مذہب

ریاستی انتخابات اور مسلمانوں کا لائحہ عمل

ریاستی انتخابات کو لیکر ہر سیاسی جماعت بڑی متفکر نظر آرہی ہے اپنے اپنے جماعتوں کے انتخابی منشور کو لیکر وہ ہر گھر اور ہر در پر دستک دے رہے ہیں۔

مفتی عبدالعلیم فیصل قاسمی۔ نرمل

ریاستی انتخابات کو لیکر ہر سیاسی جماعت بڑی متفکر نظر آرہی ہے اپنے اپنے جماعتوں کے انتخابی منشور کو لیکر وہ ہر گھر اور ہر در پر دستک دے رہے ہیں اس انتخابی منشور کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے بڑی بڑی کمپنیاں فیسٹیول اور تہواروں کے موقعوں پر اپنے اپنے گاہکوں اور خریداروں کو لبھانے اور مائل کرنے کیلئے نئے نئے حربے اور طریقے استعمال کرتی ہیں کچھ ایسا ہی منظر انتخابات میں ہماری سیاسی جماعتیں اور پارٹیاں پیش کررہی ہیں، انتخابات چاہے وہ پارلیمانی ہوں یا پھر اسمبلی ان موقعوں پر دینی جماعتوں اور تنظیموں پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے، سیدھی سادی عوام جن کا اپنا کوئی موقف نہیں ہوتا وہ کسی کے فیصلے کو اپنا فیصلہ بناتے ہیں ۔

یہ اور بات ہے کہ ان کو کسی جماعت سے فائدہ ہوا ہو یا نقصان ،وہ ماضی کو بھول کر حالات سے سمجھوتہ کر کےاپنے مذہبی پیشواؤں اور تنظیموں کے ذمہ داران اور سیاسی بصیرت رکھنے والے تجربہ کاروں کے اشاروں کے منتظر ہوتے ہیں، وہ جس جماعت کی جانب اشارہ کرے، یا تائید کرے اپنامستقبل اور اپنے سجائے ہوئے خوبصورت خواب، ان کے حوالے کردیتے ہیں،یہی وہ عقیدت اور جذبہ ہے، جو ہندوستان کے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جس کی نظیر کہیں اور ملناناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے،

یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بے محل نہ ہوگا کہ تلنگانہ میں مسلمانوں کو بادشاہ گر کا مقام حاصل ہے کوئی بھی جماعت اقلیتوں کو نظر انداز کر کے ایک صاف ستھری حکومت ہرگز تشکیل نہیں دے سکتی ریاستی انتخابات میں مقابلہ سہ رخی ہے تینوں جماعتیں آمنے سامنے ہیں کچھ سیاسی لیڈران اچھل کود بھی کر تے نظر آرہے ہیں،لمبے عرصے تک جس جماعت اور پارٹی سے وابستہ تھے ان جماعتوں کو چھوڑ کر وہ دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں اس کی دووجوہات ہو سکتیں ہیں یا تو پارٹی سے اختلافات، یا پھر دوسری جماعت میں اپناروش مستقبل، یا پھر ایک تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی نا کامی پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ راستہ اختیار کررہے ہوں ،

بھگوا جماعت کو چھوڑ تمام پارٹیوں کو مسلمان سیکولرازم کا علمبردار تصور کرتی ہیں لیکن یہ بات بھی بالکل واضح اور عیاں ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد ستر سال کا ایک طویل عرصہ گزر چکا لیکن آج تک کوئی بھی سیاسی جماعت خواہ اس سے مسلمان وابسطہ رہے ہوں یا نہ رہے ہوں مسلمانوں کے حق میں سو فیصد مفید تر کھبی ثابت نہیں ہوئی مسلمان ہمیشہ دانشمندی سے کام کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جس میدان میں بھی وہ اپنا قدم رکھتے ہیں کامیابی ان کے قدم چومتی ہیں،

اب مسلمانوں کو یہاں بھی فراست ایمانی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچا نا چاہئیے اس کے لیئے سیاسی ماہرین اور مبصرین سے مشاورت ضرور کرنی چاہیے اس وقت تلنگانہ کے انتخابات میں سب سے زیادہ کوئی جماعت مطمئن نظر آرہی ہے اور جس کو اپنی کارکردگی اور کامیابی پر پورا اعتماد ہے تو وہ بھگوا جماعت ہے،جس نے اپنا کوئی منشور بھی جاری نہیں کیا کہ جس میں، تعلیم، روزگار، ملک کی ترقی معاشی استحکام کا تذکرہ کیا جاتا، وہ صرف مذہب اور ہندو راشٹر کی تشکیل کے نام پر انتخابات لڑرہی ہیں،

مسلمان ذرا بھی نادانی اور غفلت سے کام کریں گے،اپنی انا کو فنا نہیں کریں گے، ریاست کی سالمیت اور اس کی بقا پر توجہ نہیں دینگےتو، پھر یہ بات بالکل صاف ہے کہ جنوبی ریاست میں اس جماعت کوقدم جمانے اور حکومت بنانے سےکوئی نہیں روک سکتا مسلمانوں کو چاہیے وہ نبی رحمت کے فرمان: اتقو فراست المومن کی عملی تفسیر پیش کریں ،اس وقت حالات کا سنگینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے آپسی اختلافات اور انتشار کو ختم کر کے ملت اسلامیہ کے مفادات کو ترجیح دینا جمہوریت کے تحفظ کیلئے ممکنہ کوشش کرنا یہی وہ نمایاں کام ہیں جس کو انجام دینے کی ضرورت ہے،

یہ وقت ریاست کے مسلمانوں کی آزمائش کا بھی ہے اور امتحان کابھی، اگر فیصلہ درست لیا جاتا ہے کہ جس سے نہ صرف مسلمان بلکہ ریاست کی دوسری اقوام کو بھی فائدہ پہنچے تو پھر پورے ملک میں یہ اپنے میں ایک مثال بنے گا، اب ان ساری باتوں کا انحصار مسلمانوں پر ہی موقوف ہے کہ وہ اقتدار کی باگ ڈور کسے سونپیں گے اور حکومت کس کے حوالے کریں گے یہ فیصلہ سنجیدگی کے ساتھ کرنا ہے ورنہ پھر وہی ہو گا جو ہمیشہ سنتے آئیں ہیں

لمحوں نے خطا کی صدیوں نےسزا پائی
٭٭٭