مذہب

محدثِ دکن پیر طریقت ابو الحسنات سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددی قادری ؒ

جیسا کہ آفتاب ایک مقررہ وقت پر طلوع ہوتا ہے اور بڑھتے بڑھتے ایک ایسے مقام پر پہنچتا ہے جہاں وہ اپنی پوری روشنی کے ساتھ چمکتا ہے، پھر مقررہ وقت پر غروب ہوجاتا ہے لیکن غروب ہونے سے قبل وہ اپنا اثرعالم پر چھوڑ جاتا ہے۔ ایسا ہی سر زمین دکن سے ایک علم کا آفتاب طلوع ہوا جس کی روشنی بڑھتے بڑھتے جب کامل ہوگئی تو ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ سے زمانے پر ظاہر ہوگئی، اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق آفتاب کو غروب ہوئے کئی سال گزر گئے لیکن اثر عالم پر برقرار کا برقرار ہے۔

محمدالیاس احمد نقشبندی قادری
فون نمبر: 9704077444

متعلقہ خبریں
حیدرآباد: مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے نبی ﷺ کی تعلیمات پر زور دیا
حکومت، موسیٰ ریور پروجیکٹ کیلئے پُرعزم: بھٹی وکرمارکہ
اللہ کے نزدیک عزت کا معیار صرف تقویٰ ہے، مولانا حافظ پیر شبیر احمد کا بیان
زیارتوں کا سلسلہ جاری، قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی بازیابی اور جنگ بندی کے لیے رقت آمیز دعائیں
ساؤتھ زون ای این ٹی سرجنز کانفرنس 2024: جدید تکنیکوں پر تبادلہ خیال

جیسا کہ آفتاب ایک مقررہ وقت پر طلوع ہوتا ہے اور بڑھتے بڑھتے ایک ایسے مقام پر پہنچتا ہے جہاں وہ اپنی پوری روشنی کے ساتھ چمکتا ہے، پھر مقررہ وقت پر غروب ہوجاتا ہے لیکن غروب ہونے سے قبل وہ اپنا اثرعالم پر چھوڑ جاتا ہے۔ ایسا ہی سر زمین دکن سے ایک علم کا آفتاب طلوع ہوا جس کی روشنی بڑھتے بڑھتے جب کامل ہوگئی تو ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ سے زمانے پر ظاہر ہوگئی، اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق آفتاب کو غروب ہوئے کئی سال گزر گئے لیکن اثر عالم پر برقرار کا برقرار ہے۔ کیسے بھول سکتے ہیں وہ لاکھوں لوگ جن کے دلوں میں سوائے عشق الٰہی کے سب کچھ تھا پھر ایک انقلاب سا آیا اور دلوں میں اللہ اللہ کی صدا اب تک گونج رہی ہے۔

جب آپ کے تصانیف کو پڑھتے ہیں تو آنکھ سے آنسو اس طرح رواں ہوتے ہیں جس کی باندھ نہیں ہوتی، کبھی خوفِ الٰہی سے دل لرز جاتے ہیں تو کبھی محبت الٰہی میں جھوم جاتے ہیں۔ ایک طرف نصیحت سے عمل کا جوش ہوتا ہے تو دوسری طرف حکایت سے دل زندہ ہو اٹھتا ہے۔ اِن بزرگ ہستی کا اسم مبارک ’’سید عبداللہ‘‘ اور کنیت ’ ابو الحسنات‘ ، آپ کے والدِماجد کا اسم گرامی سید مظفرحسین، آپ کا نسب شریف پینتالیس واسطوں سے امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالبؓ تک پہنچتا ہے، آپ نجیب الطرفین سادات ہیں۔ آپ کی ولادت سعادت یوم جمعہ دس ذی الحجہ ۱۲۹۲ھ صبح پانچ بجے شہر حیدرآباد میں ہوئی، غور طلب بات ہے کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب رات کی تاریکی ٹوٹتی ہے اور فضا طلوع آفتاب کا اشارہ کرتی ہے، اسی طرح دکن کی فضا اشارہ کررہی تھی کہ آفتابِ علم طلوع ہونے والا ہے اور فضا کہہ رہی تھی:

مرحبا مرحبا دکن تجھ میں چمکتا ہے اب ایک علم کا آفتاب
لاکھوں دل کے نابینا ہونگے اب روشنی سے اسکے سیراب

آپ کے آباء کرام کا وطن ِ قدیم قصبہ نلدرگ ضلع عثمان آباد، مہاراشٹرا تھا، آپ کے والد بزرگوار مولانا حافظ سید مظفر حسین صاحب ؒ عہد طفولیت میں بغرض حصول علم نلدرگ سے شہر حیدرآباد تشریف لائے اور علوم متداولہ کے علاوہ علوم دینیہ تفسیر، حدیث اور فقہ میں بھی مہارت حاصل کی اور طریقت میں نقشبندی طریقہ میں حیدرآباد کے معروف صوفی اور ولی کامل حضرت مسکین شاہ نقشبندی قدس سرہ سے سلوک طے فرماکر خلافت حاصل فرمائی۔

حضرت محدثِ دکن کی زندگی پر اگر ابتدا سے آخر تک نظر ڈالی جائے تو یقیناً احساس ہوگا کہ ہر قدم پر ایمان کی روشنی ہے جو قدم بہ قدم بڑھتی جارہی ہے۔ چنانچہ بچپن سے ہی آپؒ کے اخلاق میںا دب اوراخلاص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، اس ضمن میں آپ کی والدہؒ فرماتی تھیںکہ نہ تو کبھی آپ نے کسی بات پر ضد کی اور نہ کوئی بات ٹالی حتیٰ کہ اگر مدرسہ کے لئے دیر ہورہی ہو اور کھانے کے لئے کچھ میسر نہ ہو تو صرف روٹی کو شپاری کے ساتھ کھا لیتے اور خوشی خوشی مدرسہ چلے جاتے۔ آپؒ کی تعلیم کا آغاز ایک بذرگ ہستی سے ہوا حضرت عاقبت شاہ صاحبؒ جو ایک عرصہ سے شہر حیدرآباد میں مقیم تھے آپ کو ’بسم اللہ‘ پڑھائے۔حضرت شاہ صاحب ؒ کے متعلق واقعہ مشہور ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ خواب میں حضور سرور کونین ﷺ کو دیکھا کہ فرمارہے ہیں کہ’’ عاقبت شاہ کب تک تم ہم سے دور رہوگے‘‘ چنانچہ خواب کے بعد حضرت عاقبت شاہؒ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور چند دن بعد آپ کا وصال ہوگیا اور جنت البقیع میں تدفین عمل میں آئی۔

حضرت محدثِ دکن ؒ کی تعلیم جن بذرگ ہستیوں کے فیض سے پروان چڑھی ان میں قابل ذکر خود حضرت کے والد محترم حضرت سید مظفر حسین شاہ صاحبؒ جنہوں نے آپ کی ابتدائی اور فارسی تعلیم میں سرپرستی فرمائی، اور علم معقول و منطق مولانا منصور علی خان صاحبؒ اور اس زمانے کے مشہور فلسفی علماء سے حاصل کیا، شرح جامی و تفسیر اور دیگر علوم مولانا انوار اللہ خان صاحبؒ (بانی جامعہ نظامیہ) سے حاصل کیا اور فقہ اور اصول مولانا حبیب الرحمن صاحب سہانپوریؒ سے اور علم حدیث و ادب مولانا حکیم عبدالرحمن صاحب سہانپوریؒ سے حاصل کیا۔غرض ان بزرگوں سے آپ نے جملہ علوم دینی اور ضروری کی تکمیل فرمائی اور فطری صلاحیت و وسعت سے شہر کے علماء میں شمار کئے جانے لگے۔

حضرت محدث دکن نے اپنے طالب علمی کے آخری دور میں ہی درس کا سلسلہ شروع کردیا تھا اور اس کام کے لئے کوئی اجرت قبول نہیں فرماتے ، آپ کے درس کا طریقہ اتنا آسان تھا کہ جوکوئی آپ کے درس میں شریک ہوتا تو پھر اس کو کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بچپن میں آپ کے والدماجد کے پیرو مرشد حضرت مسکین شاہ صاحبؒ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے لیکن علمی مصروفیت کی وجہ حضرت ؒ کے فیضان سے سیراب ہونے کا موقعہ نہ مل سکا۔ جب تک آپ اپنی پوری توجہ حصول سلوک کی طرف فرماتے حضرت مسکین شاہ صاحبؒ کا وصال ہوچکا تھا۔ اسی دور میں حضرت شاہ صاحب بخاری ؒ کے فیض کی دھوم مچی ہوئی تھی، آپ نے بھی حضرت بخاری شاہ صاحبؒ کی مریدی میں داخل ہوکر سلوک کی منزلیں طے فرمائی اور ضروریات زندگی کے بعد جو بھی وقت ملتا آپ ذکر میں مصروف رہتے اور ہر وقت مراقبہ میں نظر آتے۔

حضرت بخاری شاہ صاحبؒ کی حیات مبارک تک آپ نے یہ معمول بنا لیا تھا کہ بلا لحاظ موسم آپ فجر کی نماز اپنے پیرو مرشدکے ساتھ ادا کرنے چار میل کا سفر پیدل طے کرکے جاتے تھے۔پیر و مرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوکر ذکر میں مشغول ہوجاتے اور یہ سلسلہ کم و بیش ۲۰ سال جاری رہا۔ حضرت بخاری شاہ صاحبؒ نے آپ کی فطری صلاحیت، قبول تجلیات و اتباع سنت و ریاضت و مجاہدات کے اعتبارسے اپنی خاص توجہ فرمائی اور آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا۔ایک ایسا عظیم سلسلہ گویا کہ دو شہر روحانیت کے ملتے ہوں، پورا عالم روحانیت کا بسا ہوا ہے، یہ سلسلہ نقشبندیہ شیخ احمد سرہند رحمۃ اللہ علیہ سے ہوتا ہوا خلیفہ اوّل حضرت اوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ہوکر رحمت عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملتا ہے اور سلسلہ قادریہ حضرت غوث صمدانی محبوب سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے خلیفہ رسول ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوکر رحمت عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم سے ملتا ہے۔

آپ کی زندگی پرغور کیا جائے تو ہراہل علم کے لئے سمجھنا آسان ہوجائیگا کہ آپ بھی اپنے پیر و مرشد شیخ احمد سرہندیؒ کی طرح مجدد ہوئے، جیسا کہ مجدد کا فیض عالم اسلام میں ہمیشہ کے لئے جاری و ساری ہوجاتا ہے ،ہر مجدد کے حیات طیبہ کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ہر سو سال میں جو برائیاں عالم اسلام میں داخل ہوجاتی ہیں اسکو دور کیا جائے اور ان فرامین رسول ﷺ کو جو مسلمان علم نہ ہونے کے سبب چھوڑ دئیے ہیں پھر سے عام کریں، آپ محدثِ دکنؒ کی تقدیر میں ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ جیسا عظیم کارنامہ انجام ہونا تھا اوران سنن رسول ﷺ کو جو مسلمان ترک کررہے تھے ایک نئی زندگی عطا ہونی تھی، آپ نے ہر سنت کو عمل کے ساتھ ظاہر کیا۔حضرت قبلہؒ کی مبارک زندگی کے ہر پہلو پر نظر ڈالیںتو ایک عظیم بذرگ ہستی اور اولیاء اللہ کی صفت نمایاں ہوتی ہے۔

حضرت محدث دکنؒ نے تاحیات بے شمار سنت کو نہ صرف روشن کیا بلکہ آپ کا ہر قدم سنت ہی کے مطابق ہوتا۔ اس کا سلسلہ آپ کی وفات تک جاری رہا۔ چنانچہ آخری بار جب آپ ؒ شہرکی جامع مسجد میں تشریف لے گئے تو علالت کی وجہ قدم اٹھتے نہ تھے اور آپ گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھتے تھے، ایسا ہی رسول اللہﷺ آخری بار مسجد نبوی تشریف لے گئے تو علالت کی وجہ سے قدم مبارک اُٹھتے نہ تھے اور آپ ﷺ سہارے کے ساتھ پیر اٹھائے بغیر چلتے تھے۔حضرت محدث دکنؒ کی علالت کی خبریں تو کافی دن سے گشت کررہی تھیں، آخر کار ۱۹؍ربیع الثانی ۱۳۸۴ھ مطابق ۲۷؍ ا گسٹ ۱۹۶۴ء صبح ۸ بجے حضرتؒ کی روح مبارک عالم بالا کو روانہ ہوئی۔ اور آپ کے وفات کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی دیکھتے ہی دیکھتے دو لاکھ سے زائد افرادآخری دیدار کے لئے جمع ہوگئے۔ حضرت کی وصیت کے مطابق نماز جنازہ عیدگاہ میں اگلے دن ادا کی گئی اور آخری دیدار کیلئے مریدین و معتقدین کا سلسلہ رات بھر چلتا رہا، لوگ فجر کی نماز سے ہی عیدگاہ میں جمع ہوناشروع ہوگئے اور عیدگاہ کے تمام راستے انسانی سروں کا سمندرنما منظر پیش کررہے تھے۔ ٹھیک دس بجے دن حضرت ؒ کے فرزندو جانشین الحاج حضرت ابوالبرکات سید خلیل اللہ شاہ صاحب نقشبندی و قادری نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں زائداز ڈھائی لاکھ افراد نے شرکت کی اور آپ کی تدفین نقشبندی چمن(مصری گنج)میں عمل میں آئی اور آج بھی آپ ؒ کے مزار مبارک پر لوگ فیض پاتے ہیں۔

حضرت کی سب سے بڑی اور آفتاب جیسی روشن کرامت ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ جو آقا ﷺ کی حدیثوں کا ایک قیمتی زخیرہ ہے آپ نے امام اعظم حضرت ابو حنیفہؒ کے مسلک کو صحیح احادیث اور قرآن کی روشنی میں بیان فرمایاہے۔ آپ کا یہ کارنامہ عربی زبان میں ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہے جس میں ہزار ہا احادیث کو ایکجا کیا ہے اور ہر حدیث کے بعد حضرتؒ نے ضرور اس کے مطابق سند کو بیان کیا ہے، حضرت نے صحیح بخاری کے طرز پر ہر بڑے عنوان کے بعد متعلقہ آیات قرآنی کو بھی جمع فرمایا جوآج بھی ملک و بیرون ملک قبول و مقبول ہے۔زجاجۃالمصابیح کے علاوہ حضرت کے مشہور و معروف کتب’گلدستہء طریقت(سورہ یوسف کی تفسیر)‘ ’میلاد نامہ ‘’قیامت نامہ‘ ’شہادت نامہ‘ ’معراج نامہ‘ ’فضائل نماز ‘’فضائل رمضان‘’مواعظ حسنہ‘’علاج السالکین‘ و دیگرکتب آسانی سے دستیاب ہیں۔

حضرت محدّث دکنؒ کی سالانہ فاتحہ۱۸؍ ربیع الثانی کونقشبندی چمن واقع مصری گنج حیدرآباد میں بڑے ہی عقیدت و احترام سے منائی جاتی ہے جس میں شہر حیدرآباد ہی نہیں بلکہ مختلف مقامات سے عقیدت مند علماء و مریدین و معتقدین کی کثیر تعدادشرکت کرتی ہے اور فیضیاب ہوتی ہے۔ (اقتباس: کتب سیر)
٭٭٭