حیدرآباد

نوابوں کے شہر حیدرآباد میں پھر ایک بار سب سے کم پولنگ، فکر کس کو کرنی چاہئے؟

ایسا لگتا ہے کہ حیدرآبادیوں نے ایک بار پھر انتخابی عمل کو ناکام بنادیا ہے۔ مہینوں تک جاری رہنے والی آگاہی اور شعور بیداری کی سرگرمیوں اور انتخابی عمل میں ووٹرز کی شرکت کو بڑھانے کے لئے وسیع پیمانے پر مہم چلانے کے باوجود نوابوں کے شہر کے شہری پیر کو پولنگ مراکز تک پہنچنے میں ناکام رہے۔

حیدرآباد: ایسا لگتا ہے کہ حیدرآبادیوں نے ایک بار پھر انتخابی عمل کو ناکام بنادیا ہے۔ مہینوں تک جاری رہنے والی آگاہی اور شعور بیداری کی سرگرمیوں اور انتخابی عمل میں ووٹرز کی شرکت کو بڑھانے کے لئے وسیع پیمانے پر مہم چلانے کے باوجود نوابوں کے شہر کے شہری پیر کو پولنگ مراکز تک پہنچنے میں ناکام رہے۔

متعلقہ خبریں
اسدالدین اویسی کا کووڈ وبا کے تباہ کن اثرات کی طرف اشارہ
ایگزٹ پول رپورٹس کی فکر نہیں۔ بہتر نتائج کی امید : کے سی آر
مسلمان اگر عزت کی زندگی چاہتے ہو تو پی ڈی ایم اتحاد کا ساتھ دیں: اویسی
وزیراعظم صاحب آپ کے بھی چھ بھائی ہیں ۔ اویسی کی مودی پر تنقید
4مرحلوں میں انڈیا بلاک کے صفائے کا دعویٰ

حیدرآباد میں جملہ 3,986 پولنگ مراکز میں زیادہ تر ہجوم ووٹرس کا نہیں بلکہ پارٹی ورکرس اور انتخابی عہدیداروں کا نظر آیا جو ووٹروں کی رہنمائی اور مدد کے لئے عارضی اسٹال لگائے بیٹھے تھے لیکن افسوس ان کے وقت کا زیادہ تر حصہ اگلے ووٹر کے انتظار میں گزر گیا۔

غرض کم ووٹنگ تناسب کا یہ افسوسناک سلسلہ جاری رہا اور شہر میں 50 فیصد سے بھی کم ووٹنگ ریکارڈ کی گئی۔

جہاں حیدرآباد پارلیمانی حلقہ میں پولنگ کا سب سے کم تناسب 39.17 فیصد دیکھا گیا وہیں حلقہ لوک سبھا سکندرآباد میں قدرے زیادہ یعنی 42.48 فیصد اور ملکاجگری میں 46.27 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔

سکندرآباد کنٹونمنٹ اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخابات میں بھی صرف 47.88 فیصد پولنگ ریکارڈ کی گئی۔

شہری مسائل کی بات آتی ہے تو سڑکوں پر کچرا، بجلی کی کٹوتی، یا حالات حاضرہ کے بارے میں حیدرآبادی شہریوں کی ماہرانہ رائے سب سے پہلے آتی ہے۔ وہ ان مسائل پر اپنی تشویش کا اظہار کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ تاہم جس دن ان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنی آواز ووٹ کے ذریعہ اٹھائیں گے، آدھے سے زیادہ ووٹر پولنگ مراکز کے قریب بھی کہیں نظر نہیں آئے۔

حیدرآباد میں رائے دہندوں کی بے حسی کی یہ افسوسناک حالت کئی انتخابات سے چلی آرہی ہے۔ کیا خاص وجوہات ہوسکتی ہیں کہ یہ شہری حالیہ دنوں میں مناسب ووٹنگ کا تناسب اسکور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

بتادیں کہ2019 کے لوک سبھا انتخابات میں سکندرآباد پارلیمانی حلقہ میں پولنگ تناسب محض 44.99 فیصد تھا جب کہ حیدرآباد میں صرف 39.49 فیصد اور ملکاجگری میں 49.11 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔

2014 میں بھی ان سیٹوں پر ووٹر ٹرن آؤٹ 51 سے 53 فیصد کے درمیان رہا۔ اسی طرح، حالیہ 2023 کے تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں حیدرآباد ضلع میں ووٹر ٹرن آؤٹ صرف 47.88 فیصد تھا۔

یہ مایوس کن تعداد ضلعی انتخابی حکام، این جی اوز اور میڈیا کی جانب سے عوام کو ووٹنگ کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لئے چلائی گئی متعدد مہمات اور شعور بیداری کے باوجود سامنے آئی ہے۔

اس بار شہر میں سیسٹیمیٹک ووٹرز ایجوکیشن اینڈ الیکٹورل پارٹیسپیشن یعنی SVEEP پروگرام بڑے پیمانے پر چلایا گیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔