بیوی کیلئے مناسب رہائش کا انتظام کرنا شوہر پر واجب ہے
بیوی کے نفقہ میں اس کے لئے رہائش کا انتظام کرنا بھی شامل ہے، فقہاء کرام نے نفقہ کی تعریف میں رہائش کو بھی شامل کیاہے۔بیوی کے لئے رہائش کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ جنت میں رہو۔ (سورۃ البقرۃ: ۳۵)
قاضی محمدفیاض عالم قاسمی
بیوی کے نفقہ میں اس کے لئے رہائش کا انتظام کرنا بھی شامل ہے، فقہاء کرام نے نفقہ کی تعریف میں رہائش کو بھی شامل کیاہے۔بیوی کے لئے رہائش کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو حکم فرمایا کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ جنت میں رہو۔ (سورۃ البقرۃ: ۳۵) اس آیت کریمہ میں حضرت آدم کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے ساتھ ان کی بیوی کے رہنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ بیوی کی رہائش کی ذمہ داری مرد پر ہے، نیز میاں بیوی کو ساتھ میں رہناچاہئے۔
مطلقہ بیویوں کی رہائش کے تعلق سےاللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں اُن عورتوں کو رکھو۔ (سورۃ الطلاق: ۶) اس آیت میں مطلقہ عورتوں کا حکم بیان کیاگیاہےکہ عدت کے دوران ان کی رہائش کا انتظام بھی شوہر کے ذمہ ہے۔ جب شریعت نے مطلقہ عورتوں کی رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ رکھا ہے تو حسبِ استطاعت بیوی کی مناسب رہائش کی ذمہ داری بدرجہ اولیٰ شوہر کے ذمہ ہوگی۔
شوہرپر بیوی کے لئے ایسے کمرے کاانتظام کرنا ضروری ہے، جو اس کے لئے خاص ہو، وہ کمرہ اسی کے تصرف میں ہو، وہ اپنےساز وسامان رکھ سکے،وہ جب چاہے اس میں آمدورفت کرسکے،جب چاہے آرام کرسکے، اس کی چابی بھی اسی کے پاس ہو،نیزاس میں شوہرکے رشتہ داروں میں کوئی بالغ مرد و عورت مثلاً عورت کی ساس سسر، جیٹھ، جیٹھانی، دیور وغیرہ نہ رہیں، اورنہ کثرت سے ان کی آمدو رفت ہو۔ (ردالمحتار: ۳/۵۹۹)
بیوی کے لئے رہائش کاانتظام کرنے میں اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ پانی کا انتظام ہو، لائٹ اور باتھ روم کا بھی مناسب نظم ہو۔ ایسا مکان نہ ہو جس میں رہائش مشکل ہوجائے یا بیوی بادل نخواستہ رہنے پر مجبورہومثلاً اس میں پانی ٹپکتاہو، یا بے پردگی ہوتی ہو، یا پڑوسی اچھے نہ ہوں۔اگر کسی بڑے مکان کو پارٹیشن کرکے دو بنائے گئے ہیں تو پارٹیشن ایسا ہو ایک کمرے کی نارمل آوازبھی دوسرے کمرےتک نہ پہونچے۔کمرے میں کھڑکی اور روشن دان وغیرہ بھی ہو۔
رہائش کاانتظام میاں بیوی دونوں کےمالی حالات کے مطابق کیاجائے گا۔ شوہر اگر مالدارہے اوربیوی بھی ویسی ہے تو مالدارجس طرح رہتے ہیں ویساانتظام کرناواجب ہوگا، مثلا اٹیچ واش روم ہو،کشادہ مکان ہو، ہوادارہو، گرمی کے موسم میں اے سی کا انتظام ہو۔
اگردونوں میاں بیوی متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہوں تو اسی لحاظ سے انتظام کرناضروری ہوگا، مثلا ممبئی میں چال اورچھوٹی بلڈنگوں میں رہائش کا انتظام کیاجائے گا، گاؤں دیہات میں ایک بڑامکان ہوتاہے،اس میں ہر ایک کے لئے الگ الگ روم ہوتے ہیں، کچن ایک ہوتاہے،واش روم اور طہارت خانہ ایک ہی ہوتاہے، نل بھی عام طورپر ایک ہی ہوتاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
اگردونوں غریب ہوں تو کام چلانے کے لائق رہائش کا انتظام کرنا لازم ہوگا۔تاہم شوہر بہتر رہائش کے لئے کوشش کرتا رہے، کیوں کہ رہائش بنیادی ضروریات میں سے ہے۔
اگر شوہر مالداراوربیوی غریب ہے تب تو پریشانی نہیں ہوگی ،کیوں کہ شوہر مالداروالامکان فراہم کرے گا، لیکن اگر بیوی مالدار گھرانے سے ہے اورشوہر غریب ہے ایسی صورت مین شوہرکو چاہئے کہ جہاں تک ہوسکے اچھی سے اچھی رہائش کاانتظام کرے، اوربیوی کو چاہئے کہ صبر وقناعت سے کام لے،ثواب اور اللہ تعالیٰ سےوسعتِ مالی کی امید رکھے۔
میاں بیوی اور ان کے متعلقین کے باہمی رشتے قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے رابطوں سے نبھائے جائیں تو یہ رشتے کامیاب رہتے ہیں، اسلام نے ہر مسلمان کو تمام تعلق داروں سے حسن معاشرت کا حکم دیاہے، جیسے بیوی پر شوہر کے حقوق اور اس کے والدین کا احترام وتوقیر لازم ہے، اسی طرح شوہر کے ذمہ بھی بیوی کے حقوق لازم ہیں، اور شوہر کے والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ آنے والی بہو کو اپنی حقیقی بیٹی سمجھتے ہوئے اس سے وہی سلوک وبرتاؤ رکھیں جو حقیقی بیٹی سے رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں جانبین کو حقوق کے مطالبے کے بجائے اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ کرناچاہیے، بیوی کو چاہیے کہ اپنی ساس کی ہر بات برداشت کرے،ان کی ہر نصیحت کا خندہ پیشانی سے استقبال کرے اورشوہر کے والدین کی خدمت کرے ،یہ میاں بیوی دونوں کی سعادت اور اخروی نیک بختی ہے، یہ ہمت اور حوصلہ اور شوہر کے بزرگ والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت بیوی کو لائق رشک بنادیتا ہے، نیز اس کی برکتوں کا مشاہدہ پھر میاں بیوی خود بھی کرتے ہیں۔اس لیے میاں بیوی حتی الامکان اسی کی کوشش کریں کہ والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت کریں، اگر ان سے کوئی سخت یا ناروا بات بھی ہوجائے تو اس پر صبر کریں اوراللہ سے اجر کی امید رکھیں۔
تاہم اگربیوی میں اتنا حوصلہ نہیں ہےتوشرعاً اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ شوہر کے والدین کے ساتھ ہی رہے، بلکہ شریعت نے عورت کو الگ رہائش کا حق دیاہے، ایسی صورت میں شوہر کے والدین اور اس کی بیوی دونوں کے حق میں روزانہ کی اذیت سے بہتر یہ ہے کہ الگ رہائش اختیار کرلیں، لیکن علیحدہ رہائش اختیار کرنے میں شوہر کے والدین سے قطع تعلق کی نیت نہ ہو، بلکہ نیت یہ ہو کہ ساتھ رہ کہ والدین کو جو اذیت ہم سے پہنچتی ہے اور جو بے ادبی ہوتی ہے اس سے بچ جائیں، غرض خود کو قصوروارسمجھ کر الگ ہونا چاہیے والدین کو قصوروار ٹھہرا کر نہیں۔ اور الگ ہونے کے بعد بھی شوہر کے والدین کی ہر خدمت کو اپنی سعادت سمجھا جائے۔
بیوی کے لیے الگ رہائش کا بندوبست ایک علیحدہ معاملہ ہے اور والدین کے ساتھ محبت کا اظہار اور ان کے ساتھ تعلق اور میل جول رکھنا ایک علیحدہ معاملہ ہے، اولاد کے دل میں والدین کی محبت ہونی ہی چاہیے اور والدین کے حقوق کی ادائیگی اولاد پر فرض بھی ہے۔ شوہر بیک وقت دونوں امور کو بحسن وخوبی انجام دے سکتا ہے۔ بیوی کو علیحدہ رہائش دینے سے یہ نتیجہ کہاں نکلتا ہے کہ والدین کی محبت میں یا ان کے ساتھ میل جول میں کسی طرح بھی کمی کرے!! نہ ہی بیوی کی الگ رہائش کا یہ مطلب ہے کہ والدین کو چھوڑ کر ہر وقت بیوی کے پاس موجود رہے، جیسے اپنے کاروبار اور ضروریات کے لیے انسان دن بھر گھر سے باہر رہتاہے، اسی طرح والدین کی خدمت ، ان سے میل جول، ان کے حقوق کی ادائیگی کی ترتیب بھی بنائی جاسکتی ہے، یہ کوئی ایسا کام نہیں کہ جو ناممکن یا بہت مشکل ہو، اللہ تعالی نے انسان کو اسی نظام سے منسلک پیدا کیا ہے ، اور اسی دنیا میں انہیں تعلقات کو نبھاتے ہوئے اس نے کامیاب زندگی گزارنی ہے، بیوی کا مطالبہ بھی اپنی بساط کے مطابق پورا کرے اور والدین کے ساتھ میل جول بھی بیک وقت برقرار رکھے، دونوں باتیں، گو کہ ہمت اور شخصی استقلال چاہتی ہیں، لیکن یہ مشکل یا ناممکن نہیں ہیں۔ (مستفاد از: دارالافتاء جامعہ اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)
بعض دفعہ گھرمیں صرف بوڑھے ماں باپ ہوتے ہیں اورساتھ کوئی چھوٹا بچہ ہوتاہے، تو ایسی صورت میں اگر بیوی الگ مکان کاانتظام کرنے کے لئے کہے توکیا کیاجائے؟ تو یاد رکھناچاہئے کہ اگر ایک ساتھ رہنے میں کوئی تکلیف نہیں ہے تو اس کامطالبہ درست نہیں ہے، اوراگر تھوڑی بہت تکلیف ہے تو اس دنیاوی زندگی میں اورانسانوں کے بیچ رہنے میں ہر گھر تھوڑی بہت تکلیف ہوتی ہے۔عورت کو برداشت کرلیناچاہئے۔یہ بھی یاد رکھناچاہئے کہ دوچیزیں ہیں: ایک ہے عدل اورایک ہے احسان ،میاں بیوی کا رشتہ عدل کے بجائے احسان پر زیادہ پائدارہوتاہے، بیوی اپنی خواہشات کی قربانی دے گی تو ایک دن وہ اسی گھرکی ساس اورملکہ بنے گی۔ ایسی صورت میں بیوی کو چاہئے کہ الگ مکان کامطالبہ نہ کرے۔اگروہ خدانخواستہ الگ مکان کا مطالبہ کرتی ہے کہ اس کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے وہ اپنے شوہر کو اپنے ماں باپ سے دورکرنے کی کوشش کررہی ہے پس کہیں ایسا نہ ہو کہ جب وہ ساس بنے گی تو اس کے بچے بھی اپنی بیویوں کو لیکر الگ نہ ہوجائیں۔اس کے باوجود اگر بیوی اپنے مطالبہ پر مصر ہو تو مرد کو چاہئے کہ ماں باپ سے قریبی جگہ پر گھر کاانتظام کرے تاکہ وہ دونوں کی نظروں کے سامنے رہے اوربوقت ضرورت ان کی فوراً خدمت کرسکے۔
جوائنٹ فیملی میں بعض دفعہ بیوی کو واقعی تکلیف ہونے لگتی ہے،شوہر کے رشتہ دارمثلاًاس کی ماں بہن (نند) وغیرہ ستاتی ہیں، ایسی صورت میں بیوی الگ مکان کامطالبہ کرسکتی ہے، مرد پر لازم ہے کہ بیوی کے لئے الگ مکان کا انتظام کرے۔ لیکن اگر بیوی نے صبر وقناعت سے کام لیاتواسے بہت ثواب ملے گا۔ (ہندیہ: ۱/۵۵۶، فتاویٰ قاضیخان: ۲۰۹)
تاہم اگر شوہر تکلیف دئیے جانے کاانکارکرے یا اس کی ماں اوربہنیں انکارکریں، یا الٹااسی پرالزام لگائے کہ یہی ہم پر ظلم کرتی ہے۔تو معاملہ دارالقضاء میں پیش کیاجائے گا، قاضی تحقیق حال کے بعد فیصلہ کرے گا۔
نیرواضح رہے کہ بیوی کااپنے نام پر مکان لینے کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔ کیوں کہ بیوی کی رہائش کا انتظام کرنا واجب ہے، خواہ کرایہ کےذریعہ ہویا ذاتی مکان ہو۔ البتہ اگر شوہر بیوی کے نام پر کوئی مکان خریدتا ہے تو اس بات کی صراحت کردے کہ کیا وہ صرف اس کے نام پر لے رہاہے یا خرید کر بیوی کو ہدیہ کررہاہے، یا صرف رہنے کے واسطے دے رہا ہے؛ تاکہ بعد میں جھگڑے کاسبب نہ بنے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان رہائش سے متعلق جھگڑا ہوجائے تو معاملہ دارالقضاء میں پیش کیا جائے گا، اور قاضی دونوں کے حالات کی تحقیق کے بعد مناسب رہائش کا حکم دے گا۔
٭٭٭