اسرائیلی حملوں نے بحران کے حل کے لیے جاری مذاکرات میں خلل ڈالا ہے : سعودی عرب
ایران اور اسرائیل کے درمیان باہمی کشیدگی چھٹے دن میں داخل ہونے کے بعد سے سعودی عرب نے خطے میں استحکام کے حصول کے لیے کثیرالجہتی سفارت کاری کے ذریعے دباؤ کے پیغامات بھیجے ہیں۔ یہ تنازع کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ریاض کی سیاسی قوت کی کوشش کا حصہ ہے۔

تہران: ایران اور اسرائیل کے درمیان باہمی کشیدگی چھٹے دن میں داخل ہونے کے بعد سے سعودی عرب نے خطے میں استحکام کے حصول کے لیے کثیرالجہتی سفارت کاری کے ذریعے دباؤ کے پیغامات بھیجے ہیں۔ یہ تنازع کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ریاض کی سیاسی قوت کی کوشش کا حصہ ہے۔
اسرائیل کی جانب سے تہران کے خلاف آپریشن "رائزنگ لائن” کے ساتھ حیرت کے عنصر کا غلبہ ہے۔ سعودی عرب نے زور دے کر کہا ہے کہ اسرائیلی حملوں نے بحران کے حل کے لیے جاری مذاکرات میں خلل ڈالا ہے اور کشیدگی کو کم کرنے اور سفارتی حل تک پہنچنے کی کوششوں میں بھی رکاوٹ ڈالی ہے۔
سعودی بین الاقوامی تعلقات کے محقق ڈاکٹر سالم الیامی نے خطے میں بڑھتے ہوئے اسرائیل ایران تنازع پر قابو پانے کے لیے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کی وضاحت کی اور کہا یہ قدم خلیجی ریاستوں کی حکمت کا حصہ ہے جس کی سربراہی سعودی عرب کر رہا ہے۔ ریاستوں سے پہلے معاشروں کو نقصان پہنچانے والی جنگوں اور تنازعات پر تعمیری حل کو ترجیح دینے کی تمہید کے حصے کے طور پریہ اقدام کیا جارہا۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے الیامی نے کہا سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں تمام علاقائی اور بین الاقوامی فریقوں کے ساتھ مل کر حالات کو پرسکون کرنے اور تناؤ کو کم کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہیں۔ یہ تناؤ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے بحران کے منفی اثرات کی بنا پر ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کے محقق کے مطابق خطہ انتہائی پریشان کن واقعات کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ خاص طور پر چونکہ وہ بنیادی طور پر بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ہیں اور ایک خودمختار ریاست کے خلاف واضح جارحیت ہیں۔ ڈاکٹر سالم الیامی کے یہ تبصرے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد آئے ہیں۔ اس جنگ میں مسلسل چھٹے دن طاقت کے استعمال کا دروازہ کھلا رہا۔ دونوں ممالک نے فضائی حملوں اور بیلسٹک میزائلوں سے ایک دوسرے کو جواب دیا۔
ڈاکٹر الیامی نے کہا ہے کہ سعودی خلیجی موقف تمام فریقوں سے کشیدگی کم کرنے اور براہ راست فوجی کارروائی سے ہٹ کر مسائل کا حل تلاش کرنے پر مبنی ہے۔ یہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے بین الاقوامی نظام کے اندر بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی پابندی کرنے کے ہر ایک کے لیے مسلسل مطالبات کے مطابق ہے۔ انہوں نے اخلاقی ذمہ داری سے ہٹ کر اقوام متحدہ سے تنازع کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کرنے پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں سیاسی اور عسکری تجزیہ کے ڈائریکٹر رچرڈ ویٹز نے کہا ہے کہ موجودہ بحران کے حل میں سعودی عرب کا اہم اثر و رسوخ ہے۔ اس کی وجہ متعدد تحفظات ہیں جن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاض امریکہ کا ایک سٹریٹجک پارٹنر ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بقیہ خلیجی ریاستوں کے ساتھ ہم آہنگی اور تال میل چاہتے ہیں۔ ایران کے خلاف اسرائیلی حملوں پر ٹرمپ کا مؤقف اگر مبہم رہا بھی تو وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ وہ تل ابیب کی حمایت کرتے ہیں۔