مذہب

رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

بد گمانی سے اسلام نے سختی سے منع کیا کیوں کہ وہ گناہ کی طرف لے جانے والی غلط فکر ہے، ایک مسلمان بھائی کا اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے متعلق بغیر کسی دلیل کے غلط گمان کرنا بد گمانی کہلاتا ہے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)

بد گمانی سے اسلام نے سختی سے منع کیا کیوں کہ وہ گناہ کی طرف لے جانے والی غلط فکر ہے، ایک مسلمان بھائی کا اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے متعلق بغیر کسی دلیل کے غلط گمان کرنا بد گمانی کہلاتا ہے۔

علامہ قرطبی بدگمانی کے حرام ہونے کے متعلق رقمطراز ہیں: صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں روایت ہے کہ بد گمانی کرنے سے بچو کیونکہ بد گمانی سب سے جھوٹی بات ہے، تجسس کرو اور نہ کسی کی ٹوہ میں رہو۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیْراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْم ( سورہ حجرات)اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔ بعض صحابہ نے فتح مکہ کے وقت گمان کیا تھا کہ ہم بچ کر واپس نہیں لوٹیں گے چنانچہ ارشاد باری ہے:

بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن یَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَی أَہْلِیْہِمْ أَبَداً وَزُیِّنَ ذَلِکَ فِیْ قُلُوبِکُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْء ِ وَکُنتُمْ قَوْماً بُوراً (سورہ فتح) بلکہ تمہارا گمان تو یہ تھا کہ (اب) رسول اور ایمان والے اپنے گھروں کی طرف ہرگز کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے، اور یہی بات تمہارے دلوں میں خوشنما بنا کر پیش کر دی گئی تھی، اور تم نے بہت برا گمان کیا اور تم ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے مسلمان کے خون، اس کی عزت اور اس کے متعلق بدگمانی کو حرام کر دیا ہے۔ امام بخاری روایت کرتے ہیں:عن ابي ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال:

ایاکم والظن ۔۔۔ الخ (بخاری) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی کرنے سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔ حافظ ہیثمی سے منقول ہے : عن حارثۃ بن النعمان قال: قال رسول اللہ ﷺ:ثلاث لازمات امتي ۔۔۔ الخ (مجمع الزوائد ) حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں تین چیزیں لاز ما ر ہیں گی، بدفالی، حسد اور بد گمانی، ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جس شخص میں یہ خصلتیں ہوں وہ ان کاکس طرح تدارک کرے؟ آپ نے فرمایا: جب تم حسد کر و تواللہ تعالی سے استغفار کرو اور جب تم بدگمانی کرو تو اس پر جمے نہ ر ہو اور جب تم (کسی کام کے خلاف) بد فالی نکالو تو اس کام کو کر گذرو۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ولا تجسسوا۔ ’’ایک دوسرے کے تجسس میں نہ رہا کرو‘‘ (لوگوں کی خفیہ باتیں اور عیب جاننے کی کوشش کرنا تجسس کہلاتا ہے) کیونکہ ابتداًء انسان کے ذہن میں کسی کے متعلق کوئی براگمان آتا ہے پھر وہ اپنے گمان کی تصدیق کے لیے اس کی ٹوہ میں لگ جاتا ہے، اس کی باتیں سنتا ہے اور اس کے حالات کا مشاہدہ کرتا ہے، بعض اوقات جاسوسی کرتا ہے،

تاکہ اس کے ذہن میں اس شخص کے متعلق آنے والے برے گمان کی تائید اور توثیق حاصل کر سکے، اس لیے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تجسس کرنے اور کسی کی ٹوہ میں لگے رہنے سے سخت منع فرما دیا اور ہر وہ چیز جس کے متعلق کوئی صحیح علامت اور سبب ظاہر نہ ہو، اس کے بارے میں بدگمانی کرنا حرام ہے اور اس بدگمانی سے اجتناب کرنا واجب ہے۔ بدگمانی کے حرام ہونے کی شرط یہ ہے کہ ایک شخص ظا ہراً نیک اور متقی ہو سوایسے شخص کے متعلق بدگمانی کرنا حرام ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص کسی حرام کام کو علانیہ (برملا) کر تا ہو، اس پر نادم اور تائب نہ ہو اور اس حرام کام پر اصرار کرتا ہو تو ایسے شخص کے خلاف بدگمانی کرنا حرام نہیں ہے، بلکہ اس کے خلاف گواہی وشہادت دینا واجب ہے تاکہ گناہ پھلنے سے معاشرہ محفوظ رہے۔

صحابہ کرام ؓ بد گمانی سے انتہائی احتیاط فرماتے ، جیسا کہ : عن ابی حازم قال: اشترینا من ابن عمر بیتا فجلس علی الباب فکثر الغبار ۔۔۔ الخ (مجمع الزوائد) ابو حازم بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابن عمر سے ایک مکان خریدا، وہ اس کے دروازے پر بیٹھ گئے پھر غبار بہت اُڑا، ہم نے کہا اے ابو عبد الرحمان ہم آپ سے صرف حق دصول کریں گے اور آپ سے خیانت نہیں کریں گے۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا: میں بدگمانی سے ڈرتا ہوں، اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک شخص رہتا تھا، اس کی بہن بیمار ہو گئی، وہ اس کی تیمار داری کرتا تھا۔

ایک دن وہ مرگئی، اس نے اس کو دفن کر دیا، اس شخص نے اپنی بہن کو خود قبر میں اتارا تھا، قبر میں اتارتے وقت اس کے جیب سے ایک بٹوہ گر گیا جس میں دینار تھے، اس نے اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ مل کر قبر کو کھودی اور وہ بٹوہ نکال لیا، اس نے سوچا کہ دیکھوں، مرنے کے بعد میری بہن کا کیا حال ہوا ، دیکھا تو اس کی قبر میں آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے، اس ہیبت ناک منظر کو ملاحظہ کرنے کے بعد اس نے اپنی ماں سے پوچھا بتاؤ میری بہن کا عمل کیا تھا؟ اس کی ماں نے کہا اب تو وہ مر چکی ہے تم جان کر کیا کر وگے، جب اس نے بہت اصرار کیا توماں نے بتایا کہ وہ وقت ختم ہونے کے بعد نماز پڑھتی تھی، اور جب پڑوسی سو جاتے تو وہ ان کے گھروں کے ساتھ کان لگا کر کھڑی ہو جاتی تاکہ ان کے عیوب معلوم کرے، پھر وہ ان کے راز فاش کر دیتی تھی یہ سن کر اس شخص نے کہا اسی وجہ سے اس کو قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔

علامہ قرطبی مالکی لکھتے ہیں: حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک رات میں خلافت فاروقی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ گشت کررہا تھا، ہم نے ایک گھر کے دروازے پر چراغ دیکھا، اس گھر سے شور و غل کی آوازیں آرہی تھیں، حضرت عمر نے کہا یہ ربیعہ بن امیہ بن خلف کا گھر ہے اور یہ لوگ اس وقت شراب پی رہے ہیں، تمہارا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا اللہ تعالی نے ہمیں تجسس سے منع فرمایا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے: لا تجسسو ا اور ہم تجسس کر رہے ہیں پھر حضرت عمر واپس لوٹ گئے اور ان کو چھوڑ دیا ۔ ابو قلابہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓبن خطاب کو یہ خبر دی گئی کہ ابو محجن ثقفی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے گھر میں شراب پی رہا ہے، جب حضرت عمر اس کے گھر گئے تو اس کے پاس صرف ایک شخص تھا، ابو محجن نے کہا:

اے عمر! آپ کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ آپ کسی کے متعلق بد گمانی کا شکار ہوںاللہ تعالیٰ نے تجسس سے منع فرمایا ہے، حضرت عمرؓ چلے گئے اور اس کو چھوڑ دیا۔ زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت عبد الرحمن رات میں گشت کر رہے تھے، انھوں نے ایک گھر میں آگ جلتی دیکھی، تو اجازت لے کر گھر میں داخل ہوئے تو وہاںایک مرد اور ایک عورت کو دیکھا، عورت کچھ گا رہی تھی اور مرد کے ہاتھ میں پیالہ تھا، حضرت عمرؓنے پوچھا: یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس شخص نے کہا اے امیر المومنین! آپ کیا کر رہے ہیں؟ حضرت عمر نے پوچھا یہ عورت کون ہے؟ اس نے کہا یہ میری بیوی ہے، پھر پوچھا اس پیالے میں کیا ہے؟ اس نے کہا صاف اور شیریں پانی، پھر اس عورت سے پوچھا تم کیا گا رہی تھی؟ اس عورت نے وہ اشعار سنائے جو اس نے خاوند کی جدائی میں گنگنائے تھے، پھر اس شخص نے کہا اے امیر المومنین! ہمیں اس چیز کا حکم نہیں دیا گیا، اللہ تعالے نے فرمایا : لا تجسسوا (کسی کی ٹوہ میں نہ لگو) حضرت عمر نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو۔

ملک وملت کی سلامتی کے لیے تجسس کیا جاسکتا ہے، جنگ خندق ودیگر جنگوں میں رسول کرام ﷺ نے مشرکین کے احوال معلوم کرنے کیلئے صحابہ ؓ کو روانہ فرمایا کرتے تھے تاکہ جنگ کی تدبیر کی جائے اور دشمنانِ اسلام سے مسلمانوں کی حفاظت کی جائے۔ اسی لئے حکمران کیلئے لازم ہے کہ صورت حال کا جائزہ لینے کی خاطر تجسس کرے۔ اس مقام پر یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ قرآن مجید میں جس تجسس سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص کے نجی اور شخصی معاملات کی ٹوہ میں نہیں رہنا چاہیے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اگر کسی شخص کے متعلق یہ شبہ ہو کہ اس کی درپردہ سرگرمیاں دوسرے بے گناہ افراد کی جان و مال اور عزت و آبرو کے لئے خطرہ ہیں یا اس کی کارروائیاں ملک کی سلامتی اور امن عام کے منافی ہیں تب بھی اس کو پرا یا معاملہ سمجھ کر اس سے بے پرواہ نہیں رہنا چاہئے! بلکہ اس صورتِ حال کی پوری قوت سے اصلاح کرنی چاہیے کیونکہ اب یہ ایک فرد کا معاملہ نہیں رہا بلکہ پوری قوم کا معاملہ ہو گیا۔

تجسس کی ممانعت اور جاسوسی کے سلسلہ میں خلاصہ بحث :خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا عیب صرف اس کی ذات تک محدود ہو تو چھپ چھپ کر اس کا حال معلوم کرنا اوراس کی ٹوہ میں لگنا منع ہے لیکن اگر کسی شخص کا عیب ملک اور قوم اور معاشرہ کے لیے مضر ہو تو پھر اس کی تحقیق کر کے اس سے باز پرس کرنا اور اس کو کیفر کردار تک پہنچا نا نہایت ضروری ہے : مثلا ایک شخص خفیہ طریقہ سے شراب یا ہیروئن پیتا ہے، یا جوا کھیلتا ہے یا زنا کرتا ہے تو اس میں تجسس نہ کیا جائے، لیکن اگر وہ شخص خفیہ طریقہ سے شراب یا جوئے کا اڈہ بنالیتا ہے یا قحبہ خانہ کھول لیتا ہے جس سے معاشرہ میں بدچلنی اور بے راہ روی پھیل رہی ہو تو اس کے اڈے کو کھوج کر اس کو ختم کرنا اور اس شخص کو قرار واقعی سزا دلوانا ضروری ہے۔ اولا یہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اگر حکومت کے کارندے اس میں سستی اور کاہلی سے کام لیں تو عام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ بدی کے ان اڈوں کا سراغ لگا کر حکومت کو اس کی اطلاع دیں یا عام مسلمانوں کی اجتماعی طاقت سے اس کے خلاف تادیبی کاروائی کریں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپایا اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے عیب کو چھپائے گا اور جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کی پردہ دری کی اللہ تعالی اس کے عیب کا پردہ چاک کر دے گا اور اس شخص کو رسوا کر دے گا اگر چہ وہ اپنے گھر کے اندر چھپ کر ہی گناہ کیوں نہ کرے۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو تکلیف نہ دو، لوگوں کو عار نہ دلاؤ (یعنی ان کے وہ عیوب نہ بیان کر وجن سے وہ شرمندہ ہوں) لوگوں کے عیوب نہ ڈھونڈو، کیونکہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرے گا اللہ تعالی اس کا عیب ظاہر کر کے اس کو اس کے گھر میں رسوا کر دے گا۔

حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے وہ لوگو! جو زبان سے ایمان لائے ہیں اور ان کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو (یعنی پیٹھ پیچھے ان کی برائی نہ کرو) اور ان کے عیوب تلاش نہ کرو کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب تلاش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا عیب ظاہر کر دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کا عیب ظاہر کردیتا ہے اس کو رسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر چھپ کر ہی وہ گناہ کیوں نہ کرے۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو خطبہ دیا یہاں تک کہ آپ نے وہ خطبہ آزادعور توں کو ان کے گھروں یا ان کے پردوں کے پیچھے سے سنایا، پھر فرمایا: اے وہ لوگو! جو زبان سے ایمان لائے ہو اور دل سے ایمان نہیں لائے، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو، اور ان کے عیوب تلاش نہ کرو، کیونکہ جوشخص اپنے مسلمان بھائی کا عیب تلاش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ٹوہ میں لگ جاتا ہے اور اللہ جس کی ٹوہ میں لگ جاتا ہے اس کو ذلیل ورسوا کر دیتا ہے اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بد گمانی سے محفوظ رکھے آمین بجاہ سید المرسیلن ﷺ
٭٭٭