دہلی

بین مذہبی شادی، ہندو عورت کی مرضی معلوم کی جائے: سپریم کورٹ

بین مذہبی شادی کا تنازعہ 2018ء میں سپریم کورٹ پہنچا تھا۔ درخواست گذار محمد دانش عدالت سے رجوع ہوا تھا‘ اس نے عدالت سے یہ ہدایت دینے کی گذارش کی تھی کہ اس کی بیوی کو جو اس وقت 20 سال کی تھی‘ اس کے ماں باپ کے شکنجہ سے آزادکرایاجائے۔

نئی دہلی: ایک عورت کو اس کے شوہر کے بجائے جو دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہے‘ ماں باپ کے ساتھ رہنے کی اجازت دینے کے 6 سال بعد سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کے دن شوہر کی تازہ درخواست کا نوٹ لیاکہ اس کی بیوی کو اس کے ماں باپ کے شکنجے سے آزاد کرایاجائے اور سیشن جج سے کہاجائے کہ وہ عورت سے دریافت کریں کہ آیا وہ شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا نہیں۔

متعلقہ خبریں
نیٹ یوجی کونسلنگ ملتوی
سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت میں 4 سال کی تاخیر پر این آئی اے کی سرزنش کی
ماچرلہ کے ایم ایل اے رام کرشنا ریڈی پر سپریم کورٹ کی پھٹکار
سپریم کورٹ کا تلنگانہ ہائیکورٹ کے فیصلہ کو چالینج کردہ عرضی پر سماعت سے اتفاق
عصمت دری کے ملزم تھانہ انچارج کی ضمانت منسوخ

بین مذہبی شادی کا تنازعہ 2018ء میں سپریم کورٹ پہنچا تھا۔ درخواست گذار محمد دانش عدالت سے رجوع ہوا تھا‘ اس نے عدالت سے یہ ہدایت دینے کی گذارش کی تھی کہ اس کی بیوی کو جو اس وقت 20 سال کی تھی‘ اس کے ماں باپ کے شکنجہ سے آزادکرایاجائے۔

اس وقت چیف جسٹس دیپک مشرا کی بنچ نے 17مئی 2018ء کو عورت کو ماں باپ کے پاس واپس جانے کی اجازت دی تھی جن کا دعویٰ تھا کہ دانش نے جو نکاح نامہ دکھایا ہے وہ فیک ہے۔ اس نے ان کی لڑکی کا اغوا کیاتھا۔

ججس نے عورت سے بات چیت کے بعد اسے ماں باپ کے ساتھ جانے کی اجازت دی تھی۔ انہوں نے کہاتھا کہ وہ بالغ ہے اور اپنی مرضی کی زندگی جینے کیلئے آزاد ہے۔ عورت نے اس وقت اتراکھنڈ کے ضلع ہلدوانی میں رہنے والے اس کے ماں باپ کے پاس جانے کی خواہش ظاہرکی تھی۔

ملک کی سب سے بڑی عدالت نے دانش کی درخواست حبس بیجا (ہیبیس کارپس) کی یکسوئی کردی تھی۔ دانش نے گزارش کی تھی کہ شادی اور نکاح نامہ کے پہلو کو ہاتھ لگائے بغیر اس کی بیوی کو عدالت میں حاضرکرنے کی ہدایت کی جائے۔

چہارشنبہ کے دن جسٹس سدھانشودھولیہ اور جسٹس احسن الدین امان اللہ پرمشتمل وکیشن بنچ نے دانش کی تازہ درخواست کا نوٹ لیا جس میں دعویٰ کیاگیاکہ اب اس کی بیوی اس کے پاس آناچاہتی ہے۔

بنچ نے کہاکہ فرسٹ ایڈیشنل سیشن جج ہلدوانی کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ عورت کے گھر جائے اور اس کا بیان ریکارڈ کرے۔ بنچ نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ جج کو ضروری سہولتیں فراہم کرے۔ بنچ نے جج سے کہا کہ وہ اندرون دو ہفتے بیان درج کرکے رپورٹ داخل کردے۔ اس کے ایک ہفتہ بعد معاملہ کی سماعت ہوگی۔

a3w
a3w