دہلی

مسلم مخالف تقریر کرنے والے جج کی عنقریب سپریم کورٹ میں حاضری

سرکاری بیان میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے برسرخدمت جج شیکھرکماریادو کی تقریر کی نیوز رپورٹس کانوٹ لیا ہے۔ ہائی کورٹ سے تفصیلات طلب کرلی گئی ہیں اور معاملہ زیرغور ہے۔

دہلی: وشواہندوپریشد کی تقریب میں متنازعہ باتیں کرنے والے جسٹس شیکھر کمار یادو امکان ہے کہ عنقریب سپریم کورٹ میں حاضر ہوں گے اور اِس تنازعہ پر اپنے موقف کی وضاحت کریں گے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے 10 دسمبر کو اخباری اطلاعات کا نوٹ لیا تھا اور الٰہ آباد ہائی کورٹ سے سارے مسئلہ کی رپورٹ طلب کرلی تھی۔

متعلقہ خبریں
رام دیو کے خلاف مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی شکایت
کشمیر میں دہشت گردوں کو کچل دینے سیکوریٹی فورسس کو مکمل آزادی: منوج سنہا
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ
ہریانہ تشدد، دہلی کے کئی علاقوں میں وی ایچ پی کے احتجاجی مظاہرے
گروپI امتحانات، 46مراکز پر امتحان کا آغاز

 سرکاری بیان میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے برسرخدمت جج شیکھرکماریادو کی تقریر کی نیوز رپورٹس کانوٹ لیا ہے۔ ہائی کورٹ سے تفصیلات طلب کرلی گئی ہیں اور معاملہ زیرغور ہے۔ مروجہ طریقہ کار کے مطابق سپریم کالجیم جس جج کے تعلق سے ہائی کورٹ سے رپورٹ منگواتا ہے، اسے چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی والے کالجیم کے سامنے اپنی بات رکھنی ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ ذرائع نے بتایا کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج کو حاضر ہونے کو کہا جاسکتا ہے۔ 8دسمبر کو وشواہندوپریشد کے ایونٹ میں جسٹس یادو نے کہا تھا کہ یکساں سیول کوڈ کا بنیادی مقصد سماجی ہم آہنگی، صنفی مساوات اور سیکولرازم کو بڑھاوادینا ہے۔

 وہ الٰہ آباد ہائی کورٹ میں وی ایچ پی لیگل سیل اینڈ ہائی کورٹ یونٹ کے صوبائی کنونشن سے خطاب کررہے تھے۔ دوسرے دن جج کے ویڈیوز سوشیل میڈیا پر وائرل ہوگئے، جن میں انہیں یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ملک اکثریت کے مطابق چلے گا۔ کئی گوشوں سے اس پر تنقید ہوئی تھی۔

اپوزیشن قائدین نے اسے نفرت بھڑکانے والی تقریر قرار دیا تھا۔ وکیل پرشانت بھوشن نے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیوکھنا کو لکھا تھا کہ الٰہ آباد ہائی کورٹ جج کے رویہ کی ”اِن ہاؤزانکوائری“ کرائی جائے۔ 8دسمبر کو سی پی آئی ایم قائد برنداکرت نے بھی سی جے آئی کو لکھا تھا کہ ایسے شخص کے لئے عدالت ِ انصاف میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔

باراسوسی ایشن آف انڈیا نے بھی جج کے بیان کی مذمت میں قرار داد منظور کی تھی اور جج سے کہا تھا کہ وہ یاتو اپنا بیان واپس لیں یا معافی مانگیں۔ باراسوسی ایشن نے چیف جسٹس آف انڈیا اور سپریم کورٹ کے دیگر ججس سے گزارش کی تھی کہ وہ اس مسئلہ سے سختی سے نمٹیں۔