مشرق وسطیٰ

سویڈن میں قرآن مجیدکو نذرآتش کرنے کی عالمی سطح پر مذمت (ویڈیو)

بیشتر اسلامی ممالک نے اسٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر قرآن کے اوراق نذر آتش کرنے کے واقعے پر سخت تنقید کی ہے۔ پاکستان نے سویڈش حکومت سے کہا ہے کہ وہ معاشرے میں مذہبی منافرت کو بڑھانے والے اقدامات کا تدارک کرے۔

سویڈن: بیشتر اسلامی ممالک نے اسٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر قرآن کے اوراق نذر آتش کرنے کے واقعے پر سخت تنقید کی ہے۔ پاکستان نے سویڈش حکومت سے کہا ہے کہ وہ معاشرے میں مذہبی منافرت کو بڑھانے والے اقدامات کا تدارک کرے۔

متعلقہ خبریں
سالانہ جلسہ حسن قرأتِ قرآن
دستور ہمارے لئے بائبل، قرآن اور بھگود گیتا : وزیر داخلہ جی پرمیشور

ترکی، سعودی عرب، پاکستان، ایران، عراق اور مصر سمیت دنیا کے کئی مسلم ممالک نے اسٹاک ہولم میں قرآن کے اوراق نذر آتش کرنے کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے سویڈن میں رونما ہونے والے اس واقعہ پر اپنے رد عمل میں کہا، ”آزادی اظہار اور احتجاج کی اجازت کے بہانے سے تشدد پر اکسانے والے عمل کو کسی بھی طرح سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔“

اسلام آباد کی طرف سے جاری بیان کے مطابق، ”عالمی قوانین کے تحت یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذہبی منافرت کو ہوا دینے والے پر تشدد اقدامات کے تدارک کے لیے اقدام کرے۔“

مراکش اور اردن محض اس واقعے کی مذمت تک کے محدود نہیں رہے بلکہ سخت رد عمل کے طور پر دونوں نے سویڈن میں موجود اپنے سفیروں کو بھی واپس بلا لیا۔

سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی اور کہا، ”نفرت انگیز اور بار بار دہرائے جانے والے ایسے اقدامات کو کسی بھی جواز کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا۔“

جمعرات کے دن عراقی دارالحکومت بغداد میں واقع سویڈن کے سفارتخانے کے باہر اس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا۔

مصر نے اپنے ایک بیان کہا کہ یہ عمل "شرمناک” تھا اور خاص طور پر چونکہ یہ عید الاضحی کے موقع پر کیا گیا۔

قاہرہ کی وزارت خارجہ نے یورپ میں قرآن کی جلد جلانے کے بار بار ہونے والے واقعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ بیان میں کہا گیا،”مصر کو بار بار قرآن کو نذر آتش کرنے اور بعض یورپی ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا اور مذاہب کی توہین کے واقعات میں اضافے پر گہری تشویش ہے اور قاہرہ حکومت ایسے تمام قابل مذمت اقدامات کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے، جو مسلمانوں کے مذہبی عقائد کو متاثر کرتے ہیں۔“

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے اس واقعے کو اشتعال انگیز، غیر سنجیدہ اور ناقابل قبول قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت اور عوام اس طرح کی توہین برداشت نہیں کرتے اور اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ”سویڈن کی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مقدسات کی توہین کی تکرار کو روکتے ہوئے اس سلسلے میں ذمہ داری اور جوابدہی کے اصول پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔“

ایران کی وزارت خارجہ نے اس پر احتجاج کے لیے تہران میں سویڈن کے سفارت خانے کے ناظم الامور کو بھی طلب کیا۔

ترکی کی وزارت خارجہ نے پہلے ہی اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی جبکہ جمعرات کے روز ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس کے لیے سویڈن پر تنقید کی۔ انہوں نے ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے بیان میں کہا، ”ہم آخر کار متکبر مغربیوں کو یہ سکھائیں گے کہ مسلمانوں کی توہین کرنا آزادیِ فکر نہیں ہوتی۔“

کویت اور اردن جیسے دیگر کئی اسلامی ممالک نے بھی سویڈن میں ہونے والے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ اسٹاک ہولم میں مسجد کے باہر قرآن پاک کو نذر آتش کیے جانے کے بعد سینکڑوں عراقیوں نے بغداد میں سویڈن کے سفارت خانے کے باہر مظاہرہ کیا اور پھر عمارت پر دھاوا بول دیا۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کے حامیوں کا ایک ہجوم تقریباً 15 منٹ تک سفارتخانے کے کمپاؤنڈ کے اندر نعرے بازی کرتا رہا اور پھر سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے بعد مظاہرین کو وہاں سے نکالا گیا۔

عراقی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ قرآن کو نذر آتش کرنے کا مرتکب ایک عراقی ہے اور سویڈن کی حکومت کو چاہیے کہ وہ اسے عراق کے حوالے کر دیں تاکہ اس پر ملکی قانون کے مطابق مقدمہ چلایا جا سکے۔شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر نے اپنے پیروکاروں سے احتجاج جاری رکھنے اور سویڈن کے سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عراق کو چاہیے کہ وہ سویڈن کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر لے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا، ”کسی بھی مذہبی متن کو جلانا توہین اور تکلیف دہ ہے اور جو عمل قانونی ہو وہ ضروری نہیں کہ یقینی طور پر درست بھی ہو۔ ہم ہنگری اور ترکی کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کے پروٹوکول کی بغیر کسی مزید تاخیر کے توثیق کر دیں۔“

ترکی نیٹو میں سویڈن کی شمولیت کی مخالفت کرتا رہا ہے اور قرآن کے اوراق جلانے کے اس واقعہ کے بعد اسٹاک ہوم کی نیٹو میں شمولیت کی کوششوں کو مزید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ سویڈن میں چند ماہ قبل بھی قرآن جلانے کا ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا اور اس وقت ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ سویڈن کو نیٹو اتحاد میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے۔

سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر کھڑے ہوکر ایک شخص نے قرآن کو نذر آتش کیا تھا۔ یہ واقعہ 28 جون بدھ کے روز اس وقت رونما ہوا، جب مسلمانوں نے عید الاضحیٰ کے اپنے تہوار کو منانے کا آغاز کیا۔

عدالت سے اجازت ملنے کے بعد قرآن کے صفحات کو نذر آتش کیا گیا تھا اور عدالت سے اس کی اجازت 30 سالہ ایک عراقی مہاجر نے لی تھی۔ وہ سویڈن میں قرآن پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔سعودی عرب نے سویڈن میں عید الاضحیٰ کی نماز کے بعد اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر قرآن مجید کا نسخہ جلانے والے انتہا پسند کی شدید مذمت کی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سویڈن میں اس دریدہ دہن عراقی تارک وطن نے مسلمانوں کی مقدس مذہبی کتاب کی سخت بے توقیری کی تھی اور قرآن کے نسخے سے صفحات پھاڑ کر پہلے ان سے اپنے جوتے پونچھے اور پھر انھیں آگ لگا دی تھی۔سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کے مطابق سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر بدھ کو عید الاضحیٰ کی نماز کے بعد ایک انتہا پسند کی جانب سے قرآن پاک کا نسخہ نذر آتش کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔

سعودی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ان نفرت انگیز اور بار بار کی جانے والی کارروائیوں کو کسی جواز کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسے واقعات واضح طور پر نفرت، اخراج اور نسل پرستی کو ہوا دیتے ہیں اور رواداری، اعتدال پسندی کے برعکس انتہا پسندی کو مسترد کرنے کی اقدار کو پھیلانے اور لوگوں اور ریاستوں کے درمیان تعلقات کے لیے ضروری باہمی احترام کو کمزور کرنے کی بین الاقوامی کوششوں کی براہ راست مخالفت کرتے ہیں“۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اس موقع پر اسٹاک ہوم کی مسجد کے باہر موجود قریباً 200 افراد نے قرآن مجید کوآگ لگانے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عربی زبان میں ‘اللہ اکبر، اللہ عظیم ہے‘ کے نعرے لگائے۔خبر رساں ادارے رائٹرز نے بتایا ہے کہ ایک شخص کو بدھ کے روز مسجد کے باہر قرآن پاک پھاڑنے اور جلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس پر ایک نسلی یا قومی گروہ کے خلاف احتجاج کرنے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پولیس نے ایک اور شخص کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ وہ موقع پر موجود ایک عینی شاہد تھا اور اس نے اس دریدہ دہن انتہا پسند پر پتھر پھینکنے کی کوشش کی تھی۔واضح رہے کہ سویڈش پولیس نے قرآن مخالف مظاہروں کی متعدد حالیہ درخواستیں مسترد کر دی ہیں جبکہ عدالتوں نے ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

دریں اثناء متحدہ عرب امارات اور اردن نے اپنے ہاں تعینات سویڈش سفیروں کو طلب کیا ہے اور ان سے اسٹاک ہوم میں مرکزی مسجد کے باہر مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کی بے توقیری پر سخت احتجاج کیا ہے۔متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ابوظبی میں تعینات سویڈن کے سفیر کو طلب کیا گیا ہے اور ان سے اسٹاک ہوم میں قرآن مجید کا ایک نسخہ جلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے۔

اردن کی وزارت برائے امورِخارجہ اور تارکینِ وطن نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے عمان میں تعینات سویڈش سفیر کو طلب کیا ہے اورانھیں قرآن مجید کی بے توقیری پر اردن کے سخت احتجاج سے آگاہ کیا ہے۔

a3w
a3w