تلنگانہ

کانگریس ہائی کمان تلنگانہ اور کرناٹک کے فنڈس پر منحصر: کے ٹی آر

بی آر ایس کے کارگزار صدر کے ٹی راما راؤ نے کہا کہ بدعنوانیوں  میں پھنسی  کانگریس حکومت  مہاراشٹرا اور دیگر ریاستوں میں انتخابات  کے لیے فنڈز جامع  کرنے میں مصروف ہے۔

حیدرآباد: بی آر ایس کے کارگزار صدر کے ٹی راما راؤ نے کانگریس حکومت پر بدعنوانیوں کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت مہاراشٹرا اور دیگر ریاستوں میں انتخابات کے لیے فنڈز جمع کرنے میں مصروف ہے۔

متعلقہ خبریں
چیف منسٹر کی وارننگ کے بعد بی آر ایس سوشل میڈیا قائدین کی تشویش میں اضافہ
ہبالی فساد کیس واپس لینے کی مدافعت: وزیر داخلہ کرناٹک
ٹی پی سی سی کے نئے صدر کا انتخاب ہائی کمان کرے گی
کمیشن نے چامراج نگر سیٹ پر دیا دوبارہ پولنگ کا حکم
نئے شہر کی تعمیر سے قبل موجودہ شہر کی ترقی پر توجہ دینے ریونت ریڈی کو کے ٹی آر کا مشورہ

کانگریس کی قیادت تلنگانہ پر بہت زیادہ بھروسہ کر رہی ہے، کیونکہ کرناٹک کی کانگریس یم یو ڈی اے اسکام میں چیف منسٹر کے ملوث ہونے کی وجہ سے پارٹی کو فنڈز فراہم کرنے سے قاصر ہے۔

آج جی ایچ یم سی حدود کے پارٹی ایم ایل ایز اور سینئر قائدین کے ساتھ راما راؤ نے ناگول سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کا دورہ کیا، جو 320 ملین لیٹر فی دن کی صلاحیت کے ساتھ جنوبی ایشیا میں پانی کی صفائی کی سب سے بڑی سہولت ہے۔ یہ سہولت حیدرآباد کے گندے پانی کے 100 فیصد ٹریٹ کرنے کے لیے تعمیر کی گئی تھی، جس سے شہر کے گندے پانی کے انتظام کی صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

راما راؤ نے کہا کہ کانگریس ہائی کمان صرف دو ریاستوں کرناٹک اور تلنگانہ پر فنڈز کے لیے انحصار کر رہی ہے اور پارٹی قیادت پیسے کے لیے بے چین ہے، جبکہ کرناٹک میں برھکومت کانگریس مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر اے ریونت ریڈی کو پارٹی کے لیے فنڈز کا واحد ذریعہ بنا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ریاست میں بدعنوانی اور بدانتظامی پھیلی ہوئی ہے۔

انہوں نے مزید الزام لگایا کہ موسا ندی کی خوبصورتی کا منصوبہ موجودہ انتظامیہ کے تحت ایک بڑے اسکام کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ موسا ندی کا منصوبہ کانگریس کی بدانتظامی کی واضح مثال ہے، اور پارٹی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پروجیکٹ کی لاگت میں اضافہ کر رہی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پروجیکٹ کی لاگت میں 16,000 کروڑ روپے سے 1.5 لاکھ کروڑ روپے تک حیران کن اضافہ کر دیا گیا ہے۔

کے ٹی راما راو نے کہا کہ چیف منسٹر اے ریونت ریڈی کے موسا ندی کو خوبصورت بنانے کا منصوبہ ناقابل قبول ہے۔ یہ بیوٹیفکیشن نہیں بلکہ لوٹفیکیشن ہے۔ انہوں نے موسا ندی کی خوبصورتی کے لیے اتنے بڑے اخراجات کی ضرورت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بی آر ایس کے دور حکومت میں 3,866 کروڑ روپے کے سیوریج ٹریٹمنٹ پروجیکٹ کی تکمیل کی گئی۔

اس پروجیکٹ میں تمام 54 نالوں کا احاطہ کیا گیا ہے جو پانی اور صنعتی فضلہ کو موسا ندی میں لے جاتے ہیں، اور چیف منسٹر کے پاس سہولیات کا افتتاح کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں بچا تھا۔

انہوں نے کہا کہ گنگا کی صفائی کے لیے 40,000 کروڑ روپے کی لاگت سے منصوبہ تیار کیا گیا تھا، جبکہ گجرات میں دریائے سابرمتی کی بحالی کے منصوبے پر 2018 میں 7,000 کروڑ روپے کی لاگت سے آغاز کیا گیا۔ پھر موسا ندی کی صفائی کے لیے 1.5 لاکھ کروڑ روپے کی ضرورت کیوں ہے؟

انہوں نے سوال کیا کہ جڑواں شہروں میں اتنے بڑے پیمانے پر سیوریج ٹریٹمنٹ کی طویل مدتی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کا سہرا اس وقت کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے دوراندیشی اور عزم کو جاتا ہے۔ انہوں نے سابقہ حکومت کے منصوبوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گوداوری کے پانی کو موسا ندی میں چھوڑنے کے لیے گنڈی پیٹ ٹینک کو کونڈاپوچمان ذخائر سے جوڑنا اور 57.5 کلومیٹر طویل موسا ندی کے راستے کے ساتھ منچی روولا سے پرتاپ سنگارم تک ایکسپریس وے، جس پر 10,000 کروڑ روپے لاگت آئے گی، نیز 540 کروڑ روپے کی لاگت سے مزید 15 پلوں اور چیک ڈیمز کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ موسا ندی کے بفر زون میں رہنے والوں کو موسا ندی کی خوبصورتی کے نام پر جو صدمہ پہنچایا جا رہا ہے، اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے 11,000 سے زائد خاندانوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو حکومت کے اقدامات سے متاثر ہوں گے۔

انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ کئی دہائیوں سے پراپرٹی ٹیکس اور پاور چارجز وصول کرتے ہوئے انہیں تمام سہولتیں دے کر آپ انہیں تجاوزات کیسے کہہ سکتے ہیں؟