سوشیل میڈیامضامین

شادی مقدس رشتہ: مختلف طریقے

ہندو شادی آج بھی ایک اخلاقی معاہدہ ہے جو کائنات کی موجودگی میں مرد اور عورت ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا عہد کرتے ہیں ۔ میں نے کائنات کا لفظ اس لیے استعمال کیاکہ ہندو فلسفے کے مطابق انسان کا وجود پانچ عناصر سے مل کر بنا ہے ، پانی ، مٹی ، آگ ، ہوا اور آواز ۔

اودیش رانی

ہندوستان میں شادی کے تعلق سے جو روایت ملتی ہے وہ مہا بھارت کے زمانے سے ہے یعنی قریب دس ہزار برس پرانی ہے جب کہ شانتو یعنی کورو پانڈو کے پر دادا نے ستیہ وتی سے شادی کی اور اس کے لیے ان کے بیٹے نے قربانی دی۔کیوں کہ ستیہ وتی کے والد جو ایک قبیلے کے سردار تھے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے شانتو سے شرط رکھی تھی کہ اس کے نواسے ہستنا پور کے راجہ ہوں گے اور ان کے لڑکے آریہ ورت ( جو بعد میں بھشم پتا ما کہلائے)نہیں ہوں گے اور نہ ہی آریہ ورت کی آنے والی نسلیں اس تخت کے دعوی ٰ دار ہوں گی۔

چنانچہ آریہ ورت نے ہمیشہ کے لیے مجرد رہنے کا فیصلہ کیا اور ان کے والد نے ان کو دعا دی کہ ان کی موت پر ان کا قابو ہوگا۔ورنہ ہندوستان میں شادی نام کی کوئی ایسی روایت نہیں تھی۔ قبائلی اپنا رشتہ آپ چنتے تھے اگرچہ کہ شانتو شرائط مان کر ستیہ وتی کو اپنے گھر لائے تھے مگر اس کے باوجود شادی اور اس کا احترام کم ہی معلوم تھا ۔ چنانچہ دروپدی کے شوہر پانچ بھائی تھے۔ ایسی شادیاں ابھی بھی ہماچل کے قبائل میں مروج ہیں ۔ اس کے بعد ہندوستان میں دوسرے مذاہب آئے ، ان میں سب سے اہم اسلام تھا، جس کی ہندوستان میں بنیادیں مضبوط رہی ہیں۔

ہندو شادی آج بھی ایک اخلاقی معاہدہ ہے جو کائنات کی موجودگی میں مرد اور عورت ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا عہد کرتے ہیں ۔ میں نے کائنات کا لفظ اس لیے استعمال کیاکہ ہندو فلسفے کے مطابق انسان کا وجود پانچ عناصر سے مل کر بنا ہے ، پانی ، مٹی ، آگ ، ہوا اور آواز ۔ ہندو شادی ان پانچوں عناصر اس طرح پیش کرتی ہے مٹی میں اگی ہوئی گیہوں کی بالیاں ، پانی جو ہاتھ میں رہتاہے ، آگ جس کے گرد پھیرے لیتے ہیں ، ہوا جو آگ کو جلائے رکھتی ہے ، آواز پنڈت کے منتر، اب سات پھیرے آگ کے گرد او رہر پھیرا کائنات کے ذکر سے بھرا ہوتا ہے اور آخری وعدہ یعنی ساتواں پھیرا ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا ہوتا ہے ۔ اس کی ابھی بھی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے مگر ہندوستان میں باوجود ترقی کے کچھ قبائل ابھی بھی اپنے ریت رواج کو برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔

ایک قبیلہ ہے لمباڑہ یا بنجارے جو جنوب میں بہت ہی مشہور ہیں ، ان کی عورتوں کے لباس کی رنگا رنگی سے سب واقف ہیں ان کے پاس شادی بہت ہی دلچسپ ہوتی تھی ( کیوں کہ اب یہ طریقہ بدل گیا ہے ) لڑکے والے لڑکی کو چن لیتے تھے او رپھر لڑکی والے لڑکے کا اغوا کرلیتے تھے اور خوب آو بھگت ہوتی تھی ۔ دس پندرہ دن بعد لڑکے والے لڑکے کو ڈھونڈ نکالتے اور شادی کی رسم پوری کرتے ۔ جہیز کے طورپر لڑکی والے ہر چیز لڑکے کی طرف پھینکتے یا دیتے جو بعد میں اس کی ملکیت ہوجاتی تھی ۔ ان اشیاء میں اکثر گائے اور بھینس بھی ہوتی تھی۔

اب ان کی زمینوں پر ایر پورٹ بن چکا ہے ، قریبی دوست نے یہ بات بتائی کہ انہوں نے خوب پیسہ کما لیا ہے ،کپڑے بدل گئے ، بچوں کو پڑھاتے ہیں اور شادی سناتن دھرم طریقے سے انجام پاتی ہے ۔ سناتن دھرم طریقے میں کوئی قانونی دستاویز نہیں ہوتی مگر آریہ سماج طریقے سے شادی میں دستاویز یعنی شادی کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے اس کی قانونی اہمیت ہے ۔

عادل آباد میں ایک قبیلہ ’’ متھرے‘‘ ہیں ، ان کی عورتیں گجراتی کے کپڑے پہنتی ہیں اور سرکے بال ایک لکڑی کے ٹکڑے کو تالو پر رکھ کر سجاتی ہیں ۔ نیلی آنکھوں والی سیاہ بال والی یہ خواتین جب چلتی ہیں تو اپنی جھانجھن سے فضا کو جگاتی ہیں ۔ ویسے مرد سیاہ فام اور مضبوط بدن کے ہوتے ہیں ، ان کی شادی بھی دلچسپ ہوتی ہے ۔ لڑکا ایک پودا لڑکی کے گھر کے سامنے لگا جاتا ہے اگر لڑکی نے اسے سینچا تو مطلب ہے لڑکی اور اس کے گھر والے راضی ہیں ورنہ اسے دوسرا گھر دیکھنا پڑتا ہے ۔ جب لڑکی رضا مندمعلوم ہوجاتی تو قبیلے کا سردار لڑکی کے گھر آتا ہے اور لڑکی کے باپ کو حکم دیتا ہے کہ قبیلے کو کھلائے اور لڑکی کو لڑکے کے گھر بھیج دے۔

اگر لڑکی کسی لڑکے سے شادی کرنا چاہے تو وہ آئینہ لڑکے کے دروازے پر لگاآتی ہے ۔ اگر لڑکے نے وہ آئینہ نکال کر لے لیا تو لڑکا راضی ہے ورنہ وہ آئینے کو الٹ دیتا ہے ۔ شادی میں اہم حصہ قبیلے کا سردار ہی ادا کرتا ہے ۔بہر حال شادی میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ لڑکی کو ایک مقام ملے اور تحفظ حاصل ہو۔

اسلام میں پچھلے تجربوںکی خامیوں کو ذہن میں رکھ کر ہی ’’ نکاح‘‘ کا قانون سامنے آیا ۔ نکاح کے بعد میں لڑکی کے تحفظ کا خاص خیال رکھا گیا یعنی لڑکا شادی سے انکار نہیں کرسکتا کہ اس نے اس لڑکی سے شادی نہیں کی کیوں کہ نکاح نامہ دستیاب ہوتا ہے جو دونوں فریق کی ملکیت ہوتا ہے ۔ مہر مقرر ہوتا ہے تاکہ لڑکی معاشی طور پر خود مکتفی ہو ، اس کی ادائیگی بھی ضروری اور لازمی ہوتی ہے ۔ چاہے طلاق ہو یا نہ ہو مہر ادا کرنا دولہے کا فرض ہے ۔

عیسائیوں میں بھی شادی کی دستاویز ہوتی ہے اور دولہے دلہن کے پاس اس دستاویز کو محفوظ کیا جاتا ہے اس کے علاوہ چرچ میں اس کار یکارڈ موجود ہوتا ہے جس طرح قضات میں نکاح اور طلاق کا اندراج ہوتا ہے ۔

آج زمانہ بدل گیا ہے ، بنجاروں نے اپنی شادیاں سناتن طریقے سے اور متھرے اپنی شادی سردار کی موجودگی میں کرتے ہیں ۔ اکثر ہندو بھی آریہ سماج طریقے سے شادی کررہے ہیں تاکہ سندرہے ۔ کچھ ہندو حضرات تورجسٹرار کے دفتر میں شادی کررہے ہیں ۔

افسوس ہورہا ہے اسلام میں جہاں عورت کے لیے زبردست احترام ہونا چاہیے، اکثر لڑکی والوں کے پورے خاندان کو نفسیاتی طور پر تکلیف دی جاتی ہے …

ایک اور بات لڑکی والے، لڑکے کی علمی قابلیت اور اس کے گھر والوں کی طرز زندگی دیکھیں ( ہندو اور مسلم دونوں )صرف اس کی دولت کی چمک دمک نہ دیکھیں اور اگر ان کے علم میں ایسی باتیں آئیں تو فوراً اس کی مخالفت کریں کیوں کہ شادی ایک مقدس رشتہ ہے جو دین اور دنیا دونوں میں طے ہوتا ہے ۔
٭٭٭