تلنگانہ

تلنگانہ میں 37000 ایکڑ وقف جائیدادوں پر لینڈ گرابرس قابض حکومت سنجیدہ اقدامات کرنے میں ناکام

آل انڈیا مسلم مائناریٹی آرگنائزیشن کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ تلنگانہ ریاست میں 5 لاکھ کروڑ روپے مالیت کی وقف پراپرٹیز موجود ہے۔

حیدرآباد: آل انڈیا مسلم مائناریٹی آرگنائزیشن کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ تلنگانہ ریاست میں 5 لاکھ کروڑ روپے مالیت کی وقف پراپرٹیز موجود ہے۔

متعلقہ خبریں
1969 کی تحریک میں طلبہ پر کس نے گولی چلانے کی ہدایت دی؟ کے ٹی آر کا سوال
تلنگانہ:ایم ایل سی کی نشست کے ضمنی انتخاب کی مہم کااختتام
تلنگانہ کا نیا ایمبلم، حکومت کے اقدام پر تنازعہ
تلنگانہ میں ٹی ایس کے بجائے ٹی جی استعمال کی ہدایت، احکام جاری
تلنگانہ میں آئندہ 24 گھنٹے میں تیز ہوائیں چلنے کا امکان

نظام حکومت کے خاتمہ پر وقف جائیدادوں کا سروے کروایا گیا تو تقریباً 77 ہزار ایکڑ زمین موجود تھیں۔ موجودہ سروے ریکارڈ کے مطابق اس وقت وقف بورڈ کے قبضہ میں 40 ہزار ایکڑ زمین موجود ہے جبکہ 37 ہزار ایکڑ وقف زمین پر لینڈ گرابرس کا غیرقانونی قبضہ ہے۔

چیف منسٹر نے ایک موظف آئی اے ایس آفیسر ایس کے سنہا کو لینڈ ریکارڈ کی تصدیق اور تجزیہ کرنے کے لئے مقرر کیا تھا۔

تاہم ایس کے سنہا نے اپنی رپورٹ پیش نہیں کی۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ وقف جائیدادوں پر قبضوں میں اعلیٰ حکام ملوث ہیں۔ وقف بورڈ نے ایک کمیٹی تشکیل دی اس کمیٹی نے ایس کے سنہا سے گزارش کی کہ رپورٹ پیش کریں لیکن تاحال رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔

حالیہ عرصہ میں چیف منسٹر نے سی بی سی آئی ڈی کو وقف بورڈ جائیدادوں کی تحقیقات کرتے ہوئے حکومت کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح اسمبلی میں اسپیکر کی زیر قیادت کمیٹی تشکیل دی گئی۔ 3 ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا تاہم آج تک رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔

حکومت نے آج تک وقف جائیدادوں کے تحفظ کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے اور ناہی وقف بورڈ کو عدالتی اختیارات دیئے گئے۔ 19 فروری 2016 کو حکومت نے ضلع کلکٹرس کو وقف جائیدادوں کا تحفظ کرنے کے احکام جاری کئے۔ اس ضمن میں سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل نے ضلع کلکٹرس کو پابند کیا تھا۔ اس احکام کو 7 سال گزر گئے تاحال کوئی اقدامات نہیں ہوئے۔

2016 میں تشکیل دی گئی وقف پروٹکشن کمیٹی کو پٹہ پاس بک منسوخ کرنے کا اختیار اور غیرقانونی قبضہ کے خلاف عدالت میں مقدمات درج کرنے کا اختیار دیا گیا لیکن اس کا ابھی اطلاق نہیں ہوا۔ وقف جائیدادوں کے متعلق عدالتوں میں 3 ہزار مقدمات زیرالتواء ہے‘تاہم وقف بورڈ اس میں بالکل دلچسپی نہیں لیتا ہے۔

وقف بورڈ سے جعلی این او سی اجراء ہوتی ہے اس کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ وقف بورڈ کے ریکارڈ سیکشن کو مقفل کردیا گیا اور اس کی وجوہات کا آج تک علم نہیں ہوا۔ لہذا وقف جائیدادوں کے مسائل کی سی بی آئی کی جانب سے تحقیقات کی جانی چاہئے۔ وقف بورڈ میں ای فیلنگ سسٹم شروع کیا گیا۔

حکومت سروے کرواچکی ہے لیکن اس کی معلومات آن لائن نہیں کی گئی۔ چند وقف جائیدادوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو اس طرح ہیں۔ درگاہ حسین شاہ ولیؒ‘ منی کنٹڈہ جاگیر 1623ایکڑ اراضی‘ درگاہ بابا شرف الدین ؒ پہاڑی شریف کے تحت 2000 ایکڑ اراضی‘ گٹلہ بیگم پیٹ 80 ایکڑ زمین موجود ہے۔ وقف بورڈ کے کرایہ دار طویل عرصہ سے کرایہ میں کوئی اضافہ نہیں کرتے‘ صرف معمولی کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔

مدینہ ملڈنگ‘ نبی خانہ مولوی اکبر میں 300 دکانات موجود ہے تاہم اس کے کرایہ میں کوئی اضافہ نہیں کیا جاتا۔ جبکہ یہ ملگیات ذیلی کرایہ پر بھاری شرح پر دی جاچکی ہے۔ گارڈن ٹاور متصل حج ہاؤز‘ مدینہ محل‘ مدینہ منزل‘ بھی وقف جائیدادیں ہیں۔

حکومت کو چاہئے کہ وائی ایس آر دور کی طرح سرکاری احکام جاری کرتے ہوئے قبضہ کردہ زمینوں کو واپس کیا جائے اور 125 گز کے پلاٹس ضرورت مند مسلمانوں کو دیئے جائیں جیسا کہ حکومت ڈبل بیڈروم مکانات دے رہی ہے۔ حکومت تلنگانہ مائناریٹی ریسیڈنشیل اسکولس کے لئے لاکھوں روپے کرایہ ادا کررہی ہے۔

اگر لینڈ گرابرس سے وقف جائیدادیں حاصل کرکے اسکول تعمیر کئے جائیں تو کرایہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ سے اپیل کی گئی کہ لینڈ گرابرس سے وقف جائیدادیں دوبارہ حاصل کریں۔

a3w
a3w