حیدرآباد

قتل کی بڑھتی وارداتیں تشویشناک، ارباب اقتدار اور عوام کے تعاون سے امن و ضبط کا قیام ممکن: مفتی سید ضیاء الدین نقشبندی

شہر میں بڑھتی ہوئی قتل کی واردات کے پیش نظر ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر میں ایک خصوصی نشست منعقد ہوئی جس میں عالم اسلام کی عبقری شخصیت مولانا مفتی حافظ ڈاکٹر سید ضیاء الدین نقشبندی شیخ الفقہ وصدر مفتی جامعہ نظامیہ نے پراثر اور پرمغز خطاب کیا۔

حیدرآباد: شہر میں بڑھتی ہوئی قتل کی واردات کے پیش نظر ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر میں ایک خصوصی نشست منعقد ہوئی جس میں عالم اسلام کی عبقری شخصیت مولانا مفتی حافظ ڈاکٹر سید ضیاء الدین نقشبندی شیخ الفقہ وصدر مفتی جامعہ نظامیہ نے پراثر اور پرمغز خطاب کیا۔

متعلقہ خبریں
مدرسہ انوارسیفی میں سالانہ جلسہ تقسیم اسناد عطائے خلعت و دستاربندی
جامعہ نظامیہ میں درس بخاری شریف سے مولانا مفتی خلیل احمد ، مولانا ڈاکٹر محمد سیف اللہ اوردیگر علماء کا خطاب
حیدرآباد: شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ کے 110 ویں عرس مبارک کے موقع پر جلسہ تقسیم اسناد کا انعقاد
حضرت بانی جامعہ نظامیہؒ کی حیات وعلمی خدمات: ڈاکٹرحافظ محمد صابر پاشاہ قادری
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ کا یوم ولادت: جامعہ نظامیہ میں خصوصی جلسہ

مفتی صاحب نے شہر میں بڑھتی ہوئی قتل کی واردات کے سلسلہ میں کہا کہ اندرون ایک ماہ دو درجن سے زائد قتل کے معاملات کا سامنے آنا ہمارے لئے ایک لمحۂ فکر ہے۔ ارباب اقتدار اور عوام کے مشترکہ تعاون اور جدوجہد ہی سے اس کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔

مفتی صاحب نے اپنے خطاب کے دوران قتل کی بڑھتی ہوئی واردات کو انتہائی تشویشناک قرار دیا اور کہا کہ یہ ہمارے معاشرے کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا،یہ وقت ہے کہ ہم سب اجتماعی و انفرادی ہر جہت سے ممکنہ کوشش سے دریغ نہ کریں۔

علماء کرام اپنی سطح پر، ارباب اقتدار حکومتی سطح پر اور قائدین و رہنما حضرات اپنے طور پر کام کریں تاکہ اس خرابی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ مفتی صاحب نے اپنے خطاب میں قرآن کریم کی آیات کریمہ اور احادیث شریفہ کے ذریعہ لوگوں کو نصیحت کی اور انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ معاشرتی خرابیوں کے خلاف مل کر جدوجہد کریں۔

انہوں نے سورہ نساء کی آیت نمبر 93 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جو کوئی شخص عمداً کسی مومن کا قتل کرتا ہے تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا، اس پر خدا کا غضب اور اس کی لعنت ہے، اور اللہ نے اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

قتل ایک ایسا سنگین جرم ہے کہ اس ایک گناہ پر قرآن کریم میں چار قسم کی وعیدیں بیان کی گئیں : ایک یہ کہ قاتل کے لئے جہنم ہے، دوسرا یہ کہ اللہ کا غضب اس پر ہوگا، تیسرا یہ کہ خدا کی لعنت اس پر ہے، اور چوتھا یہ کہ اللہ نے اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

انہوں نے حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ” حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جہنم میں سب سے کم درجے کا عذاب یہ ہے کہ جہنمی کو جوتے پہنائے جائیں گے اس کی شدت اور حرارت سے دماغ پگھل کر بہ جائے گا۔ تو مقام غور ہے کہ جب جہنم کا سب سے کم درجہ کا عذاب اس قدر ہولناک ہے، تو قاتل کے لئے عذابا عظیما (بڑے عذاب) کی وعید بیان کی گئ، اس کی شدت اور ہولناکی کا کیا حال ہوگا؟

احادیث شریفہ میں قتل کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا،

دین اسلام نے نہ صرف ناحق قتل کو جرم قرار دیا بلکہ قتل کا حکم دینا،قاتل کا تعاون کرنا یا کسی کو قتل پر اکسانا حتی کہ قتل میں آدھے کلمہ کے برابر شریک ہونے کو بھی اللہ کی سخت ناراضگی کا باعث قرار دیا۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ قاتل بھی مسلمان ہے اور مقتول بھی، ایک انسان کو قتل کرنا صرف ایک شخص کا خون بہانا نہیں بلکہ اس کے والدین کو بے سہارا کرنا، بیوی کو بیوہ کرنا اور بچوں کو یتیم بنانا ہے۔

اسی لئے قرآن کریم نے ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے مماثل قرار دیا ہے۔صحیح بخاری میں حدیث شریف ہے، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے تاریخی خطبہ میں ارشاد فرمایا:جس طرح آج کا دن حرمت والا، یہ (ذی الحجہ کا) مہینہ حرمت والا ہے اور یہ شہر (مکہ مکرمہ) حرمت والا ہے، مسلمان کی جان، مال اور عزت وآبرو بھی اسی طرح حرمت والی ہے۔

مفتی صاحب نے عوام الناس کو اس بات کی تلقین کی کہ وہ معاملہ کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے گہرائی سے جائزہ لیں اور ہر فرد اپنی اپنی ذاتی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو پورا کرے تاکہ قتل کی بڑھتی ہوئی واردات کی روک تھام ہوسکے۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کے لیے ان کے اسباب اور عوامل کا گہرائی سے جائزہ لینا نہایت ضروری ہے۔

اس سلسلہ میں پہلا اقدام نوجوانوں کو بری صحبتوں سے بچانا اور دیندار اور اعلی کردار کا حامل بنانا ہوگا، برے کردار کے حامل افراد کی صحبتوں سے نوجوانوں کو دور رکھا جانا چاہئے کیونکہ یہ ان کے ذہنوں پر منفی اثرات ڈال سکتے ہیں۔

نیز موجودہ دور میں بہت سے فلموں اور ویب سیریز کا مواد ایسا ہے جو نوجوانوں کو مجرمانہ ذہنیت کا حامل بنا رہا ہے، بطور خاص ایسی فلموں اور سیریز کے دیکھنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ معاشرے میں برائی اور جرائم کو فروغ دیتے ہیں۔

معاشرے کو بچانے کے لئے ان تمام پہلوؤں پر نظر رکھنی ہوگی۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنی نسل کی دینی روحانی اخلاقی تربیت اور کردار سازی پر خصوصی توجہ دیں تاکہ وہ باصلاحیت بنیں اور ملک و ملت کے حق میں امن وسلامتی کا ذریعہ بنیں۔