تیل کی طلب کو سمت عطا کرنے والے ملک کے طورپر ہندوستان جلد ہی چین کو پیچھے چھوڑدے گا
فزوں تر آبادی، جو امکانی طور پر پہلے ہی چین کی آبادی سے تجاوز کر چکی ہے، وہ دنیا کی تیسری سب سے وسیع تر توانائی کھپت والے ملک کی طلب کو سمت عطا کر رہی ہے۔
نئی دہلی: بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے)کے سربراہ فاتح بیرول نے کہا ہے کہ بھارت عالمی تیل کی طلب کے وسیع تر سمت کار کے طور پر جلد ہی چین کو پیچھے چھوڑ دے گا کیونکہ اسے سبز ہائیڈروجن کی پیداوار کے معاملے میں ایک عالمی قائد بننے کا موقع حاصل ہے۔
فزوں تر آبادی، جو امکانی طور پر پہلے ہی چین کی آبادی سے تجاوز کر چکی ہے، وہ دنیا کی تیسری سب سے وسیع تر توانائی کھپت والے ملک کی طلب کو سمت عطا کر رہی ہے۔
حجری ایندھن سے صاف ستھرے وسائل کی جانب اس کی منتقلی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دیگر خطوں کو پیچھے چھوڑ دے گی، تاہم قابل احیاء توانائی وسائل، مثلاً شمسی توانائی کی مدد سے پیدا کی گئی سستی بجلی ملک کو ایک سبز ہائیڈروجن قائد کی شکل اختیار کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
بھارت کی تیل کی طلب نمو پذیر ہوگی اور میرا خیال ہے کہ بھارت جلد ہی عالمی تیل طلب نمو کے معاملے میں وسیع تر مہمیز کار کے طور پر چین سے آگے نکل جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار بیرول نے یہاں جی 20 کے انعقاد کے شانہ بہ شانہ منعقدہ ملاقات میں کیا ہے۔
فاتح بیرول نےکہا کہ یہ بنیادی طور پر اس لیے ممکن ہوگا کیونکہ چین نے اپنے یہاں تیز رفتاری کے ساتھ برقی موٹرگاڑیوں کو اپنانے کا عمل اختیار کرنا شروع کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں پیڑول اور ڈیزل کی کھپت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ،’’چین میں تیل کی طلب کم ہونے کے عناصر میں سے ایک عنصر کاروں اور بسوں کی تیز رفتار برق کاری بھی ہے۔ ‘‘انہوں نے توقع ظاہر کی کہ بھارت میں طلب تخفیف سے ہمکنار ہوگی کیونکہ برق کاری (بجلی سے چارج ہونے والی بیٹریوں کی مدد سے چلنے والی موٹر گاڑیاں)کا عمل مہمیز ہوگا۔
خیال رہے کہ چین میں برقی موٹر گاڑیوں کی فروخت 2022 میں دوگنا ہوکر 6.1 ملین اکائیوں کے بقدر تک پہنچ گئی جبکہ بھارت میں اسی مدت کے دوران 48000 کے بقدر موٹر گاڑیاں فروخت ہوئیں۔
اس سے قبل، تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے بیرول نے کہاکہ انہوں نے آج سے چھ برس قبل کہا تھا کہ بھارت عالمی توانائی امور کے معاملے میں مرکزی حیثیت حاصل کرنے کے لیے کمربستہ ہے۔ ’’آج چھ برسوں کے بعد میں آپ کے سامنے اعتراف کرتا ہوں کہ بھارت عالمی توانائی امور کے معاملے میں آج مرکزی حیثیت کا حامل ملک بن گیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یہ محض اس کی وسیع تر طلب کی بنیاد پر ممکن نہیں ہوا ہے بلکہ ان تیز رفتار اقدامات کا نتیجہ ہے جو اس نے قابل احیاء توانائی مثلاً شمسی اور حیاتیاتی ایندھن مثلاً گنے ، اناجوں اور زرعی باقیات سے تیار کیے گئے ایتھنول کے سلسلے میں کیے ہیں جنہوں نے حجری ایندھنوں کی جگہ لی ہے۔ پیڑول میں 10 فیصد کے بقدر ایتھنول کی آمیزش نے ملک کو 2 بلین امریکی ڈالر کے بقدر کے تیل درآمدات کے صرفے سے احتراز کرنے میں مدد دی۔
گذشتہ پانچ برسوں میں بھارت نے عالمی شمسی صلاحیت میں سب سے وسیع تر تعاون دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نے 500 ملین کے بقدر افراد کو بجلی تک رسائی فراہم کی ہے اور کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والے لکڑی اور دیگر مواد پر مبنی ایندھن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گھریلو کثافت کے خاتمے کے لیے تقریباً 100 ملین کے بقدر کوکنگ گیس فراہم کیے۔
انہوں نے زور دے کرکہا کہ ئیڈرون کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا جا سکتا ہے جو توانائی کا سب سے صاف ستھرا دریافت شدہ ذریعہ ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت پانی کے عناصر کو سبز ہائیڈروجن پیدا کرنے کے لیے منقسم کر سکتا ہے اور اس کے لیے قابل احیاء توانائی وسائل سے پیدا کی گئی سستی بجلی کو بروئے کا رلا سکتا ہے اور یہ سب سے کم سبز ہائیڈروجن پیدا کرنے والاملک بن کر ابھر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’میرے نظریے سے بھارت عالمی قائد بننے کے تاریخی موقع کو ہاتھ سے جانے دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا تاکہ آئندہ وہ سبز ہائیڈروجن کےمعاملے میں ایک سوپر پاور بن سکے۔‘‘
پٹرولیم اور قدرتی گیس کے مرکزی وزیر ہردیپ سنگھ پوری کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ بھارت کے پاس 2070 سے قبل کاربن اخراج کو صفر تک پہنچانے کے مضمرات دستیاب ہیں،بیرول نے کہا کہ ملک صاف ستھری توانائی کے محاذ پر عمدہ کام کر رہا ہے۔
جب وزیرموصوف پوری نے کہا کہ بھارت 2070 سے قبل خالص صفر کے ہدف تک پہنچ سکتا ہے، یہ بھارت اور بقیہ دنیا کے لیے بہت اچھی خبر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میرے خیال سے مالدار ممالک کو اپنے صفر اخراج کے اہداف تک اس سے بھی قبل (موجودہ مقررہ حد )2050 تک پہنچ جانا چاہئے۔
لہٰذا ابھرتے ہوئے ممالک کے لیے وافر گنجائش فراہم کریں تاکہ وہ بعد ازاں صفر اخراج کے ہدف تک پہنچ سکیں اور پوری دنیا 2050 تک خالص صفر اخراج کے ہدف تک پہنچ سکے۔‘‘
عالمی توانائی منظر نامے کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ برس دنیا بھر میں تعمیر کیے گئے تمام تر بجلی پلانٹوں میں سے 80 فیصد توانائی کے قابل احیاء وسائل پر مبنی تھے اور بقیہ 20 فیصد حجری ایندھنوں پر مبنی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قابل احیاء توانائی کے دائرے کے تحت شمسی توانائی یقینی طور پر سب سے اہم عنصر ہے ۔ پہلی مرتبہ شمسی توانائی کے شعبے میں عالمی سرمایہ کاری تیل پیداوار کے شعبے میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے مقابلے میں زیادہ ہوئی ہے۔ میرے خیال سے اب شمسی توانائی، عالمی توانائی نظام کی ملکہ ہے۔
برقی کاروں نے بھی مثالی نمو ملاحظہ کی ہے، آج سے دو سال قبل پوری دنیا میں فروخت ہونے والی 25 کاروں میں سے ایک کار ہونے سے لے کر اس سال دنیا بھر میں فروخت ہونے والی پانچ کاروں میں سے ایک کار برقی قوت سے چلنے والی کا رہے۔
اعداد و شمار اور سرمایہ کاریوں پر نظر ڈالیں جو پہلے سے عمل میں آچکی ہیں تو ایک نئی صاف ستھری توانائی معیشت ابھر کر سامنے آتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تیل اور گیس کا استعمال مکمل طور پر ترک کر دیں گے۔ ہم آئندہ برسوں میں بھی تیل اور گیس کا استعمال کرتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس سال توانائی کے شعبے میں کی گئی مجموعی 2.7 کھرب امریکی ڈالر کےبقدر کی سرمایہ کاری میں سے ایک کھرب امریکی ڈالر کے بقدر کی سرمایہ کاری حجری ایندھن کے لیے اور 1.7 کھرب امریکی ڈالر کے بقدر سرمایہ کاری صاف ستھرے توانائی وسائل کے لیے عمل میں آئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2015 سے صاف ستھری توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری سال بہ سال اضافے سے ہمکنار ہوتی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاہم صاف ستھری توانائی میں ہونے والی سرمایہ کاری میں رونما ہونے والی نمو جو ترقی یافتہ معیشتوں اور ٹیم کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ محض تھوڑا سا حصہ ابھرتی ہوئی منڈیوں میں نظر آرہا ہے جہاں اس کی اشد ضرورت ہے۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ترقی یافتہ معیشتوں، کثیر پہلوئی ایجنسیوں اور مالی اداروں کو صاف ستھری توانائی سرمایہ کاری کے عمل کو ابھرتے ہوئے ممالک میں فروغ دینا چاہئے۔
اپنے تازہ ترین توانائی آؤٹ لک میں، پیر س کی ایجنسی نے کہا ہے کہ 2022-28 کے درمیان تقریباً تین چوتھائی حصے کی طلب پر مبنی نمو اور اس کا اضافہ ایشیا کی جانب سے ہوگا، اور بھارت 2027 تک نمو کے اہم وسیلے کے طور پر چین کو پیچھے چھوڑ دے گا۔