طنز و مزاحمضامین

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے

حمید عادل

حیدرآبادی ہمیشہ سے مہمان نواز واقع ہوئے ہیں،ماضی میں انتظار ہوا کرتاتھا کہ کوئی مہمان گھر آئے تو اس کے ساتھ کھایا جائے لیکن آج ہم سوچتے ہیں کہ مہمان چلا جائے توپھر کھانا کھایا جائے…کس قدر گراوٹ کا شکار ہوچکا ہے ہمارے سوچنے کا انداز!
ماضی ایسا دور تھا کہ جس میںلوگ ایک دوسرے کے احساسات و جذبات کا بھرپور خیال رکھا کرتے تھے۔ماضی کی بہت ساری باتیں آج خواب سی لگتی ہیں لیکن ماضی کی ایسی کئی باتیں ہیں جو آج حقیقت بن چکی ہیں ، مثلاً محفل میںلوگ بیٹھے ہوں اور کوئی اٹھ کر لوگوں کو پھلانگتا جارہا ہو اور دھکا لگ جائے تو وہ بگڑ کر کہتا: کیا اب ہمارے سرکے اوپر سے جاؤگے؟ آج شہر میں جگہ جگہ فلائی اوور بن گئے ہیں اورلوگ سروں کے او پر ہی سے جارہے ہیں۔
یہ وہ دور ہے کہ کچرے کی قدر ہے اور انسان کو نہ صرف ’’ کچرا‘‘ سمجھا جانے لگا ہے بلکہ انسان ہی انسان کا جگہ جگہ ’’ کچرا‘‘ کرتا نظر آتا ہے۔ جن آزمائشی حالات سے ہم نبردآزما ہیں، اس کے ہم خود ذمے دار ہیں۔ ہم کسی دوسرے کو خود سے آگے بڑھتا ہوا دیکھ ہی نہیں سکتے، اس کی مثال ہمیں سرِ راہ چلتے چلتے مل جائے گی۔ اگر ہم پرسکون انداز میں موٹر سائیکل پر کہیں جارہے ہوں اور کوئی دوسرا موٹر سائیکل راں ہمیں اوور ٹیک کرجائے تو پھرہماری انا کو فوری ٹھیس پہنچ جاتی ہے ،جو ہمیں اکساتی ہے کہ ہم اپنا سکون غارت کرکے ، اس کا تعاقب کریں اور اسے پیچھے ڈھکیل دیں ۔ ہم کسی کا تعاقب کرتے ہوئے اتنا بھی نہیں سوچتے کہ وہ بیچارہ تو ضرورت کے تحت ہمیں اوور ٹیک کرگیا لیکن ہم کیوں اسے پیچھے کرنے کی چاہ میں خود کو پیچھے کررہے ہیں… دراصل ہماری انا پرستی نے ہمارا سکھ چین چھین لیا ہے :
انا انا کے مقابل ہے راہ کیسے کھلے
تعلقات میں حائل ہے بات کی دیوار
حنیف کیفی
یک دور وہ بھی تھا جب دوسروں کے کام آتے ہوئے لوگ کام آجایا کرتے تھے اور آج کسی کے کام نہ آنا ہی ہمارا کام بنتا جارہا ہے۔ محلے میں ایک بچہ ہوتا توسودا سلف لانے کے لیے کافی ہوتا تھا، اگر کوئی بچہ کسی کا سامان لا دیتا تو ماں باپ کو خوشی ہوتی ، البتہ وہ بچے کو تاکیدضرور کرتے تھے کہ جن کا تم سودا لارہے ہو،ان سے ہرگز پیسے نہ لینا اور دوسری طرف جن کا سودا، ان کا بچہ لارہا ہے ،ان سے بھی کہا جاتا تھاکہ وہ ان کے بچے کو ہرگزپیسے نہ دیں۔دراصل والدین ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ کسی کے کچھ کام آکر اس کی اجرت وصول کی جائے ، وہ بے لوث خدمت ہی کو اپنا فرض سمجھا کرتے تھے۔انہیں یہ خوف بھی لاحق ہوتا کہ کہیں پیسوں کی بدولت ان کے بچے بگڑ نہ جائیں۔اس کے باوجود سودا منگوانے والا فرد، بچے کو پیسے دینے کی ہر ممکن کوشش کرتا لیکن بچے ان سے کسی حال میں سودا لاکر پیسے نہیں لیتے تھے۔خودہمیں کسی کے کام آکر بے انتہا مسرت ہوا کرتی تھی۔کسی دن پڑوس کی خالہ ہم سے سودا لانے کے لیے نہ کہتیں تو طرح طرح کے وسوسے ہمیں گھیر لیتے کہ پتا نہیں خالہ نے کیوںآج ہم سے کوئی کام نہیں لیا،کہیں ان کا کام کوئی اور لڑکا توکر نہیںرہا ہے ؟ خدانخواستہ ہم سے کوئی غلطی سرزد تو نہیںہوگئی ہے؟ جب پڑوس کی خالہ ہم سے دوبارہ سودا منگواتیں تو ہم ایسے خوش ہوتے کہ گویا سارے جہاں کی خوشیاں ہمیں مل گئیں… آج ہم بنا مطلب کے کسی کے کام آنا نہیں چاہتے ،بلکہ ہم خود اپنے بچوں کو ٹوکا کرتے ہیں کہ تمہیں ’’مفت کی حمالی‘‘ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے!‘‘ بچوں میں بڑوں کا ادب کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، اگر بڑے گفتگو میں محوہوںاور کسی بچے کو بھوک ستا رہی ہو تو وہ ایک ادا سے ماں کا ہاتھ دباتا اور اگر ماں نے آنکھیں دکھائیں تو وہ چپ سادھ لیا کرتا ،کبھی کبھی یہ باتیں رات دیر گئے تک جاری رہتیںاور بچے بھوکے سوجانا گوارا کرلیتے لیکن انہیںوالدین کو تنگ کرنا،ہرگز منظور نہ ہوتا۔آج کل بچے ہی کیا کچھ نوجوان تک اپنی حرکتوں کی بدولت ماں باپ کا کھانا ہی نہیں ان کا چین سے سونا تک حرام کرتے نظر آتے ہیں۔
کسی غلطی پرمحلے کی کوئی بزرگ شخصیت کسی بچے یا نوجوان کو ڈانٹتی تو وہ چپ چاپ سن لیتے اور کوشش کرتے کہ دوبارہ اس قسم کی غلطی ان سے سرزدنہ ہونے پائے لیکن آج اگر کوئی بزرگ کسی نوجوان کو نصیحت کرنا چاہے توپھربچے ہی کیا، نوجوان بھی بزرگ ہی کو نصیحت کریں گے کہ: جاؤ چچا جاؤ اپنے بچوںکو سمجھاؤ پہلے…
گھر کے ہی نہیں باہر کے حالات بھی یکسر بدل چکے ہیں … بے ہنگم ٹریفک کی بدولت وعدے کے مطابق وقت پرکہیں پہنچنا دشوار ہو گیا ہے۔ حد تو یہ کہ وقت پر کسی مقام کوپہنچنے کی دھن میں وہ بیچارہ کبھی کبھی کہیں اور’’ پہنچ‘‘ جاتا ہے۔دوسری طرف گھوڑے خاں جیسے شاطر حضرات خود تاخیر کرکے بڑی ڈھٹائی سے ٹریفک کو اس کا ذمے دارٹھہراتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو گھر میں رہ کر کہتے ہیں کہ میں نامپلی پر ہوں، ابھی کچھ ہی دیر میں آپ تک پہنچ رہا ہوں اور جو دوسری طرف فون پریہ جھوٹ سن رہا ہے وہ بھی دھوکے کھا کھا کر خاصا دور اندیش ہو چکا ہوتا ہے ، لہٰذا وہ فوری تاڑ لیتا ہے کہ بندہ ابھی گھر سے نکلا ہی نہیں ہے !
آج ٹریفک بے قاعدگیاں اور مسائل انتہا کو پہنچ چکے ہیں،وہ گلیاں یا وہ راستے جن سے آدمی ہنستے ہنستے گزر جاتاتھا، آج ٹریفک کی بدولت آدمی ہی کیاوہ راستے تک آنسو بہاتے نظر آرہے ہیں۔سڑک پر دوڑتی بھاگتی مختلف سواریوں کو دیکھ کر خوف سا ہونے لگتا ہے کہ کہیں وہ ہمیں سڑک پر بچھا نہ دیں۔بیشتر آٹو ڈرائیورس اس بیدردی سے آٹو چلاتے ہیں کہ جیسے وہ آٹو سمیت ہماری ٹانگوں کے درمیان سے نکل جانا چاہتے ہوں۔ ان کی ان حرکتوں کی بدولت کئی بار ہماری سانسیں اکھڑتے اکھڑتے رہ گئیں ۔ بیشتر آٹوز وہیں کھڑے ہوتے ہیں جہاں بس اسٹاپ ہوتے ہیں، چنانچہ مسافرین کا بس میں سوار ہونا تک دشوار ہوجاتا ہے۔نہ صرف مصروف ترین شاہراہوں پر بلکہ گلی کوچوں میں بھی آٹوز قبضہ جمائے ہوتے ہیں ،جس سے نہ صرف مسافرین بلکہ بس ڈرائیورس کو تک ناقابل بیان مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ ان کے آگے تومحکمہ ٔ ٹریفک اور محکمہ ٔ آر ٹی اے کے فرض شناس عہدہ دار بھی بے بس نظر آتے ہیں۔بیشترآٹو ڈرائیورس مسافرین سے من چاہا کرایہ طلب کرنے یاکسی کی مجبوری کو کیاش کرنے کا ہنر، ڈرائیونگ سے بہتر جانتے ہیں۔ماضی میں آنے دو آنے کرائے کی خاطر شریف النفس رکشاراں پسینے کی انمول بوندیں بہادیا کرتا تھا۔اُس دور کے رکشا راں آج کے آٹو رکشا ڈرائیورس کی طرح زائد کرایہ ہر گز طلب نہ کرتے تھے…
کچھ دن قبل ہم شہر کے مصروف علاقے سے گزررہے تھے کہ ہمیں ایک رکشا راںنظر آگیا، جو آہنی جنگلے میںبری طرح پھنسا رہنے کے باوجود اپنی رکشا بلند حوصلوں کے ساتھ مسلسل آگے بڑھائے جا رہا تھا، شاید بیچارے کے پاس اس کے سواکوئی چارہ بھی نہ تھا۔ اس نظارے کو دیکھ کر ہم سوچنے لگے کہ ہماری زندگی، اس رکشا راں سے زیادہ مختلف نہیں ہے ، ہم خود بھی تواسی طرح مسائل ( جن میں سے بیشتر خود کے پیدا کردہ ہوتے ہیں )کے ا ٓہنی جنگلے میں پھنسے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی زندگی کی گاڑی کسی نہ کسی طرح آگے بڑھانے کی جستجو میں شب و روز سرگرداں ہیں…
موت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
فراق گورکھپوری
فی زمانہ سائیکل رکشا شاذ و نادر ہی دکھائی دیتے ہیں ، جو دکھائی دیتے ہیں وہ سامان سے لدے ہوتے ہیں … ویسے بھی کہاں کوئی آج سائیکل رکشے کی سواری بننا چاہتا ہے، اگر آج کوئی رکشے میں سوار بھی ہوجائے تو اسے سبھی راہ گیرحیرت سے ایسے گھور گھور کر دیکھیں گے وہ گھبرا کر فوری سائیکل رکشے سے اتر جائے گا ۔ ایک دور تھا رکشے کی سواری عام تھی،یہ وہاں بھی آرام سے پہنچ جایا کرتی تھی ،جہاں دوسری سواری پہنچنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی،اس سواری کے اپنے ہی مزے تھے۔جس کسی نے کبھی رکشے میںسفرکیا ہو ، اسے اے سی کار میں بیٹھ کر بھی وہ خوشی ہرگزمیسر نہیں ہوئی ہوگی جو خوشی کبھی رکشے میں بیٹھ کر حاصل ہوا کرتی تھی۔ رکشے میں عموماًدو آدمی نشست پر براجمان ہوا کرتے تھے، جب کہ دو لوگ یا پھر تین چار بچے رکشے کی ’’ کشتی‘‘ میں کسی نہ کسی طرح اپنی تشریف رکھنے میں سرخرو ہوجاتے تھے۔ چڑھاؤ پر رکشا راں ہانپتا کانپتا کبھی ڈنڈا مارتا (یعنی کھڑے ہوکر پیڈل پر زور ڈالتا )تو کبھی نیچے اتر کر رکشا کھینچا کرتا تھالیکن جب رکشااتار پرہوتی توایسی رفتار پکڑتی کہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کی بدولت جہاں رکشے میں بیٹھے لوگ سفر سے لطف اندوز ہوتے وہیں رکشا راں چڑھاؤ کی تھکن کو یکسر فراموش کر جاتا تھا۔ زندگی کے نشیب و فراز کو ہم نے پہلی بار رکشے کی کشتی میں بیٹھ کر ہی محسوس کیا تھا اورہم نے یہیں بیٹھ کر اس بات کو اچھی طرح سے ذہن نشین کرلیا تھا کہ آدمی کو ہر حال میں بنا تھکے، بنا رکے، آگے ہی آگے بڑھنا ہے اور یہ کہ زندگی کی راہوں میں چڑھاؤ کے بعد اتار ضرور آتا ہے…ماضی کی وہ خوبصورت بلیک اینڈ وہائٹ تصویر آج بھی ہمارے دل دماغ کی ہارڈ ڈسک میں محفوظ ہے …
ماضی میںتصاویر بے شک بلیک وائٹ ہوا کرتی تھیں لیکن زندگی رنگین تھی، آج تصاویر رنگین ہیں لیکن ہماری زندگی بلیک اینڈ وائٹ ہوکر رہ گئی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے سب کچھ مصنوعی اور بناوٹی ہے، ہماری ہنسی، ہماری خوشی، ہماری محبت، ہمارے احساسات اور جذبات سبھی کچھ…ماضی میں رشتوں کا خوب پاس و لحاظ تھا، لوگ ایک دوسرے پر جان چھڑکا کرتے تھے ، آج ہم ایک دوسرے کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔
آج شوگر کی بدولت ہم نے میٹھا کھانا تقریباً ترک کردیا ہے…شاید مٹھاس ہمارے دلوں سے نکل کر خون میں شامل ہوگئی ہے…
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
ساحر لدھیانوی
۰۰۰٭٭٭۰۰۰