حیدرآباد

جب تک ہندوستان باقی ہے، اردو زبان آب و تاب کے ساتھ باقی رہے گی: اسمٰعیل الرب انصاری

پروگرام کی کنوینر محترمہ لطیفہ خانم (صدر نشین اے جی آر فاؤنڈیشن)، محترمہ رضوانہ خاتون (نائب صدرنشین) اور ثانیہ کوثر (جنرل سیکریٹری) نے مہمانانِ خصوصی اور سامعین کا پرتپاک خیرمقدم کیا۔

حیدرآباد: اردو زبان کی ترویج و اشاعت اور اس کے تحفظ کے سلسلے میں ایک اہم و منفرد ادبی پروگرام "اندازِ بیان” اے جی آر فاؤنڈیشن اور تلنگانہ اردو فورم کے اشتراک سے اردو گھر، مغل پورہ میں منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں شہر کی کئی معروف ادبی، سماجی و تعلیمی شخصیات نے شرکت کی اور اردو زبان کے فروغ کے حوالے سے مفید خیالات کا اظہار کیا۔

متعلقہ خبریں
اکیڈیمکلی گلوبل نے حیدرآباد میں پہلا تجرباتی مرکز قائم کیا
حیدرآباد: نوجوان نسل ملک کی سب سے بڑی طاقت ہے: مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
اردو جرنلسٹس فیڈریشن کا ایوارڈ فنکشن، علیم الدین کو فوٹو گرافی میں نمایاں خدمات پر اعزاز
حضرت بندہ نوازؒ علم و روحانیت کے درخشاں مینار تھے: مفتی ڈاکٹر صابر پاشاہ قادری
اویسی کا دوٹوک بیان: پاکستان دہشت گردی کی آڑ میں انسانیت کا دشمن

پروگرام کی کنوینر محترمہ لطیفہ خانم (صدر نشین اے جی آر فاؤنڈیشن)، محترمہ رضوانہ خاتون (نائب صدرنشین) اور ثانیہ کوثر (جنرل سیکریٹری) نے مہمانانِ خصوصی اور سامعین کا پرتپاک خیرمقدم کیا۔

صدر تلنگانہ اردو فورم و سینئر کانگریس قائد جناب محمد اسمٰعیل الرب انصاری نے اپنے خطاب میں کہا:
"جب تک ہندوستان باقی ہے، اردو زبان پوری آب و تاب کے ساتھ باقی رہے گی۔”
انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ وہ گھروں میں اردو زبان کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں، بچوں سے شائستہ انداز میں گفتگو کریں، اور اردو تہذیب و تمدن کو اپنی نسلوں تک منتقل کریں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ مختلف اسکولز اور کالجوں کا دورہ کرتے ہوئے اردو زبان کے چلن کا جائزہ لیں گے اور اس کے فروغ کے لیے مزید اقدامات تجویز کیے جائیں گے۔

ڈاکٹر عرشیہ جبین صدیقی (ڈائریکٹر ایمس اکیڈمی و صدر اقراء ایکسلنس ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی) نے اردو زبان کو مذہب سے جوڑتے ہوئے کہا کہ "اگر ہماری اردو بہتر ہو تو ہم مذہب سے بھی بہتر طور پر جُڑ سکتے ہیں۔”
انہوں نے ماؤں پر زور دیا کہ وہ بچوں کو کھانے کے وقت موبائل پر گیت سنانے کے بجائے نعتیں، قرآن کی آیات یا دعائیں سنائیں تاکہ بچوں کی تربیت دینی ماحول میں ہو اور موبائل کے مضر اثرات سے بچاؤ ہو۔

ڈاکٹر اعجاز الزماں (سینئر کانگریس قائد) نے اردو دان طبقہ کو تلقین کی کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اردو تعلیم کو عام کریں، اور نئی نسل میں اردو سیکھنے کا جذبہ پیدا کریں۔ انہوں نے اردو کے فروغ کے لیے شعور بیداری مہم کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔

محترمہ ساجدہ سکندر (صدر مدر ٹریسا فاؤنڈیشن) نے اپنے جذبات کا اظہار اردو زبان میں اشعار اور حب الوطنی کے گیتوں کے ذریعے کیا۔ انہوں نے خواتین پر زور دیا کہ وہ گھریلو ماحول میں اردو کو فروغ دیں اور بچوں کی گفتگو میں اردو الفاظ کے استعمال پر توجہ دیں۔

جناب محمد ساجد علی (ماہر شخصیت سازی) نے کہا کہ "جدوجہد آزادی کا پہلا نعرہ ’انقلاب زندہ باد‘ بھی اردو زبان میں دیا گیا تھا۔”انہوں نے اردو کو ہماری تہذیبی شناخت قرار دیا اور اردو سے دوری کو اپنی شناخت سے محرومی سے تعبیر کیا۔

جناب ثناءاللہ خان (سماجی جہد کار) نے اردو زبان کو ترقی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اردو نہ صرف ہندوستان بلکہ امریکہ، یورپ، خلیجی ممالک، جاپان و آسٹریلیا میں بھی مقبول ہو رہی ہے۔ انہوں نے مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کو اقوام کی ترقی کا راز قرار دیا۔

جناب محمد حسام الدین ریاض نے اردو کے فروغ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ"ہمیں اپنی گفتگو میں اردو الفاظ کا استعمال بڑھانا ہوگا۔ اردو زبان کو چھوڑ دینا گویا اپنے تشخص سے منہ موڑنا ہے۔”
انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ ایک چائے کی قیمت سے بھی کم قیمت والے اردو اخبارات لوگ خریدنے سے گریز کرتے ہیں، جب کہ صرف واٹس ایپ پر اردو پڑھ لینے سے زبان کی خدمت نہیں ہوتی۔

آخر میں محترمہ لطیفہ خانم، محترمہ رضوانہ خاتون اور ثانیہ کوثر نے تمام مقررین اور سامعین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اے جی آر فاؤنڈیشن اردو زبان کے فروغ اور فلاحی خدمات کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی رہے گی۔ انہوں نے اردو کی نئی بستیوں کے قیام اور عملی اقدامات کے عزم کا اظہار بھی کیا۔

پروگرام میں ثناء بیگم، محمد مسعود علی (صدر ہیومن رائٹس ڈیولپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن) اور دیگر معزز شخصیات موجود تھیں۔ یہ پروگرام اردو زبان کے فروغ، فکری بیداری، اور ادبی ہم آہنگی کی ایک خوبصورت مثال بن کر ابھرا۔