مذہب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام گمراہوں کے نام

لغت میں’’ گمراہ‘‘ کے معنی ہیں بھٹکا ہوا ، راستے سے ہٹا ہوا ، گم کردہ راہ ،کج رو، منحرف ہونا،بد دین کرنا، بدعتی بنانا ، دین سے کھونا ،بد مذھب ہونا، دین چھوڑنا ، دین کے خلاف کرنا، خداسے نہ ڈرنے والا ، یہ سب معانی ڈکشنری میں بیان کئے گئے ہیں اسی سے ایک لفظ نکلا ہے’’ گمراہی‘‘ یعنی دین اسلام کے مخالف کام ، ہر وہ کام جس سے سے اسلام نے منع کیا اسے اختیار کرنا گمراہی ہے۔

محمدعبد الرحیم خرم عمری جامعی
مہتمم ومؤسس جامعہ اسلامیہ احسن الحدیث
عبا داللہ فاؤنڈیشن۔ فون نمبر:9642699901

لغت میں’’ گمراہ‘‘ کے معنی ہیں بھٹکا ہوا ، راستے سے ہٹا ہوا ، گم کردہ راہ ،کج رو، منحرف ہونا، بد دین کرنا، بدعتی بنانا ، دین سے کھونا، بد مذھب ہونا، دین چھوڑنا ، دین کے خلاف کرنا، خداسے نہ ڈرنے والا ، یہ سب معانی ڈکشنری میں بیان کئے گئے ہیں اسی سے ایک لفظ نکلا ہے’’ گمراہی‘‘ یعنی دین اسلام کے مخالف کام ، ہر وہ کام جس سے سے اسلام نے منع کیا اسے اختیار کرنا گمراہی ہے۔

گمراہی کے اسباب:(۱) گمراہی کے بہت سے اسباب ہیں ہر مسلمان کو چاہئے کہ ان راہوں کا علم حاصل کرے تاکہ وہ گمراہی کا شکار نہ ہو اور ہمہ قسم کی گمراہیوں سے محفوظ رہ سکے ۔ گمراہی کے اسباب میں سے ایک غلط فہمی ہے اور غلط فہمی کئی وجوہات کے سبب ہوتی ہے جن میں سے ایک علم کا عمل سے نا موافقت کرنا ہے بعض اہل علم و دانش سے ایسی نازیبا حرکتیں و لغزشیں سرزد ہوجاتی ہیں جس کے سبب لوگ غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ عالم صاحب کا یہ طرز عمل شاید شریعت میں ہوگا لہذ اہم بھی کریں ، جب ایسے لوگوں سے پوچھا جائے کہ تم یہ عمل کیوں کر رہے ہو تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ فلاں عالم صاحب کو عمل کرتے دیکھا تو ہم بھی عمل کرنے لگے اس ضمن میں حضرت ہرم ؔبن حیان بیان فرماتے ہیں:’’ فاسق عالم سے بچو‘‘ اس بات کی اطلاع حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو ملی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں خط میں لکھا کہ’’ فاسق عالم سے مراد کیا ہے؟‘‘ ہرم ؔ اس بات سے خوفزدہ ہوگئے، ہرمؔ نے جواب میں لکھا: ’’اے امیر المؤمنین! ’’ اللہ کی قسم ! میری مراد صرف نیکی ہی تھی بعض اوقات ایسا حکمران ہوتا ہے جو اپنے علم کے مطابق بات تو کرتا ہے لیکن اس کا عمل گناہ پر ہوتا ہے ، ایسا شخص لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کردیتا ہے جس کی وجہ سے لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں ‘‘۔( سنن دارمی:302 )

(۲) گمراہی کا ایک سبب بنا علم کے فتویٰ دینا بھی ہے، آدمی کو علم نہیں ہوتا پھر بھی اپنے فکر و خیال اور قیاس کی بنیاد پر فتویٰ دیتا ہے اور اس کے فتوے کو پڑھ کر لوگ عمل کرنے لگتے ہیں، اسی لئے اہل علم کوچاہئے کہ جب بھی انھیں کسی بات کا علم نہ ہو تو وہ فتوی نہ دیں بلکہ کہہ دیں کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے میں تحقیق کرکے جواب دوں گا، یہ اہل علم کے بلند معیار کی دلیل ہے، لیکن بعض لوگ اسے کسر شان سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے علمی وقارکے خلاف ہے ، اگر ہم سوال کا جواب نہ دیں تو لوگ کیا کہیں گے ؟ کیا سمجھیں گے ؟ اسی لئے خیالی فتوے داغ دئے جاتے ہیں ایسے مفتیوں سے قوم و ملت اور مذہب و دین کی نیک نامی متاثر ہوتی ہے ۔ حدیث شریف میں ہے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ بیشک اللہ علم کو قبض کر لے گا ، اسے لوگوں سے الگ کردے گا ، لیکن اس کا علم قبض کرناعلماء کے قبض کرنے کی شکل میں ہوگا یہاں تک کہ وہ کسی عالم کو ( دنیا میں) باقی نہیں رہنے دے گا تو لوگ جہلا کو پیشوا بنا لیں گے ، ان جہلا سے سوال کئے جائیں گے وہ لوگ علم نہ ہونے کے باوجو د فتوی دیں گے ، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ‘‘ ۔( سنن دارمی:241 ) بنا علم کے فتوی بازی دین کو مذاق کا ذریعہ بنا دیتی ہے اور مسلمانوں میں انتشار پیدا کرتی ہے۔

(۳) عوام الناس کی گمراہی کا ایک اور سبب علمائے سو کی پیشوائی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کا موجب ثابت ہوتی ہے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ علمائے حق و علمائے ربانی سے اپنے مسائل رجوع کریں اپنے آپ کو بھی گمراہی سے بچائیں اور اور دین اسلام کو تباہی سے بچائیں۔حدیث شریف میں ہے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اِنَّ أَخْوَفُ مَاأَخَافُ عَلَیْکُمْ الأَئِمَّۃَ المُضِلِّیْنَ ’’تم لوگوں کے بارے میں مجھے سب سے زیادہ خوف گمراہ کرنے والے پیشواؤں کا ہے ‘‘( سنن دارمی:213 )

(۴) گمراہی کا ایک سبب شخصی رائے پر عمل کرنا ہے حالانکہ احکام شریعت کی توضیحات کے مقابلے میں رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے ،رائے شخصی ہوتی ہے اور شریعت الہی ہوتی ہے،شریعت کو چھوڑ کر رائے پر عمل کرنا گمراہی ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے حضرت عروہ بن زبیر بیان فرماتے ہیں کہ ’’بنی اسرائیل کا معاملہ ایک وقت تک ٹھیک رہا اور ان میں کوئی خرابی نہیں آئی یہاں تک کہ ان میں باہر سے پیدا ہونے والے بچوں نے نشو نما نہیں پائی یہ مختلف اقوام کے بچے تھے یہ ان عورتوں کی اولاد تھے جنہیں بنی اسرائیل نے دوسری قوم میں سے قیدی بنایا تھا ان لوگوں نے رائے کے مطابق بات کہنا شروع کی اور انھیں گمراہ کردیا ‘‘(سنن دارمی: 120)

(۵) گمراہی کا ایک سبب حدیث رسول کی موجودگی میں کسی کے قول کو نقل کرنا اور اس کو اہمیت دینا اور اس پر عمل کرنا بھی ہے جیسا کہ حضرت ہشام بیان فرماتے ہیں حضرت طاوس عصر کے بعد دو رکعت ادا کیا کرتے تھے ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے کہاکہ انھیں پڑھنا چھوڑ دو ، طاؤس نے عرض کیا کہ ان سے اس لئے منع کیا گیا کہ انھیں سیڑھی کے طور پر نہ پڑھا جائے ۔ حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما نے ارشادفر مایا :’’ عصر کے بعد نماز ادا کرنے سے منع کیا گیا ہے مجھے نہیں پتا کہ تمہیں ان نوافل کے پڑھنے پر عذاب دیا جائیگا یا اجر ملے گا کیونکہ اللہ نے ارشاد فرمایاہے: وَمَاکَانَ لِمُؤْمِنٍٍ وَّلَا مُؤْمِنَہٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُولُہٓ اَمْرًااَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰللًا مُّبِیْنًا’’کسی بھی مؤمن مرد یا عورت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بھی معاملے میں فیصلہ دے دیں تو انھیں اپنے کسی معاملے میں کسی قسم کا کوئی اختیار ہو اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ واضح گمراہی کا شکار ہوجائیگا ‘‘ سفیان بیان کرتے ہیں سیڑھی کے طور پر استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک مسلسل نمازیں ادا کئے جائیں‘‘( سنن دارمی: 435/الاحذاب:36 )

(۶) گمراہی کے ا سباب میں سے ایک سبب دنیوی زندگی کی آسائشیں ہیں جس میںمشغول ہو کر انسان آخرت کو بھول جائے حدیث شریف میں ہے حضرت عوف بن ملک اشجعی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ میں کھڑے ہوئے اور فرمایا : ’’ کیا تمہیں غربت و افلاس کا ڈر ہے ، کیا تمہاری پریشانی دنیا ہے بیشک اللہ تعالیٰ تم پر فارس اور روم کی سلطنتیں تمہارے لئے فتح کروانے والا ہے ، دنیا تم پر اس طرح بہہ پڑے گی کہ کوئی چیز تم کو گمراہ کرنے والی نہیں ہوگی مگر یہی دنیا ‘‘( مسند احمد:10077 ، صحیح)

(۷) گمراہی کا ایک سبب نفسانی خواہشات کی تکمیل ہے کہ انسان صرف اپنے نفس کی خوشی و آسائش کے لئے ہر وہ کام کرے گا جس سے اس کے نفس کو سکون ملے، اسی لئے ہم نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے کسی بھی کام کی تکمیل کے بعد کہتے ہیں کہ ’’ میرا دل خوش ہوا‘‘ اسی طرح کہتے ہیں کہ: ’’میرے دل کو سکون ہوا‘‘ اسی طرح کہتے ہیں کہ :’’ میں جوچاہوںوہ کروں میرے دل کی مرضی‘‘ گویا ہم نے اپنے دل کو معبود بنالیا یہی گمراہی ہے حالانکہ مؤمن کا ہر کام اللہ کی رضا و خوشی کے لئے ہوتا ہے ، مؤمن کے ہر عمل کا مقصود اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے چہرے کی خوشنودی ہوتی ہے۔حدث شریف میں ہے حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ مجھے تمہارے بارے میں سرکشی کی جن شہوتوں کاسب سے زیادہ ڈر ہے ان کا تعلق تمہارے پیٹوں، شرمگاہوں، گمراہ کرنے والی خواہشوں اور فتنوں سے ہے‘‘ ( مسند احمد:9963 )

(۸) گمراہی کا ایک اور سبب باہمی اختلافات ہیں ، باہمی اختلاف کے کئی ایک اسباب ہیں جیسے فقہی و مسلکی اختلافات ، اظہار رائے کا اختلاف، خاندان و قبائل کا اختلاف ، حسب و نسب کا اختلاف ،مساجد و مدارس کی کمیٹیوں کا اختلاف ، قومی قیادت و سیادت کا اختلاف ، بھائیوں اور بہنوں میں اختلاف ، بہر حال اختلافات کی کئی نوعیتیں ہیںمگر یہ اختلافات گمراہی کے راستوں کو ہموار کرتے ہیں اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمہ قسم کے اختلافات سے منع فرمایا حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ کوئی قوم ہدایت پانے کے بعد گمراہ نہیں ہوتی مگر اس طرح کہ وہ جھگڑنا شروع کردیتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی:وَقَالُوْائَ اٰلِھَتُنَاخَیْرٌاَمْ ھُوَمَاضَرَبُوْہُ لَکَ اِلَّاجَدَلًابَلْ ھُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْن ’’اور انہوں نے کہا کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ ؟ تجھ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے بلکہ یہ لوگ ہی جھگڑالو ہیں‘‘ (زخرف:58 / مسند احمد:9924 )

(۹) گمراہی کا ایک اور سبب غیر اقوم کی قربت ہے اہل ایمان کو چاہئے کہ اہل ایمان کی قربتیں اختیار کریں چاہے وہ معاشرت کا معاملہ ہو یا معیشت کا ، غیر اقوام کی قربتیں عقیدہ و منہج عادات و اطورار میں بگاڑ پیدا کردیتی ہیں، غیر اقوم کسی بھی وقت نہ ہمراز بن سکتے ہیںاور نہ ہم قدم ثابت ہوسکتے ہیں،وہ اہل ایمان سے کتنی ہی قربت کیوں نہ بڑھائیں ان کے دلوں میں مسلمانوں سے نفرت کسی نہ کسی طرح پائی جاتی ہے ، تمام مذاہب وادیان میں دین اسلام کے سب سے زیادہ قریب اور اہل ایمان سے کسی قدر محبت رکھنے والے نصاری ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قربتوں سے بھی منع فرمایا ہے ۔ حدیث شریف میں ہے حضرت ابو قلابہ ارشاد فرماتے ہیں کہ :’’ بد مذھب لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو اور ان کے ساتھ بحث نہ کرو کیونکہ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ لوگ تمہیں شبہ کا شکار کردیں گے ‘‘ ( سنن دارمی:393 )

(۱۰) گمراہی کا ایک سبب یہ ہے کہ نبی کی تعلیمات کی موجودگی کے باوجود دوسرے انبیاء کی تعلیمات پر عمل کرنا یا قصے و کہانیوں کی کتابوں کا پڑھنا اور اسے دلیل بنا نا ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے حضرت یحییٰ بن جعدہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی جانور کے کندھے کی ہڈی پیش کی گئی جس میں کوئی بات تحریر تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ کسی بھی قوم کے گمراہ ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کا نبی ان کے پاس جو چیز لایا ہو وہ اسے چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوجائیں جو کوئی دوسرا نہیں لایا تھا ۔ یا وہ کتاب کے بجائے کسی دوسری کتاب کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ راوی کہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: اَوَلَمْ یَکْفِیْہِمْ اِنَّا انزلنا علیک الکتاب یتلی علیہم ان فی ذالک لرحمۃ وذکری لقوم یؤمنون’’ کیا ان لوگوں کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے تمہارے اوپر کتاب نازل کی ہے جس کی ان لوگوں کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے بیشک اس میں رحمت ہے اور نصیحت ہے اس قوم کے لئے جو ایمان رکھتی ہو ‘‘( سنن دارمی:478/العنکبوت:51)

(۱۱) گمراہی کا ایک سبب دین میںنئی راہ پیدا کرنا ہے، نئی فکر ، نئی سوچ ، نئے نظریات کے ذریعہ دین میں فساد و بگاڑ پیدا کیا جاتا ہے، ایسا ہر زمانے میں ہوا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوا جنہوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ ’’ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے ‘‘ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس آوازے کو سنا تو آپ نے ان لوگوں کی بابت منادی کروائی کہ ’’ یہ لوگ در اصل سنتوں کے دشمن ہیں یہ لوگ جہاں کہیں نظر آئیں ان کی سرکوبی کی جائے ‘‘لیکن فی زمانہ یہ گمراہی بہت زیادہ پائی جارہی ہے، دین میں نئی راہوں کا آغاز خوارج سے ہوا جو ترقی کرتا ہوا معتزلہؔ ، اشاعرہؔ،

قدریہ ، جہمیہ وغیرہ تک پھیلا اور آج بھی اسلام میں نئے نظریات پیدا کرنے کی ناپاک کوششیں جاری ہیں حدیث شریف میں ہے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں: اِذَارَأَیْتَ قَوْمًایُنْتِجُوْنَ بِأَمْرٍ دُوْنَ عَامَّتِہِمْ فَہُمْ عَلَی تَأْسِیْسِ الضَّلالَۃِ ’’ جب تم کسی قوم کو دیکھو کہ وہ مسلمانوں سے ہٹ کر کوئی نئی راہ اختیار کر رہے ہیں تو وہ لوگ گمراہی کی بنیاد رکھ رہے ہیں‘‘( سنن دارمی:309 )

سنت رسول پر عمل گمراہی سے حفاظت کا ذریعہ: سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے سے مسلمان گمراہیوں سے محفوظ رہتا ہے گویا سنت رسول ہی گمراہی وبدعات سے حفاظت کا ذریعہ ہے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہر چھوٹی اوربڑی سنت پر عمل کرتے رہیں سنت پر عمل نہ کرنے کے سبب گمراہی جگہ بناتی ہے اور لوگ اسے دین سمجھنے لگتے ہیں ، اس وقت مسلمانوں کی گمراہی کا سبب یہ بھی ہے کیونکہ باپ دادا کے رواج اور طریقوں اور خاندانی مراسم کو مسلمان دین اور شریعت سمجھنے لگا ہے ۔ جب اسے سنت کا سبق سکھایاجاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ یہ بھی دین میں ہے کیا ؟ ہم تو ابھی تک نہیں سنے اور نہ ہمارے بڑے لوگوں نے بتایا ہے ۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ گمراہیوں کو ختم کرنے کے لئے وہ سنت کا احیاء کریں،ایک سنت کو زندہ کرنے کے بدلے اللہ تعالیٰ شہید کا اجر عطا فرمائے گا۔

ایک روایت میں ہے حضرت شعبی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں قاضی شریح رحمہ اللہ کے پاس موجود تھا قبیلہ مرادؔ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’اے ابو امیہ( یہ قاضی شریح کی کنیت ہے) انگلیوں کی دیت کیا ہے ؟ قاضی صاحب نے جواب دیا:’’ دس اونٹ‘‘ وہ شخص کہنے لگا : سبحان اللہ کیا یہ دونوں برابر ہیں؟۔ اس نے انگوٹھے اور سب سے چھوٹی انگلی کے ذریعہ اشارہ کرکے کہا ۔ قاضی شریح نے جواب دیا : سبحان اللہ ! کیا تمہارا کان اور تمہارے ہاتھ برابر کی حیثیت رکھتے ہیں ، کیونکہ کان کو تو بال ،ٹوپی یا عمامہ ڈھانپ لیتے ہیں اور ان میں نصف دیت ہوتی ہے ، جبکہ ہاتھ کی دیت بھی نصف دیت ہوتی ہے۔ تمہارا ستیاناس ہو تمہارے قیاس سے پہلے سنت کا حکم آچکا ہے اس لئے تم اس کی پیروی کرو اور بدعت اختیار کرنے کی کوشش نہ کرو ، تم اس وقت تک گمراہی کا شکار نہیں ہو گے جب تک تم سنت پر عمل کرتے رہو گے‘‘ (سنن دارمی:200)

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے حضرت مجاھد بیان فرماتے ہیں میں اور یحییٰ بن جعدہ ایک انصاری صحابی کے پاس گئے انہوں نے کہا : ایک دفعہ یوں ہوا کہ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی عبد المطلب کی ایک لونڈی کا اس طرح ذکر کیا کہ وہ رات کو قیام کرتی ہے اور دن کو روزہ رکھتی ہے یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’لیکن میں تو سوتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوںاور روزہ بھی رکھتا ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں ، پس جس نے میری پیروی کی وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری سنت سے منہ پھیر لیا وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘ ہر عمل کی حرص ،شدت اور افراط تو ہوتی ہے لیکن پھر سکون اور تھماؤ بھی ہوتا ہے پس جس کو تھماؤ بدعت کی طرف لے جائیگا وہ گمراہ ہوجائیگا اور جس کا ٹہراؤ سنت کی طرف لے جائے گا وہ ہدایت پا جائیگا ‘‘( مسند احمد:8922 )

امت مسلمہ گمراہی پر متحد نہیں ہوگی:اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو یہ فضیلت بخشا ہے کہ امت مسلمہ اجتماعی طور پر گمراہی پر متحد نہیں ہوگی بلکہ ان میں حق پسند گروہ بھی رہیں گے جو ہمیشہ گمراہی و باطل کا مقابلہ کرتے رہیں گے جیسا کہ احادیث میں اس گروہ کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہیں ’’ غرباء‘‘ کہا گیا ہے اورانھیں ’’ طائفہ منصورہ‘‘ بھی کہا گیا ہے ، سابقہ امتیں گمراہی پر جمع ہوئیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر عذابوں کو مسلط کیا ہے اور انھیں داستان عبرت بنا دیا حضرت عمرو بن قیس رضی اللہ عنہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل فرماتے ہیں کہ’’ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ رحمت کے انتہائی حصے کو ظاہر کرے گااور میرے لئے ہی اختصار کرے گا ہم سب سے آخری لوگ ہیں لیکن قیامت کے دن ہم سب سے پہلے ہوں گے میں جو کہہ رہا ہوں یہ فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں ، حضرت ابراہیم اللہ کے خلیل ہیں ، حضرت موسی اللہ کے صفی ہیں اور میں اللہ کا حبیب ہوں قیامت کے دن ’’ لواء حمد‘‘ میرے پاس ہوگا ۔ بیشک اللہ نے میری امت کے بارے میں مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے اور انھیں تین چیزوں سے امان عطا کردی ہے ان پر قحط سالی نہیں ہوگی ، دشمن انھیں سرے سے ختم نہیں کرے گا ،اور وہ لوگ گمراہی پر متفق نہیں ہوں گے ‘‘( سنن دارمی:54 )

رسول اللہ کی دعوت سے محروم لوگ گمراہ ہیں: وہ لوگ گمراہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا اقرا نہ کیا جب کہ دعوت ان تک پہنچ چکی ، انھوں نے اس کا انکار کیا، یقینا خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو رسالت محمدی کے نور سے فیضیاب ہوئے حدیث شریف میں ہے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ بیشک اللہ نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا ، پھر ان کو اندھیرے میں رکھا اور اپنی مشیت کے مطابق اپنے نور میں سے کچھ حصہ لیا اور اس کو ان پر ڈال دیا ، اللہ تعالیٰ کی چاہت کے مطابق وہ نور بعض افراد تک پہنچا دیا جس شخص کو اس دن وہ نور پہنچ گیا وہ ہدایت پا گیا اور جو اس سے رہ گیا وہ گمراہ ہوگیا ، اسی لئے میں عبد اللہ کہتا ہوں جو کچھ ہونے والا ہے اس پر قلم خشک ہوچکا‘‘ (مسند احمد:10292 ، صحیح)

گمراہی کے داعی کے حق میں وعید:جو لوگ اللہ کے بندوں کو اللہ اور اس کے رسول کے راستے سے برگشتہ کرتے ہیںاور اللہ کے دین سے گمراہ کرتے ہیںان کے لئے عذاب جاریہ ہمیشہ رہے گا یہی نہیں جب تک ان کے گمراہ کن نظریات سے لوگ متأثر ہوتے رہیں گے ان سب لوگوں کی گمراہی کا وبال بھی گمراہی کے داعیوں پر رہے گا جو اپنی فکر و نظر اور فلسفہ کی بنیاد پر لوگوں کو راہ حق سے گمراہ کردیتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل فرماتے ہیںکہ :’’ جو شخص ہدایت کی طرف بلائے اس کی پیروی کرنے والوں کے اجر جتنا اجر ملے گا اور ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جو شخص کسی گمراہی کی طرف بلائے اسے اس کی پیروی کرنے والے سب لوگوں کے گناہوں جتنا گناہ ملے گااور ان لوگوں کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی‘‘( سنن دارمی:512)

بڑے گمراہ: گمراہوں کی کئی قسمیں ہوسکتی ہیں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو چھوٹے گمراہ ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو بڑے گمراہ ہیں، بڑے گمراہوں کا تذکرہ قرآن و حدیث میں کیا گیا ہے جیسے:

(۱)سب سے بڑے گمراہ وہ ہیں جو اپنی نفسانی خواہشات کے پیرو کار ہیں ان خواہشات کے درپئے ہوکر وہ ہدایت کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکَ فَاعْلَمْ اَنَّمَایَتَّبِعُوْنَ اَھْوَآئَ ھُمْ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتّبَع ھَوٰہُ بِغَیْرِھُدیً مِّنَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ لَایَھْدِی القَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ’’پھر اگر یہ تیری نہ مانیں تو، تو یقین کر لے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر بہکا ہو ا کون ہے؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے، بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں ہدایت نہیں دیتا‘‘ (القصص:50)

(۲) سب سے بڑے گمراہوں میں وہ لوگ ہیں جو پتھر کی مورتوں کو پکارتے ہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْامِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ لَّایَسْتَجِیْبُ لَہٓ اِلیٰٰ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَھُمْ عَنْ دُعَآئِھِمْ غٰفِلُوْ نَ ’’اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہوگا ؟ جو اللہ کے سوا ایسوںکو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی دعا قبول نہ کرسکیں بلکہ ان کے پکارنے سے محض بے خبر ہوں ‘‘( الاحقاف:5 )

(۳) سب سے بڑے گمراہوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو قبروں کی عبادت کرتے ہیںجس طرح یہودیوں و نصاری نے اپنے صالحین کی قبروں کو سجدہ و عبادت کی جگہ بنا لیا جس کے سبب و ملعون قرار دئے گئے، بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کی اجازت دی ہے تاکہ مردہ دل زندہ ہوجائیں ، آخرت کی جوابدہی کا خوف پیدا ہو ، دلوں کی سختی ختم ہوجائے، لیکن قبروں کی عبادت سے منع فرمایاکیونکہ یہود و نصاری قبروں کی عبادت کیا کرتے تھے حدیث شریف میں ہے حضرت عبد اللہ بن حارث بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: لأَنَّ لانَجِدُ أَضَلَّ مِنْ زَائِرِالقَبْرِ ’’یقیناً ہم نے عبادت کے طور پر قبروں کی زیارت کرنے والے سے بڑھ کر کوئی گمراہ شخص نہیں دیکھا‘‘ (ابن ابی شیبہ:11942 )

(۴)سب سے بڑے گمراہوں میں یہود و نصاری کا ذکر بھی کیاگیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ یہود پر غصہ ہوا اور نصاری کو گمراہ کردیا حدیث شریف میں ہے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جن پر غصہ ہواوہ یہودی ہیں اور جو گمراہ ہوئے وہ نصاری ہیں‘‘ ( مسند احمد:8479 )

گمراہی سے بچنے کے لئے دعائیں کرنا چاہئے: گمراہی سے بچنے کے لئے بندے کو ہر ممکنہ کوشش کرتے رہنا چاہئے، ذاتی کوشش و جدوجہد کے علاوہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہنا چاہئے کیونکہ دعائیں مؤمن کی اصل طاقت و قوت ہیں۔ گمراہی سے بچنے کے لئے مختلف قسم کی دعائیں بتائی گئی ہیں۔ حدیث شریف میں ایک اور دعا کا تذکرہ کیا گیا ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر سے نکلتے تو یہ دعا پڑھتے: بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ، اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ أَوْنَضِلَّ، أَوْنَظْلِمَ أَوْنُظْلَمُ، أَوْنَجْھَلَ أَوْیُجْھَلْ عَلَیْنَا ’’میں اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوںمیں نے اللہ پربھروسہ کیا ، اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ ہم پھسل جائیں ، یا گمراہ ہوجائیں ، یا ظلم کریں ، یا ہم پر ظلم کیا جائے ،یا ہم جہالت والا کام کریں یا ہم پر جہالت مسلط کردی جائے‘‘۔ (ترمذی: 3427 /مسند احمد: 5557 )اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمہ قسم کی گمراہی اور گمراکن نظریات سے محفوظ فرماکر سیدھے راستے کی ہدایت دے ۔ (آمین)
٭٭٭