
حمید عادل
شام کا وقت تھا،ہم دفتر سے گھر جانے کے لیے بس اسٹاپ پر کھڑے پر تول رہے تھے۔ جیسے ہی بس آئی ہم دوڑ کر اس کے دروازے پر کھڑے ہوگئے اور مسافرین کے اترنے کا انتظار کرنے لگے … پلک جھپکتے بس میں سوار ہونے والوں کی کثیر تعداد نے ہمیں گھیر لیا…ہم نے محسوس کیاکہ کوئی ہاتھ ہماری جیب میںگھوم پھر رہا ہے ،پہلے تو ہم نے سمجھا کہ شاید یہ کسی سیاح کا ہاتھ ہے جو ہمارے شہر کی تاریخی عمارتیں دیکھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر وہاں کے حالات سے بھی واقفیت حاصل کررہا ہے لیکن پھر خیال آیا کہ ہماری جیب کوئی سیاحتی مرکز تو ہے نہیں کہ یہاں گھومنے پھرنے کا شوق پورا کیا جاسکے۔ چنانچہ ہم نے وقت ضائع کیے بغیر اس ہاتھ کو دبوچ لیا،جیسے ہی ہم نے ہاتھ دبوچا پیچھے سے آواز آئی ’’ ارے یہ آپ کی جیب ہے ،معافی چاہتا ہوں، میں اِسے اپنی جیب سمجھ بیٹھا تھا!‘‘
’’ دیکھو! باتیں بنانا چھوڑو ،ہم تمہاری اصلیت کو جان گئے ہیں ، تم ایک پاکٹ مار ہو۔‘‘ہم نے بس میں سوار ہونے کے بجائے اس شخص کی کلائی پکڑ کراسے ایک طرف لے جاتے ہوئے کہا۔
’’ آپ نے کیسے جانا؟‘‘پاکٹ مار نے حیرت کا اظہار کیا۔
’’ پاکٹ مار ہی دوسروں کی جیب کو اپنی جیب سمجھ بیٹھتے ہیں !‘‘ہم نے دو ٹوک جواب دیا۔
’’ مجھے جانے دیجیے،دھندے کا وقت ہے،ویسے بھی میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے ؟‘‘پاکٹ مار بلبلایا۔
’’ بگاڑا تو کچھ بھی نہیں ہے لیکن اگر ہم وقت پر تمہیں دبوچ نہ لیتے تو بہت کچھ بگڑ سکتا تھا۔‘‘
’’ آپ کیا چاہتے ہیں جناب؟‘‘
’’ انٹرویو!‘‘
’’ انٹرویو؟ کس کا؟‘‘
’’ تمہارا! ہم تمہارا انٹرویو لینا چاہتے ہیں ۔‘‘
’’ ارے کیا جناب! شرمندہ کررہے ہیں آپ ! ایک پاکٹ مار کا انٹرویو ؟یہ کیسا بھونڈامذاق ہے؟‘‘
’’دیکھو برخوردار! جب بالی ووڈ 1974ء میں ’’ پاکٹ مار‘‘ کے عنوان سے فلم بنا سکتی ہے اور ہالی ووڈ 1959ء میں pickpocket اور 2018ء میںPickpockets کے عنوان سے پاکٹ مار حضرات پرایک نہیںدو دوفلمیں بنا سکتی ہے ، معروف مصنف ایم الیاس ’’ پاکٹ مار‘‘ عنوان سے ناول لکھ سکتے ہیں تو کیاہم تمہارا انٹرویو نہیں لے سکتے ؟انٹرویو کی شرط پر ہی ہم تمہیں چھوڑ سکتے ہیں ، ورنہ ہم تمہیں پولیس کے حوالے کردیں گے۔‘‘
’’ نہیں نہیں!میں انٹرویو دینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘پاکٹ مار فوری مان گیا۔
’’روزانہ کتنا کما لیتے ہو؟‘‘ہم نے وقت ضائع کیے بغیرپہلا سوال داغا۔
’’ کبھی ہزار تو کبھی دس ہزار،خالی ہاتھ کبھی گھر نہیں گیا!‘‘
’’ بڑے پہنچے ہوئے پاکٹ مار معلوم ہوتے ہو، یہ توبتاؤ کہ ایک کامیاب پاکٹ مار بننے کے لیے سب سے زیادہ کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے؟‘‘
’’ کامیاب پاکٹ مار بننے کے لیے دو بنیادی چیزیں نہایت اہمیت کی حامل ہیں ۔‘‘
’’ وہ کونسی؟‘‘
’’ پاکٹ مار کوبہادر ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت بے شرم بھی ہونا چاہیے ۔‘‘
’’ وہ کس لیے؟‘‘
’’ بہادراس لیے کہ پکڑے جانے پر لوگوں کو مار سکے اور لوگوں کی مار سہہ بھی سکے اور بے شرم اس لیے کہ ذلیل و خوار ہونے کے باوجود وہ اپنا پیشہ ترک نہ کرے۔‘‘پاکٹ مار اپنے گھٹیا کام کے تعلق سے ایسے چہک چہک کر بتا رہا تھا جیسے وہ کوئی غیر معمولی کام انجام دے رہا ہو …کہنے لگا’’ ہمارے لیے مردہ ضمیری نہایت ضروری ہے ،اگر آپ میں یہ خوبی نہیں ہے تو پھر آپ پاکٹ اڑانے کے فن کو بھول جایے ۔اگر آپ کی انگلیوں میں جادوہے تو پھر آپ ایک نہ ایک دن شہر کے معروف پاکٹ مار بن جائیں گے۔ پھر تو ہر پولیس اسٹیشن، بس اسٹیشن ، ریلوے اسٹیشن میں آپ ہی آپ ہوں گے ۔‘‘ اور پھر قدرے توقف سے پاکٹ مار نے ہمارا بھرپور جائزہ لیتے ہوئے کہا ’’ویسے میری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں ، اگر کبھی پاکٹ اڑانے میں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو مجھ سے ربط پیدا کریں، میں ہمیشہ آپ کی خدمت کے لیے تیار ہوں ..‘‘
’’ فی الحال ہمارا پاکٹ مار بننے کا کوئی ارادہ نہیں ہے!‘‘ ہم نے سٹپٹا کر جواب دیا اور پھر سلسلہ ٔ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’کسی کی جیب میں ہاتھ ڈالنا ایسا ہی ہے جیسے کسی اجنبی کے گھر میں داخل ہوجانا ،پاکٹ اڑانا آسان کام نہ ہونے کے باوجودآخرتم لوگ کس طرح کسی کی پاکٹ اڑانے میں کامیاب ہوجاتے ہو؟‘‘
’’کرکٹ دیکھتے ہیں آپ؟‘‘
’’ہاں ہاں!ہم کبھی کبھی کرکٹ دیکھ لیتے ہیں لیکن کرکٹ سے پاکٹ اڑانے کا کیا تعلق بھلا؟‘‘ ہم نے سوال دے مارا۔
پاکٹ مار چہک اٹھا ’’آپ تو جانتے ہیں کرکٹ میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ، کوئی بھی بلے باز شاندار شاٹ لگانے میںاسی وقت کامیاب ہوتا ہے جب ٹائمنگ پرفیکٹ ہو، اسی طرح پاکٹ اڑانے میں بھی ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔عام طورپر جس کی ہم پاکٹ اڑاتے ہیں، اس کا ذہن کہیں اور ہوتا ہے ،جب کہ ہم ساری توجہ پاکٹ اڑانے پر مرکوز کیے ہوئے ہوتے ہیں ، اس لیے ہم کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ۔ اس سارے عمل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کسی بھی شعبے میں کامیابی کے لیے ’’ یکسوئی‘‘ ضروری ہے ۔اگر آپ مکمل انہماک کے ساتھ کوئی کام انجام دیں گے تو پھر یقینا کامیابی آپ کے قدم چومے گی!‘‘
’’ سنا ہے کہ پاکٹ مار عموماً گینگ کی شکل میں ہوتے ہیں،کیا یہ درست ہے؟‘‘
’’ٹھیک سنا ہے آپ نے ،پاکٹ مارعموماً دو تین افراد کے گروپ پر مشتمل ہوتے ہیں، جیسے ہی ہم میں سے کسی کو کامیابی ملتی ہے ، ہم وہ پاکٹ اپنے ساتھی کے حوالے کردیتے ہیں اور وہ فوری مقام واردات سے رفو چکر ہوجاتا ہے اوراگر کسی کو ہم پر شک بھی ہوجائے تو ہماری تلاشی کے باوجود اسے کچھ نہیں ملتا اور وہ آنکھیں اور اپنے ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔‘‘
’’یعنی تمہارا دھندہ ’’ ٹیم ورک‘‘ پرمشتمل ہے؟‘‘
’’ جی ہاں! فرض کیجیے کہ ہمارا ’’بکرا‘‘ بس اسٹاپ پر کھڑا ہے اور وہ بس میں سوار ہونے کے لیے مرا جارہاہے تو پھر ہمارا ایک ساتھی اس کے آگے آکر کھڑا ہوجاتا ہے ،جو اسے بس میں سوار ہونے سے روکتا ہے ،جس سے مسافرکا ذہن بٹتا ہے جب کہ دوسرا ساتھی اس کی جیب میں ہاتھ ڈال کر جو بھی اس کے ہاتھ لگے اڑا لیتا ہے ۔ہماری اس کامیابی سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اتحاد میں بڑی طاقت ہے !‘‘
’’ باتیں تو تم بڑی دانشورانہ کررہے ہو، کہاں تک پڑھے ہو؟‘‘
’’جانے دو صاحب! میں اپنی ڈگری بتاؤں گا تو پھرآپ رات بھر سو نہیں سکیں گے۔‘‘ اور پھر اس نے ایک سرد آہ بھر کرکہا:’’کتنی عجیب بات ہے کہ نقلی ڈگری والے حکمراں بنے بیٹھے ہیں اور ہم جیسے پڑھے لکھے نوجوان در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں… خیر!چھوڑیے اس بات کو ، کچھ اور پوچھیے…‘‘پاکٹ مار نے نہایت سرد مہری سے جواب دیا۔
ہم نے موضوع بدلتے ہوئے کہا ’’پاکٹ اڑانے کا کوئی یادگار واقعہ ہو تو سناؤ‘‘
’’ ضرور ! کیوں نہیں۔ ایک شخص خود کار سیڑھیوں کے ذریعہ بالائی منزل کی سمت جارہا تھا،میں اس کے ٹھیک پیچھے آکر ٹھہر گیااور موقع ملتے ہی پہلے مرحلے کے تحت میں اس کے پتلون کی پچھلی جیب سے پاکٹ کھینچ کر اوپر لے آیا پھر دوسری کوشش میں، میں نے اس کی پاکٹ اڑا لی،جیسے ہی میں نے پاکٹ اس کی جیب سے اڑائی وہ میری جانب پلٹا لیکن میں نے بھی غیر معمولی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی پاکٹ پیچھے کی سمت بنا دیکھے اپنے ایک ساتھی کی جانب اچھال دی جسے اس نے لپک لیا،یہ سارا کام پلک جھپکتے انجام کو پہنچ گیا۔ جس شخص کی میں نے پاکٹ اڑائی، اسے مجھ پر شک ہوا، لیکن میری تلاشی کے باوجود اس کے ہاتھ کچھ نہ آسکاتو وہ ہکا بکا رہ گیا۔ پاکٹ اڑانے کے اس واقعہ کو میں زندگی بھر نہیں بھول سکتاجو محض چند سکنڈس پر مشتمل تھا! ‘‘
’’ آگے کیا سوچا ہے اورکیا چاہتے ہو؟‘‘
’’ چاہتا ہوں کہ پاکٹ ماروں کی بھی کوئی یونین قائم ہوجائے، جو ان کے حقوق کے لیے لڑے،انہیں درپیش مسائل اور مشکلات سے حکومت کو واقف کروائے۔ دراصل دیگر یورپی ممالک کی بہ نسبت ہندوستان میںپاکٹ مار حضرات کافی پسماندہ ہیں ۔ میں اکثر یہ سوچ سوچ کر اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہوں کہ دنیا کے دس سب سے زیادہ پاکٹ ماروں کے لیے مشہور ممالک میں آج تک ہندوستان کانام شامل نہیں ہوسکا، جب کہ اسپین ، اٹلی ، چیک جمہوریہ ، میڈرڈ، فرانس ، پیرس ، اٹلی ، ارجنٹینا، نیدر لینڈ ، گریس ، ویٹ نام پاکٹ مار حضرات کے لیے مشہور دس ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔نیدر لینڈ میں توسیاحوں کو چوکنا کرنے کے لیے دیواروں پر جگہ جگہ لکھ دیا گیا ہے ’’ پاکٹ مار ، سیاحوں سے محبت کرتے ہیں!‘‘ میری کوشش تویہی ہے کہ جس طرح کرپشن کے میدان میں ہمارے نیتاؤں اور کرپٹ عہدہ داروںنے اپنے ملک کا نام روشن کیا ہے ، اسی طرح میں بھی پاکٹ ماری کے شعبے میں اپنے ملک کا نام روشن کروں،پاکٹ اڑانے کی نئی نئی تکنیک ایجاد کروں۔ سنا ہے کہ یورپی ممالک میں پرندوں جیسے بطخ وغیرہ اور پالتو جانوروں مثلاً کتے ،بلیوں کے ذریعہ بھی لوگوں کی پاکٹیںاڑائی جارہی ہیںجبکہ ہندوستان میں آج بھی ہم ہی کو راست طور پر ملوث ہونا پڑرہا ہے ، میں اس صورت حال سے خاصہ دلبرداشتہ ہوں!‘‘ پاکٹ مار اچانک جذباتی ہوگیا ۔
’’واقعی ، یہ تو بہت بری بات ہے ، لیکن کیا کبھی تمہیںندامت کا سامنا بھی کرناپڑتاہے ،ہمارا مطلب ہے کہ تم نے کسی کی پاکٹ تو اڑا لی لیکن وہ خالی رہی ہو۔‘‘
’’ شکر ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا،دراصل میں کسی کو ’’کترنے‘‘ سے پہلے ہی تاڑ لیتا ہوں کہ اس کے پاس سے مطلوبہ رقم یا چیز برآمد ہوسکتی ہے یا نہیں، میں کبھی غلط دروازے پر دستک نہیں دیتا۔‘‘
’’ تم قارئین سے کیا کہنا چاہوگے؟‘‘
’’ میں تو یہی چاہوں گا کہ وہ سدا خوش حال رہیں ، ان کی جیبیں نوٹوں سے بھری رہیں۔البتہ میں تمام لوگوں سے ادباً گذارش کروں گا کہ وہ خطیررقم یا کوئی بھی قیمتی چیز براہ کرم ایسی جگہ نہ رکھیں جہاں سے اڑانا ہمارے لیے دشوار ہوجائے،اس بات کا وہ پاس و لحاظ رکھیں تو بڑی نوازش ہوگی۔‘‘
ہم پاکٹ مار کی اپیل پر زیر لب مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ،ہم اس سے مزید گفتگو کرنا چاہ رہے تھے لیکن وہ اچانک چھلاوے کی طرح غائب ہوگیا، برق رفتار بس میں وہ ایسے سوار ہوا کہ ہم اسے بے بسی سے دور جاتا دیکھنے کے سوا کچھ نہ کرسکے …وہ تھا تو پاکٹ مار لیکن اُس سے ہماری ملاقات بڑی دلچسپ ثابت ہوئی… ہمیں یہ پاکٹ مار اُن لوگوںسے غنیمت محسوس ہوا، وہ خوشیاں جن پر آپ کاحق ہے ،آپ تک پہنچنے سے پہلے بڑے سلیقے سے اڑا لیتے ہیں…
ہم نے گھڑی پر نظر دوڑائی تو پتلا چلا کہ صبح کے گیارہ بج چکے ہیں، دریں اثنا یاد آیا کہ ہمیں کلیم کلبلا کو فون کرنا ہے …جیب میں ہاتھ ڈالا توپتا چلا کہ ہمارا سل فون غائب ہے !
۰۰۰٭٭٭۰۰۰