قائم رہنے والے ہو جائو۔
احادیث کی روشنی میں منصب قضاء قبول کرنے کا بیان: امام بخاری روایت کرتے ہیں: عن عبداللہ بن مسعود قال قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: لا حسد الا فی اثنتین رجل آتاہ اللہ ۔۔۔ الخ (بخاری)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس کو حق کے راستوںمیں خرچ کرتا ہے، دوسرا وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔
عن ابي ایوب قال: قال رسول اللہ ﷺ: یداللہ مع القاضی ۔۔۔ الخ (مسند احمد) حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب قاضی فیصلہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ اللہ کی مدد ہوتی ہے اور جب قاسم تقسیم کرتا ہے تو فضل الٰہی اس کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔
عن ابي ھریرۃ رضي اللہ تعالیٰ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ: من ولي من امر المسلمین ولایۃً وکانت بنیۃ الحق ۔۔۔ الخ (مجمع الزوائد)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی در آں حالیکہ اس کی نیت حق کے مطابق کام کرنے کی تھی تو اللہ تعالی اس کے ساتھ دو فرشتے مقرر کر دیتا ہے جو اس کو بتلاتے ہیں اور اس کی حق کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، اور جس شخص کو مسلمانوں کا کوئی عہدہ دیا گیا در آں حالیکہ اس کی نیت حق کے مطابق کام کرنے کی نہ تھی تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے نفس کے سپرد کر دیتا ہے اس حدیث کو امام طبرانی اور امام بزار نے روایت کیاہے۔
عن ابي ھریرۃ عن النبي ﷺ قال: سبعۃ یظلھم اللہ في ظلہ یوم لا ظل الاظلہ: ۔۔۔ الخ (بخاری)حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس دن اللہ کے سایہ (رحمت) کے سوا کسی کا سایہ نہیں ہوگا اس دن سات قسم کے لوگ اللہ کے سائے میں ہوں گے،(۱) انصاف کرنے والا امام، (۲)وہ نوجوان جس کی نشو ونما اللہ کی عبادت میں ہوئی ہو ، (۳) وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے، (۴)وہ دو آدمی جو اللہ کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہوں، اللہ کی محبت کی وجہ سے ملتے ہوں اور اسی وجہ سے جدا ہوتے ہوں، (۵) وہ شخص جس کو کسی حسین وجمیل اور با اختیار عورت نے (گناہ کی ) دعوت دی اور اس نے اس کے جواب میں کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، (۶) وہ شخص جس نے چھپا کر صدقہ کیا حتی کہ دائیں ہاتھ کو پتا نہ چلا کہ بائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے(۷) وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کا ذکر کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہے۔
منصب قضاء قبول کرنے کا حکم : امام خصاف فرماتے ہیں ہمیں بہت سی ایسی احادیث ملتی ہیں جن سے یہ ظا ہر ہو تا ہے کہ منصب قضاء قبول کرنا ایک نا پسندیدہ امر ہے، بعض صالح اور نیک حضرات نے اس منصب کو قبول کیا اور کچھ صالح ونیک حضرات ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس سے اجتناب کیا مگر اس منصب کو قبول نہ کرنا دین ودنیا میں بھلائی کا موجب ہے۔ اور ان میں سے کچھ یہ منصب قبول کر لیں تو پھر امام خصاف کا یہ قول اس صورت پر محمول ہے جب کسی شہر میں بہت سے نیک اور صاحب علم حضرات موجود ہوں اگر ان میں سے کوئی ایک شخص یہ منصب قبول نہ کر ے تو وہ گنہگار نہ ہوگا اور اگر کسی شہر میں صرف ایک ہی باصلاحیت شخص ہو جو نیک اور صاحب علم ہو پھر بھی وہ اس منصب کو قبول نہ کر ے تو وہ گنہ گار ہوگا۔
اگر کسی شہر میں بہت سے نیک اور صاحب علم لوگ ہوں اور وہ سب اس منصب کو قبول کرنے سے انکار کردیں اور حاکم وقت بھی بذات خود مقدمات کے فیصلے نہ کرتا ہو تو وہ سب لوگ گنہگار ہوں گے، کیونکہ اس صورت میں احکام الٰہی کی تعمیل نہیں ہوگی اور اگر سب لوگ اس منصب سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ایک جاہل آدمی کو یہ منصب تفویض کر دیں تو یہ سب لوگ گناہ گار ہوں گے کیونکہ جاہل شخص احکام الٰہی کی دھجیاں اڑا دے گا، علامہ ابن ہمام نے بزازیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ منصب قضاء کو قبول کرنا فرض کفایہ ہے۔
٭٭٭