صرف فوری تین طلاق ممنوع، طلاق احسن ممنوع نہیں: بمبئی ہائیکورٹ
یہ فیصلہ اس کیس میں سنایا گیا، جس میں جلگاؤں میں ایک خاتون نے اپنے شوہر اور سسرال والوں کے خلاف 2024 میں مقدمہ درج کروایا تھا۔ خاتون نے الزام لگایا تھا کہ شوہر نے اسے تین طلاق دی ہے۔

ممبئی: بمبئی ہائیکورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ صرف فوری تین طلاق، یعنی طلاق بدعت، مسلم خواتین (شادی کے حقوق کے تحفظ) ایکٹ کے تحت ممنوع ہے، جبکہ روایتی طریقے سے دی گئی طلاق، جیسے طلاق احسن، اس قانون کے دائرے میں نہیں آتی۔ عدالت نے اس بنیاد پر ایک شخص اور اس کے والدین کے خلاف درج مقدمہ کو منسوخ کرنے کا حکم دیا ہے۔
بنچ کے جسٹس ویبھا کنکن واڑی اور جسٹس سنجے دیشمکھ نے کہا کہ ایکٹ کی دفعات کے تحت صرف اسی طلاق کو غیر قانونی اور سزا کے قابل قرار دیا گیا ہے، جس کا اثر فوری یا ناقابل واپسی ہو۔ عدالت نے واضح کیا کہ دیگر طریقۂ طلاق جیسے طلاق احسن ممنوع نہیں ہیں، اور ان پر مقدمہ درج کرنا قانون کے غلط استعمال کے مترادف ہوگا۔
یہ فیصلہ اس کیس میں سنایا گیا، جس میں جلگاؤں میں ایک خاتون نے اپنے شوہر اور سسرال والوں کے خلاف 2024 میں مقدمہ درج کروایا تھا۔ خاتون نے الزام لگایا تھا کہ شوہر نے اسے تین طلاق دی ہے۔
تاہم عدالت نے یہ طے کیا کہ شوہر نے طلاق احسن کے طریقے سے طلاق دی، جو اسلامی شریعت کے مطابق ایک درست طریقہ ہے، اور اس کے خلاف مقدمہ قابل قبول نہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ طلاق احسن کے مطابق، شوہر نے دسمبر 2023 میں گواہوں کی موجودگی میں اعلان کیا اور تین ماہ بعد باقاعدہ طلاق نامہ جاری کیا، جس مدت کے دوران زوجین میں کوئی رجوع نہیں ہوا۔ اس اعتبار سے یہ طلاق مکمل طور پر شرعی اور قانونی ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ چونکہ ایف آئی آر صرف طلاق سے متعلق ہے اور اس میں ہراسانی یا دیگر الزامات شامل نہیں، اس لیے اس میں سسرال والوں کو شامل کرنا بھی قانون کے دائرے سے باہر ہے۔ اگر ان کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی تو یہ قانون کے عمل کا بیجا استعمال تصور ہوگا۔
جوڑے نے 2021 میں شادی کی تھی اور 2023 میں علیحدگی ہوئی تھی۔ شوہر نے دعویٰ کیا کہ طلاق احسن کا طریقہ نہ صرف شرعی ہے بلکہ مسلم خواتین ایکٹ کے تحت بھی جرم نہیں۔ عدالت نے اس مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے ایف آئی آر کو منسوخ کر دیا۔