مذہب

محرم الحرام حرمت والا مہینہ ہے!

محرم الحرام کا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے جو اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ محرم الحرام سے ہجری سال کا آغاز اور ذی الحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ نیز محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے۔

مولانا حافظ محمد آصف عرفان قادری
(ایڈیٹر ماہنامہ عرفان انوار)

محرم الحرام کا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے جو اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ محرم الحرام سے ہجری سال کا آغاز اور ذی الحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ نیز محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے۔ اس ماہ کو رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ یوں تو سارے ہی دن و رات اور مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ایک تاریخی اور متفقہ حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ کے آغاز اور خود آسمان و زمین کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ کے طے کردہ نظام کے مطابق ایک سال میں بارہ مہینے ہی ہوا کرتے تھے اور ان بارہ مہینوں میں چار مہینے ایسے ہیں کہ اسلام کی آمد سے قبل عہد جاہلیت کے عرب کفار مکہ بھی ان کی حرمت اور احترام کے قائل تھے۔ چنانچہ وہ اپنی جاری جنگوں کو بھی ان مہینوں میں موقوف کردیا کرتے تھے۔ قرآن کریم نے اس کی طرف ’’منھا اربعة حرم‘‘ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔ ان چار مقدس مہینوں کے اندر محرم الحرام کا مہینہ بھی شامل ہے اور اسلامی سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہی کہلاتا ہے۔

تاریخ انسانی کا مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام سے قبل اس مہینے کے اندر بہت سارے اہم واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں نے اس مہینے میں پائے جانے والے جن واقعات کو محفوظ کیا ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں: اس مہینے میں ﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفانِ نوح کے بعد جودی نامی پہاڑ کے قریب آکر ٹھہری، حضرت یوسف علیہ السلام کو اس مہینے میں قید سے نجات حاصل ہوئی، حضرت ایوب علیہ السلام کو طویل بیماری کے بعد شفاء نصیب ہوئی، حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور آل فرعون سے اس طرح نجات ملی کہ ﷲ تعالیٰ نے فرعون سمیت اس کی فوجوں کو بُحیرہ قلزم میں غرق کردیا وغیرہ۔

مندرجہ بالا تمام واقعات کا تعلق دین اسلام کی آمد سے قبل سے ہے اور تاریخی کتابوں سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ تمام واقعات محرم الحرام کی دسویں تاریخ جسے عاشوراء یا عاشورۂ محرم کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے کو پیش آئے تھے۔

قارئین کرام! ہجری سال کا استعمال رسول کریم ﷺ کے عہد میں نہیں تھا، بلکہ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں صحابہ کرام کے مشورے کے بعد سن ۱۷ ہجری میں شروع ہوا۔ ہجری سال کے کیلنڈر کا آغاز اگرچہ حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ کے زمانے میں ہوا تھا، مگر تمام بارہ اسلامی مہینوں کے نام اور ان کی ترتیب نہ صرف رسول کریم ﷺ کے زمانے بلکہ عرصہ دراز سے چلی آرہی تھی اور ان بارہ مہینوں میں سے حرمت والے چار مہینوں (ذو القعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب) کی تحدید بھی زمانہ قدیم سے چلی آرہی تھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ (سورۃ التوبة: ۳۶)

اسلامی کیلنڈر (ہجری) کے آغاز سے قبل عربوں میں مختلف واقعات سے سال کو موسوم کیا جاتا رہا۔ جس کی وجہ سے عربوں میں مختلف کیلنڈر رائج تھے اور ہر کیلنڈر کی ابتدا محرم الحرام سے ہی ہوتی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ کے زمانہ خلافت میں جب ایک نئے اسلامی کیلنڈر کو شروع کرنے کی بات آئی تو صحابہ کرامؓ نے اسلامی کیلنڈر کی ابتدا کو رسول کریم ﷺ کی ولادت یا نبوت یا ہجرتِ مدینہ سے شروع کرنے کے لئے مختلف مشورے دئے۔

آخر میں صحابہ کرام کے مشورہ سے ہی ہجرتِ مدینہ منورہ کے سال کو بنیاد بناکر ایک نئے اسلامی کیلنڈر کا آغاز کیا گیا اور ہجرتِ مدینہ منورہ کے سال کو پہلا سال تسلیم کرلیا گیا۔ اب رہی مہینوں کی ترتیب تو اس کو عربوں میں رائج مختلف کیلنڈر کے مطابق رکھی گئی یعنی محرم الحرام سے سال کی ابتدا غرض یہ ہے کہ عربوں میں محرم الحرام کا مہینہ قدیم زمانے سے سال کا پہلا ہی مہینہ رہتا تھا، لہٰذا اسلامی سال کو شروع کرتے وقت اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس طرح ہجرت مدینہ منورہ سے نیا اسلامی کیلنڈر تو شروع ہوگیا، مگر مہینوں کی ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

قارئین کرام! ہمیں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ سورج کے نظام سے عیسوی کیلنڈر میں ۳۶۵ یا ۳۶۶ دن ہوتے ہیں، جبکہ ہجری کیلنڈر میں ۳۵۴ دن ہوتے ہیں۔ ہر کیلنڈر میں مہینے ۱۲ ہی ہوتے ہیں۔ ہجری کیلنڈر میں مہینہ ۲۹ یا ۳۰ دن کا ہوتا ہے۔ جبکہ عیسوی کیلنڈر میں سات مہینہ ۳۱ دن کے، چار ماہ ۳۰ دن اور ایک ماہ ۲۸ یا ۲۹ دن کا ہوتا ہے۔ سورج اور چاند دونوں کا نظام اللہ تعالیٰ ہی نے بنایا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں متعدد عبادتیں ہجری کیلنڈر سے ہی مربوط ہیں۔ دونوں کیلنڈر میں ۱۰ یا ۱۱ یا کبھی ۱۲ روز کا فرق ہونے کی وجہ سے بعض مخصوص عبادتوں کا وقت ایک موسم سے دوسرے موسم میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ موسموں کی تبدیلی بھی اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے۔

ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ موسم کیسے تبدیل ہوجاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس پر غور و خوض کرنے کی دعوت دینی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس نے متعدد موسم بنائے اور ہر موسم میں موسم کے اعتبار سے متعدد چیزیں بنائیں، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں اُن عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں) کہ اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں۔ (سورۃ آل عمران: ۱۹۰، ۱۹۱) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مہینوں کی حرمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ بِالشَّھْرِالْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ

"حرمت والے مہینے کے بدلے حرمت والا مہینہ ہے اور (دیگر) حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کا بدل ہیں، پس اگر تم پر کوئی زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو مگر اسی قدر جتنی اس نے تم پر کی اور الله تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ الله ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔” (سورۃ البقرۃ: ۱۹۴)

یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّهْرِالْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِ قُلْ قِتَالٌ فِیْهِ کَبِیْرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللهِ وَکُفْرٌم بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللهِ ج وَالْفِتْنَةُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ

"لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں، فرما دیں اس میں جنگ بڑا گناہ ہے اور الله کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام (خانہ کعبہ) سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا الله کے نزدیک (اس سے بھی) بڑا گناہ ہے، اور یہ فتنہ انگیزی قتل و خون سے بھی بڑھ کر ہے”۔ (سورۃ البقرۃ: ۲۲۷)

یٰـٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْھَدْیَ وَلَا الْقَـلَآ ئِدَ وَلَآ آٰمِّیْنَ الْـبَـیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَاناً

اے ایمان والو! الله کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت و ادب والے مہینے کی (یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب میں سے کسی ماہ کی) اور نہ حرم کعبہ کو بھیجے ہوئے قربانی کے جانوروں کی اور نہ مکّہ لائے جانے والے ان جانوروں کی جن کے گلے میں علامتی پٹے ہوں اور نہ حرمت والے گھر (یعنی خانہ کعبہ) کا قصد کرکے آنے والوں (کے جان و مال اور عزت و آبرو کی) بے حرمتی کرو کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں) جو اپنے رب کا فضل اور رضا تلاش کر رہے ہیں۔ (سورۃ المائدہ: ۲)

جَعَلَ اللهُ الْکَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْیَ وَالْقَـلَآئِدَ ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ اللہ تعالیٰ نے (عزت و ادب) والے گھر کعبہ کو لوگوں کے (دینی و دنیوی امور میں) قیام (امن) کا باعث بنا دیا ہے اور حرمت والے مہینے کو اور کعبہ کی قربانی کو اور گلے میں علامتی پٹے والے جانوروں کو بھی (جو حرمِ مکہ میں لائے گئے ہوں سب کو اسی نسبت سے عزت و احترام عطا کر دیا گیا ہے)، یہ اس لئے کہ تمہیں علم ہو جائے کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ خوب جانتا ہے اور اللہ ہر چیز سے بہت واقف ہے۔” (سورۃ المائدہ: ۹۷)

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ کِتٰبِ اللهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ

بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتۂ قدرت) میں بارہ مہینے لکھی ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کے نظام کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔ (سورۃ التوبة: ۳۶) اس مہینہ کی حرمت قرآن کریم کی آیات سے جان لینے کے بعد آحادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں: حضرت عبد الله بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے یہودیوں کو یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے پایا۔ تو رسول کریم ﷺ نے اُن سے پوچھا: یہ کون سا (خاص) دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ اُنہوں نے کہا: یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اُس کی قوم کو غرق کیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اُس دن کا روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اِس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تمہاری نسبت ہم حضرت موسیٰؑ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اُس دن رسول کریم ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی) اُس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ (أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الانبیاء، باب قول الله تعالی: وھل أتاک حدیث موسی۔ ۳۔ ۱۲۴۴، الرقم: ۳۲۱۶، و مسلم في الصحیح، الرقم: ۱۱۳۰، ابن ماجہ في السنن، الرقم: ۱۷۳۴، وأحمد بن حنبل، الرقم: ۳۱۱۲)

ایک اور روایت میں حضرت عبد الله بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول الله ﷺ ! اس دن کی تو یہود اور نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔ تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جب اگلا سال آئے گا تو ہم ان شاء اللہ نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے۔ راوی کہتے ہیں کہ ابھی اگلا سال آنے نہ پایا تھا کہ رسول کریم ﷺ وصال فرما گئے۔ (أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب أي یوم یصام في عاشوراء، ۲۔ ۷۹۷، الرقم: ۱۱۳۴، وابو داود في السنن، کتاب الصوم، باب ما روی أن عاشوراء الیوم التاسع،۲۔ ۳۲۷، الرقم: ۲۴۴۵، والبیہقي في السنن الکبری، ۴۔ ۲۸۷، الرقم: ۸۱۹۴)

حضرت عبد الله بن عباسؓ فرماتے ہیں: میں نے رسول کریم ﷺ کو نہیں دیکھا کہ کسی دن کو دوسرے پر فضیلت دے کر روزہ رکھتے ہوں مگر اِس روز یعنی عاشورہ کو اور اس مہینہ یعنی ماهِ رمضان کو (ہمیشہ فضیلت دی)۔ (أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، ۲۔ ۷۰۵، الرقم: ۱۹۰۲، و مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، ۲۔ ۷۹۷، الرقم ۱۱۳۲، و أحمد بن حنبل في المسند، ۱۔ ۲۲۲، الرقم: ۱۹۳۸) والنسائي في السنن، کتاب الصیام، باب صوم النبيؐ، ۴۔ ۲۰۴، الرقم: ۲۳۷۰) والحمیدي في المسند، ۱۔ ۲۲۶، الرقم: ۴۸۴)

حضرت رُبَیّع بنت معوَّذؓ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا: رسول کریم ﷺ نے عاشورہ کی ایک صبح کو انصار کے کسی گاؤں میں پیغام بھیجا کہ جس نے روزہ نہیں رکھا وہ اس دن کا بقیہ حصہ حالت روزہ میں گزارے۔ وہ باقی دن اس طرح پورا کرے اور جس نے روزہ رکھا ہوا ہے وہ روزے سے رہے۔ اس کے بعد ہم روزہ رکھتیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں ۔ ہم اُن کے لئے روئی کی ایک گڑیا بنا دیتیں ۔ جب اُن میں سے کوئی بچہ کھانے کے لئے روتا تو ہم اُسے وہی (گڑیا دے) دیتے۔ (وہ اس گڑیا سے کھیلنے میں مشغول ہوجاتا) یہاں تک کہ افطار کا وقت ہو جاتا۔ (أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب صوم الصبیان، ۲۔ ۶۹۲، الرقم: ۱۸۵۹، ومسلم في الصحیح، وابن خزیمۃ في الصحیح، وابن حبان في الصحیح)

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں: اہلِ عرب رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل یومِ عاشور کا روزہ رکھتے تھے کیوں کہ اُس دن کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کردئے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو اِس دن روزہ رکھنا چاہے وہ روزہ رکھ لے، اور جو ترک کرنا چاہے وہ ترک کر دے۔ (أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الحج، باب قول الله: جعل الله الکعبۃ البیت الحرام، ۲۔ ۵۷۷، الرقم: ۱۵۱۵، والطبراني، والبیہقي)

علامہ ابن حجر عسقلانیؒ نے (اِس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے) فرمایا ہے: اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت سے ہی وہ کعبہ پر غلاف چڑھا کر اُس کی تعظیم کرتے اور اُس کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ (العسقلاني في فتح الباري، ۳۔ ۴۵۵) علامہ ابن حجر عسقلانیؒ ایک اور مقام پر (قریش کے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے) کہتے ہیں: یومِ عاشور کو قریش کا روزہ رکھنے کا سبب یہ تھا کہ شاید اُنہوں نے گزشتہ شریعت سے اس کو پایا ہو، اور اِسی لئے وہ اس دن کی تعظیم کعبہ پر غلاف چڑھا کر کیا کرتے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں: اہلِ خیبر یوم عاشور کا روزہ رکھتے اور اُسے عید کے طور پر مناتے تھے۔

اُس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور اُن کا بناؤ، سنگھار کرتے۔ تو رسول کریم ﷺ نے (مسلمانوں سے) فرمایا: تم بھی اُس دن روزہ رکھا کرو۔ (أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، ۲۔ ۷۹۶، الرقم: ۱۱۳۱) حضرت ابوہریرہؓ نے بیان فرمایا کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کی بارگاهِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول الله ﷺ ! رمضان کے بعد کون سے مہینے کے روزے افضل ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ کا وہ مہینہ جسے تم محرم کہتے ہو۔ (أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، ۲۔ ۳۰۳، الرقم: ۸۰۱۲، وابن ماجہ في السنن، الرقم: ۱۷۴۲، والنسائي في السنن الکبری، الرقم: ۲۹۰۴، والدارمي في السنن، ۲۔ ۳۵، ۱۷۵۷) حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: عاشورہ کے دن انبیاء روزہ رکھا کرتے تھے، تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ في المصنف الرقم: ۹۳۵۵، وذکرہ العیني في عمدۃ القاري، ۱۱/۱۱۸) حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار مہینوں کو خاص کرلیا اور انہیں حرمت والے قرار دیا، نیز ان کی عزت و حرمت کو بڑھایا اور ان میں اپنی نافرمانی کو قبیح قرار دیا، اسی طرح ان مہینوں میں عمل صالح کے اجر و ثواب کو بڑھا دیا۔ (شعب الایمان۔ ۳/۳۴۱) اس مہینہ میں روزہ رکھنا اور مہینوں کے مقابل میں افضل ہے۔

چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ”رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینے محرم کا ہے اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث ۱۲۰۲، سنن ابوداود، حدیث: ۲۴۲۹، سنن الترمذی، حدیث: ۷۴۰) رسول کریم ﷺ سے کسی نے سوال کیا کہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزہ کون سا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے اس مہینے کا روزہ جسے تم محرم کے نام سے یاد کرتے ہو۔ (سنن النسائی الکبری۔ ج۔ ۲/۱۷۱، الرقم: ۲۹۰۶) اس مہینے کی نسبت رسول کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے یعنی ”اللہ تعالیٰ کا مہینہ‘‘ حالانکہ سارے مہینے ہی اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اور متعین کردہ ہیں، لیکن اس ماہ کی اہمیت کے پیش نظر رسول کریم ﷺ نے اس کی نسبت و اضافت اللہ تعالیٰ کے طرف کی، جیسا کہ آیات قرآنی و احادیث مبارکہ سے واضح ہوا، ظاہر ہے کہ جن چیزوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے وہ قابل احترام اور افضل ہوتے ہیں جیسے بیت المقدس، بیت اللہ، کعبۃ اللہ، صفاء و مروہ، حرم مدینہ وغیرہ۔ محرم کے مہینے میں عاشورہ کا دن ہے جس کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ”جس نے عرفہ کے دن کا روزہ رکھا اس کے ایک سال آئندہ اور ایک سال گزشتہ کے گناہ معاف کردیے گئے اور جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا اس کے گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف کردیے گئے۔ (صحیح مسلم‘ حدیث: ۱۱۶۲، سنن الترمذی‘ حدیث: ۷۵۲)

اس مہینے کے مسنون عمل: اس مہینہ کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر اس میں کچھ ایسے کام مشروع ہیں جو اگرچہ دوسرے مہینوں بھی مشروع ہیں لیکن اس مبارک مہینہ میں ان کی اہمیت زیادہ ہے وہ عمل یہ ہیں:

روزہ: محرم الحرام کے روزہ کے متعلق حدیثیں پڑھ چکے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ نفل روزوں میں سب سے افضل روزے ماہ محرم کے ہیں۔ ماہ محرم میں روزہ رکھنے کی فضیلت کی وجہ: ائمہ کرام کہتے ہیں کہ اس مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت کی دو وجوہات ہیں:

(۱) چونکہ یہ مہینہ حرمت والا مہینہ ہونے کی وجہ سے مبارک ہے اور روزہ بھی اللہ کے نزدیک بڑا محبوب عمل ہے، لہٰذا مبارک دن میں محبوب عمل کی ترغیب دی گئی، اس لئے کہ وقت، جگہ اور حالت کے اختلاط کے پیش نظر نیک عمل کی اہمیت و فضیلت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

(۲) یہ سال کا پہلا مہینہ ہے اور شریعت نے کسی چیز کے ابتداء و انتہا میں نیک عمل کی ترغیب دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ0 اور دن کے دونوں سروں میں نماز قائم کرو اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی، یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں، یہ نصیحت ہے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے‘‘۔ (سورة الهود: ۱۱۴)

رسول کریم ﷺ کے اعمال و احکام میں بھی صبح و شام ذکر الٰہی پر خصوصی طور پر اُبھارا گیا ہے، رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص سورج کے طلوع ہونے اور سورج کے غروب ہونے سے قبل نماز پڑھے گا وہ ہرگز ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم۔ حدیث: ۶۳۴، سنن ابوداود۔ حدیث: ۴۲۷) ایک حدیث قُدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم! دن کے ابتدائی حصّے میں میری رضا کے لئے چار رکعت سے عاجز نہ رہ جس کی وجہ آخری حصّے تک میں تیرے لئے کافی رہوں گا۔ (سنن ابو داود۔ حدیث: ۱۲۸۹، مسند احمد۔ ۵/۲۸۶) یہی وجہ ہے آپ دیکھیں گے کہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ اور آخری مہینہ دونوں حرمت والے ہیں اور دونوں میں نیک اعمال کی خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

گناہوں سے پرہیز: اس مبارک مہینہ کا دوسرا خصوصی عمل یہ ہے کہ بندے کو چاہئے کہ عبادت کے کاموں اور دیگر نیک کاموں میں دلچسپی لے اور گناہ کے کام سے خصوصی طور پر پرہیز کرے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ "ان مہینوں میں (حرمت والے مہینوں میں) تم لوگ اپنے اوپر ظلم نہ کرو‘‘۔ (سورة التوبة: ۳۶) اس جملے کی تفسیر کرتے ہوئے امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ: ”یعنی قتل کرکے یا گناہ کا کام کرکے اپنے اوپر ظلم نہ کرو، کیونکہ ان مہینوں میں گناہ کرنا اور مہینوں کے مقابلے میں زیادہ بُرا ہے، جس طرح کہ حرم میں گناہ دوسری جگہوں کے مقابلے زیادہ بُرا ہے“۔ (تفسیر ابن کثیر)

توبہ و استغفار: چونکہ اس ماہ میں کثرت سے روزہ رکھنا مشروع ہے نیز اپنے خالق و مربی کی نافرمانی سے پرہیز بڑی اہم نیکی ہے لہٰذا اگر کوئی بندہ مومن ان دونوں کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے رب کے حضور سچی توبہ کرتا ہے تو قوی اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا، اس سلسلے میں مسند احمد میں ایک حدیث مروی ہے جسے امام ترمذی اور حافظ منذریؒ وغیرہ حسن قرار دیتے ہیں، چنانچہ حضرت سیدنا علی المرتضیؓ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ رمضان المبارک کے بعد وہ کونسا مہینہ ہے جس میں روزہ رکھنے کا ہمیں آپ مشورہ دیتے ہیں؟ حضرت علیؓ نے اس سے فرمایا: ایک دن میں رسول کریم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے یہی سوال کیا، آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا: اگر تم رمضان المبارک کے بعد کسی مہینہ کا روزہ رکھنا چاہتے ہو تو ماہ محرم کا روزہ رکھو، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی ہے اور دوسری قوموں کی توبہ بھی قبول فرمائے گا۔ (مسند احمد۔ ۱/۱۵۴، سنن الترمذی۔ ۷۴۱)

اتفاق و اتحاد: اشہر حرم کے ضمن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَقَاتِلُوا المُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ مَعَ المُتَّقِينَ0 "اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح کہ وہ تم سے مل کر لڑتے ہیں اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے۔” یعنی جس طرح کہ وہ متفق، متحد ہوکر تم سے لڑتے ہیں اس طرح تمہیں بھی چاہئے کہ تم ان سے متفق و متحد ہو کر لڑو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد آپس میں نا اتفاقی، ایک دوسرے کی دشمنی اور ایک دوسرے سے بغض و نفرت سے نہیں بلکہ آپسی اتفاق و اتحاد اور آپسی محبت و مودت سے حاصل ہوسکتی ہے۔

توکل: محرم کا مہینہ آتے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر چھڑ جاتا ہے کہ کسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو ظالموں کے چنگل سے نجات دی اور جب ایک شخص موسیٰ علیہ السلام کے اس موقف پر ایک نظر ڈالتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو لے کر رات و رات فرعون کی پکڑ سے بچنے کے لئے سر زمین مصر سے کہیں دور نکل جانا چاہتے ہیں لیکن ابھی فرعون کی حکومت کے حدود ہی میں ہیں کہ وہ اپنے پورے لشکر کے ساتھ سمندر کے کنارے انہیں پالیتا ہے، بنو اسرائیل چیخ پڑتے ہیں کہ اب تو ہم مارے گئے، سامنے سمندر ہے اور پیچھے سے فرعون اور اس کا لشکر بالکل قریب پہنچ چکے ہیں، لیکن ایسے مشکل وقت میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنی قوم کو تسلی دیتے ہوئے ایک ایمان بھرا جواب دیا کہ: کلا ان معی ربی سیھدین0 ہرگز نہیں، یقین مانو! میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راہ دکھائے گا۔ (سورة الشعراء: ۶۲) ہوا بھی ایسا ہی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ائے موسیٰ! ابھی چھڑی اس سمندر میں مارو، تمہارے لئے ایک راستہ نہیں بارہ راستے بن جائیں گے۔

قارئین کرام! اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ کئی خصوصیات کی بنا پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس مہینے کی دسویں تاریخ جس کو عا شورا کہتے ہیں ،اسلام میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کی حرمت وعظمت قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے، اس لئے کہ بہت سے اہم واقعات اس مہینہ اور اس کی ۱۰ تاریخ سے وابستہ ہیں۔ قرآن کریم، احادیث اور تاریخی واقعات کی روشنی میں ماہِ محرم اور اس کی کی دسویں تاریخ خداے تعالیٰ کے نزدیک بڑی رفعت و عظمت والی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے محبوب نواسے کی شہادت کے لئے بھی اسی تاریخ کو منتخب فرمایا۔ چنانچہ سن ۶۱ ہجری، دسویں محرم کو جمعہ کے دن نواسہ رسول ،جگر گوشہ بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے کربلا کی تپتی ہوئی سر زمین پر دینِ اسلام کی سر بلندی کی خاطر اپنے خاندان اور چند نفوس قدسیہ کے ساتھ جامِ شہادت نوش فرمایا۔ عاشورا ایک بزرگی والا دن ہے۔ اس دن ہر نیک کام بڑے اجر و ثواب کا موجب ہے۔

اس دن کوئی بھی نیکی کی جائے اس کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ مثلا ً: والدین کے ساتھ حسن سلوک، پڑوسیوں کی خبر گیری، یتیموں، بیواؤں کے ساتھ ہمدردی وغیرہ۔ ان میں ایک نیکی بڑی اہم ہے جس کی طرف آج بہت کم دھیان دیا جاتا ہے، جب کہ رسول کریم ﷺ نے اس کی بڑی تاکید کی ہے، وہ ہے یتیم کے ساتھ اچھا برتاو۔ حضرت سیدنا ابو امامہؒ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے گا تو اسے ہر بال کے بدلے نیکیاں ملیں گی اور جو یتیم بچی یا بچے اس کے پاس ہیں ان کے ساتھ احسان کرے گا تو میں اور وہ جنت میں اس طرح (ان دو انگلیوں کی طرح اکٹھے) ہوں گے اور آپ نے دونوں انگلیوں کو ملا دیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔ ص: ۴۲۳)

سال کے آغاز کے موقع پر مبارک باد دینے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں، البتہ عبادت یا ضروری سمجھے بغیر اگر کوئی مبارک باد دے اور خیر و برکت کی دعا کرے تو کوئی حرج نہیں۔ البتہ نئے اسلامی سال کے شروع میں درج ذیل دعا پڑھنا بعض روایات سے ثابت ہے، لہٰذا ہر مہینہ کا چاند دیکھ کر اور قمری سال کے آغاز میں یہ دعا پڑھنا چاہیے: اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ0 ترجمہ: اے اللہ اس چاند کو ہمارے اوپر امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور رحمن کی رضا مندی اور شیطان کے بچاؤ کے ساتھ داخل فرما۔ (آمین)
٭٭٭

a3w
a3w