مذہب

حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادریؒ کا تعارف: سید شجاعت اللہ حسینی بیابانی

حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادریؒ قدس سرہ العزیز، 1210 ہجری مطابق 1795 عیسوی میں موضع قاضی پیٹ ضلع ہنمکنڈہ میں پیدا ہوئے۔

حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادریؒ قدس سرہ العزیز، 1210 ہجری مطابق 1795 عیسوی میں موضع قاضی پیٹ ضلع ہنمکنڈہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار کا نام حضرت قاضی سید شاہ غلام محی الدین بیابانی الرفاعی القادریؒ قدس سرہ العزیز اور آپ کی والدہ محترمہ کا نام حضرتہ قاسم بی بی صاحبہ ؒ تھا۔

آپ کے جد امجد سلطان العارفین حضرت قاضی سید احمد کبیر الرفاعی معشوق اللہ ؒ قدس سرہ العزیز ہیں اور یہ سلسلہ نسبی امیر المؤمنین حضرت سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالی عنہ قدس سرہ العزیز سے ہوتا ہوا امیر المؤمنین سید نا علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ قدس سرہ العزیز تک پہنچتا ہے اور اس سلسلہ مقدس میں تمام حضرات برگزیدہ اولیاء اللہ ہیں۔

اس خاندان کے لقب "بیابانی” کے متعلق یہ مشہور ہے کہ ایران میں ایک مقام بیبان ہے۔ آپ کے اجداد بیبان ایران کے رہنے والے تھے اور بیبانی کہلاتے تھے۔ ہندوستان میں آمد کے بعد انھیں بیابانی کہا جانے لگا۔ بعض کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں یہ پہلے ملتان آئے تھے اور وہاں ذوق صحرا نوردی اور بیابانوں میں عبادت کی وجہ سے بیابانی کہلانے لگے۔

سب سے پہلے حضرت مخدوم سید شاہ ضیاء الدین بیابانی الرفاعی القادریؒ قدس سرہ العزیز کے نام سے جب یہ لقب منسلک ہوا تو بعد میں اس خاندان کا لقب بیابانی قرار پایا۔ حضرت مخدوم سید شاہ ضیاء الدین بیابانی الرفاعی القادریؒ قدس سرہ العزیز سے لے کر آج تک اس سلسلہ کے بزرگوں کا وطیرہ پہاڑوں، بیابانوں اور جنگلوں میں عبادت، ریاضت اور مجاہدہ رہا ہے۔ اس لئے اس سلسلہ کے تمام بزرگان بیابانی کہلاتے ہیں۔

شناخت کے لئے اس سلسلہ کے خلفاء کرام و مریدین کے نام کے ساتھ بھی بہ حکم حضرت سجادہ نشین صاحب، بیابانی لکھا جارہا ہے۔ حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادریؒ قدس سرہ العزیز اپنے خاندانی سلسلہ رفاعیہ کے علاوہ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور نقشبندیہ طریقوں میں خلافتیں رکھتے تھے اور مرید بھی کیا کرتے تھے۔

حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادریؒ قدس سرہ العزیز کے پردادا حضرت قاضی سید شاہ فاضل بیابانی الرفاعی القادریؒ قدس سرہ العزیز تحصیل علم کی خاطر کچھ عرصہ بلدہ حیدرآباد میں مقیم رہے۔ حضرت مولانا قطب عالم بخاریؒ مفتی بلدہ حیدرآباد نے آپ کی دینی قابلیت اور اعلی حسب و نسب دیکھ کر اپنی اکلوتی نبیرہ (پوتری) سے آپ کی شادی فرمائی۔

انھوں نے آپ کے نام قضاءت ورنگل اور جاگیر منتقل کروائی۔ اس جاگیر کا نام قضاءۃ کی وجہ سے ہی قاضی پیٹ ہوا۔ حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادریؒ قدس سرہ العزیز نے اسی موضع قاضی پیٹ جاگیر میں مستقل سکونت اختیار فرمائی۔ موضع قاضی پیٹ میں واقع خاندانی حویلی میں رہائش کے بجائے آپ ایک گھانس کے جھوپڑے میں قیام پذیر رہتے تھے تاکہ عام لوگ بھی آپ سے آسانی سے ملاقات کرسکیں۔

جاگیردارانہ شان و شوکت آپ کو قطعی پسند نہ تھی۔ کبھی آپ بغیر کسی بستر کے مٹّی پر ہی سوجایا کرتے تھے۔ سرہانے اینٹ یا پتھر یا اپنا ہاتھ رکھ کر سوجایا کرتے تھے۔ آپ کبھی پڑوسی جولاہا کی جھوپڑی میں آرام فرمایا کرتے تھے۔

حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادریؒ قدس سرہ العزیز کی کیفیت بچپن ہی سے غیر معمولی نظر آتی تھی۔ صفحہ پیشانی نورانی سے آثار کشف و کرامات ظاہر ہوا کرتے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ حضرتہ قاسم بی بی ؒ فرماتی ہیں کہ ایک بار میں اپنے خالہ زاد بھائی سید مرتضی حسینی صاحب کے گھر محلہ قطبی گوڑہ حیدر آباد دکن میں تھی۔ میرا لڑکا سید افضل بیابانی صحن مکان میں کھیل رہا تھا۔

سب بچے صحن میں گھروندے اور باؤلیاں بنا رہے تھے۔ اس نے بھی ایک باؤلی (چھوٹا سا گڑھا) بنایا۔ قدرت الہی سے اس باؤلی میں پانی نکل آیا اور وہ پانی سے بھر گئی۔ اس کو دیکھ کر آپ کے ماموں نے آپ کی والدہ سے فرمایا کہ آپ کا لڑکا بفضل اللہ تعالی ولی اللہ اور صاحب کرامات ہوگا۔

آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے والد محترم حضرت قاضی سید شاہ غلام محی الدین بیابانی الرفاعی القادریؒ قدس سرہ العزیز سے ہوئی۔ اس کے بعد بمقام قلعہ ورنگل آپ نے حضرت فقیر اللہ شاہ صاحبؒ سے قرآن شریف، حدیث اور دینیات کی تعلیم حاصل فرمائی۔ آپ صرف بارہ سال کی عمر میں قرآن شریف کا حفظ مکمل کیا۔

ایک بار آپ بغرض حصول تعلیم قلعہ ورنگل تشریف لے جارہے تھے کہ راستہ میں شام ہوگئی۔ آپ کے ساتھی پیچھے رہ گئے۔ جب آپ قبرستان گنج شہدا پہنچے ایک جماعت کثیر جن کےساتھ مشعلیں روشن تھیں آپ کے آگے پیچھے چل رہی تھی۔ جب آپ قلعہ ورنگل پہنچے وہ شہدا کی جماعت غائب ہوگئی۔

قلعہ ورنگل میں آپ کے استاد محترم کے پاس ایک مجذوب سے ملاقات ہوتی تھی قلندر مرتبہ کے بزرگ تھے ہمیشہ مست رہا کرتے تھے۔ جو وہاں کبھی کبھی آیا کرتے تھے۔ حضرت فقیر اللہ شاہ صاحبؒ کی تعلیم سے آپ کو مزید اعلی تعلیم کے حصول کا شوق پیدا ہوا۔

لہذا آپ نے بغرض حصول اعلی دینی تعلیم قاضی پیٹ سے حیدرآباد کا ارادہ فرمایا۔ دوران سفر راستہ میں یکا یک آپ کو مرض خناق کی شکایت ہوگئی جس سے گلے بھڑگئے اور آپ کو شدت کی پیاس لگنے لگی۔ آپ پانی پینے کے لئے چشمہ کے پاس گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ چشمہ کی ایک جانب شیر اور دوسری جانب جنگلی خنزیر کھڑے ایک دوسرے پر غرّا رہے ہیں۔

آپ اس منظر کو دیکھ کر کچھ گھبراگئے۔ اسی اثنا میں وہاں ایک سیاہ فام بزرگ تشریف لائے اور آپ کو ایک روٹی عنایت فرمائی۔ آپ نے وہ روٹی کھالی جس سے آپ کی بھوک، پیاس اور خوف جاتے رہے اور آپ کو ایک سکون سا حاصل ہوا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ سیاہ فام بزرگ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔

حیدر آباد میں آپ اس وقت کے جیّد علماء و صوفی منش بزرگان دین مولوی قطب الدین صاحبؒ اور مولوی حافظ سید صدر الدین صاحبؒ سے قرآن، تفسیر، حدیث، فقہہ اور دیگر دینی علوم حاصل فرمائے۔ اس وقت آپ کی عمر چوبیس سال تھی۔ ماشآء اللہ۔

آپ کے والد محترم حضرت قاضی سید شاہ غلام محی الدین بیابانی الرفاعی القادریؒ قدس سرہ العزیز سے آپ نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ معرفت، محبت، طریقت اور حقیقت کا بھی درس حاصل کیا اور پانچوں سلاسل، رفاعیہ، قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ میں خلافت سے سرفرازی بھی حاصل کی۔ والد محترم کے انتقال کے بعد آپ کی والدہ نے آپ کو رشتہ کے تایا حضرت سید شاہ غلام علی قادری الموسویؒ سے تربیت حاصل کرنے کی لئے بمقام قطبی گوڑہ حیدرآباد روانہ کیا۔

حضرت سید شاہ غلام علی قادری الموسویؒ اسقدر اعلی درجہ کے مرید تھے کہ آپ سے حضرت خضر علیہ السلام سے ہف ہفتہ ملاقات ہوا کرتی تھی۔ (افضل الکرامات) ایک روز حضرت سید شاہ غلام علی قادری الموسویؒ آرام فرما رہے تھے۔ حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادریؒ قدس سرہ العزیز آپ کے پاؤں دبا رہے تھے۔ آپ کا قلب مبارک ذکر کلمہ طیبہ سے جاری تھا۔ حضرت سید شاہ غلام علی قادری الموسویؒ جب بیدار ہوئے تو حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادری رح

a3w
a3w