تلنگانہ

انسانی وسائل کی تیاری کیلئے تلنگانہ میں جاپانی زبان کی تعلیم دی جائے گی:وزیراعلی تلنگانہ

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک ون پلس ون حکمتِ عملی کے تحت متبادل سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہے ہیں اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے حکومت نے کئی اقدامات شروع کئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ریاست میں ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ فلاحی اسکیموں کو مؤثر انداز میں نافذ کیا جا رہا ہے۔

حیدرآباد: وزیراعلی تلنگانہ ریونت ریڈی نے کہا ہے کہ تلنگانہ حکومت کے اقدامات اور پالیسیوں کی پورے ملک میں پذیرائی ہو رہی ہے۔ سماجی انصاف سمیت دیگر شعبوں میں ”تلنگانہ ماڈل“کو مرکزی حکومت بھی اختیار پر مجبور ہو چکی ہے۔

متعلقہ خبریں
بی آر ایس کی رکن قانون ساز کونسل کویتا کی کانگریس حکومت اور چیف منسٹر ریونت ریڈی پر شدید تنقید
جمعیتہ علماء ضلع نظام آباد کی مجلس منتظمہ کا اجلاس وممبر سازی مہم کا آغاز
ضلع مرکز میں 27 واں مفت سمر کراٹے کیمپ، طلباء کی صلاحیتوں کو نکھارنے کا سنہری موقع: چنہ ویرایا
اقلیتی طلبہ کے لیے UPSC امتحان کی مفت کوچنگ، درخواستوں کا آغاز
تلنگانہ میں آن لائن جوئے اور سٹے بازی میں خطرناک اضافہ، PRAHAR نے ریاست گیر سروے کا اعلان کر دیا

انگریزی روزنامہ ”دی ہندو“ کی جانب سے منعقدہ ”دی ہندو ہڈل“ پروگرام میں ریونت ریڈی نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ شرکت کی اور کئی سوالات کے تفصیلی جوابات دیئے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک ون پلس ون حکمتِ عملی کے تحت متبادل سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہے ہیں اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے حکومت نے کئی اقدامات شروع کئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ریاست میں ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ فلاحی اسکیموں کو مؤثر انداز میں نافذ کیا جا رہا ہے۔

بدلتے حالات کے پیشِ نظر حکومت تعلیم، روزگار، بنیادی سہولیات کی فراہمی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، اور اس ضمن میں کئی منفرد منصوبے شروع کئے گئے ہیں تاکہ تلنگانہ دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کا مقابلہ کر سکے۔”نٹ زیروسٹی“کیلئے منصوبہ بندی مکمل ہو چکی ہے، اور ملک کے پہلے فیوچر سٹی کی بھی تعمیر عمل میں آرہی ہے۔

ریاست میں الکٹرک گاڑیوں پر ٹیکس معاف کیا گیا ہے۔ 360 کلومیٹر طویل ریجنل رنگ روڈ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ریاست کو صنعتی طور پر ترقی دینے کی تیاری مکمل کی گئی ہے۔ رنگ روڈ کے اندرونی حصوں میں صنعتی پارکس، آئی ٹی، الکٹرک گاڑیوں، آٹوموبائل اور دیگر صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں گی

۔ ڈرائی پورٹ کی تعمیر سمیت کئی منصوبے طے کئے گئے ہیں۔ ریاست نے اب تک دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری حاصل کی ہے، جو ریاستی معیشت کو مضبوط بنائے گی۔ حکومت مؤثر منصوبہ بندی کے تحت سرمایہ کاری کو راغب کرنے، صنعتوں اور آئی ٹی کمپنیوں کو فروغ دینے کوشاں ہے۔

حالیہ جاپان دورہ کے دوران حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ریاست میں جاپانی زبان کی تعلیم دی جائے گی تاکہ وہاں درکار انسانی وسائل تیار کئے جا سکیں۔ریاست میں کئے گئے سماجی، اقتصادی، تعلیمی، روزگار اور سیاسی سروے کو ملک بھر کے لئے ماڈل قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ سروے صرف پسماندہ طبقات ہی نہیں بلکہ بی سی، ایس ٹی، ایس سی، اقلیتوں اور ای ڈبلیو ایس طبقات کے عوام کے لئے مفید ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق تلنگانہ نے پہل کی ہے اور مرکزی حکومت کو بھی تلنگانہ ماڈل کو اپنانا چاہیے۔

ریاست کے مختلف اقامتی اسکولوں میں انفرادی طور پر جاری تعلیم کو مربوط کرتے ہوئے بچوں میں سماجی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ینگ انڈیا ریسیڈینشل اسکولس کا قیام حکومت کا ایک اہم فیصلہ ہے۔

اقتدار کے پہلے سال میں ہی 25 لاکھ کسانوں کے 21,617 کروڑ روپے کے قرضہ جات معاف کئے گئے ہیں۔ کسانوں کو ہر سال 12 ہزار روپے بطور ان پٹ سبسڈی دی جارہی ہے اور 24 گھنٹے مفت بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔

تلنگانہ ملک میں سب سے زیادہ دھان پیدا کرنے والی ریاست ہے، جہاں اقل ترین امدادی قیمت کے ساتھ فی کوئنٹل 500 روپے بونس بھی دیا جا رہا ہے۔ 67 لاکھ سیلف ہیلپ گروپس کو 1,000 میگاواٹ سولار پروڈکشن کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔

اسکولوں کا انتظام، یونیفارم کی فراہمی وغیرہ کی ذمہ داری بھی ان خواتین کو سونپی گئی ہے۔ آر ٹی سی میں خواتین کے لئے مفت بس سروس مہیا کی گئی ہے۔ اقتدار کے پہلے سال میں ہی 59,000 سے زائد سرکاری ملازمتیں دی گئی ہیں۔ بے روزگار نوجوانوں کو ترجیح دیتے ہوئے کئی فیصلے کئے گئے ہیں۔

اسکل یونیورسٹی، اسپورٹس یونیورسٹی اور ٹاٹا ٹکنالوجیز کے تعاون سے ریاست کے 105 آئی ٹی آئیز کو اے ٹی سیز میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ لوک سبھا کے حلقوں کی ازسرنوحدبندی کے خلاف ہم نہیں ہیں لیکن مرکزی حکومت کو پہلے تمام پارٹیوں سے مشورہ کرکے اس کا طریقہ کار واضح کرنا ہوگا۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام ریاستوں کے ساتھ مساوی سلوک ہو، اور ترقی کر رہی ریاستوں کو سزا نہ دی جائے۔ یہ ایک سماجی و سیاسی انصاف کا معاملہ ہے، اس پر بحث ہونی چاہیے۔