حیدرآباد
ٹرینڈنگ

موسیٰ ندی پروجیکٹ۔واجبی معاوضہ کے حق سے متعلق قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں: ہریش راؤ

موسیٰ ندی کو خوبصورت بنانے کے نام پر رود موسیٰ پر واقع بستیوں کو اجاڑدینے کے پس پردہ اصل محرکات پر ہنوز راز کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ موسیٰ ریور فرنٹ ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کی آڑ میں اب تک جو کچھ کیا گیا ہے اس کے باعث کانگریس پارٹی کی عوام میں مقبولیت بڑی حد تک گھٹ گئی ہے۔

حیدرآباد (منصف نیوز ڈیسک) موسیٰ ندی کو خوبصورت بنانے کے نام پر رود موسیٰ پر واقع بستیوں کو اجاڑدینے کے پس پردہ اصل محرکات پر ہنوز راز کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ موسیٰ ریور فرنٹ ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کی آڑ میں اب تک جو کچھ کیا گیا ہے اس کے باعث کانگریس پارٹی کی عوام میں مقبولیت بڑی حد تک گھٹ گئی ہے۔

متعلقہ خبریں
حکومت کی انہدامی کارروائی، پارٹی، متاثرین کو مفت قانونی امداد فراہم کرے گی: ہریش راؤ
دسہرہ کے موقع پر آر ٹی سی مسافرین سے زیادہ کرایہ کی وصولی پر تنقید
جی او 33 سے تلنگانہ طلبہ غیر مقامی ہوں گے: ہریش راؤ
میڈیکل کالجوں میں تلنگانہ طلبہ کے صدفیصد داخلوں کو یقینی بنایا جائے: ہریش راؤ
کے سی آر کٹر ہندو: ہریش راو

اس پروجیکٹ کو حقیقی شکل دینے کے لئے جو امور پہلے انجام دینے چاہئے تھے انہیں چھوڑ کر سب سے آخر میں انجام دی جانے والی کارروائی یعنی متاثرین کی بے دخلی اورپروجیکٹ میں حائل ہونے والی تعمیرات کے انہدام کو پہلے انجام دیا جارہا ہے۔ متاثرین کو ڈبل بیڈ روم مکانات کے الاٹمنٹ کے ذریعہ ان کے اپنے خوابوں کے آشیانوں کو زمین بوس کردیا جارہا ہے جو مروجہ قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

اس خصوص میں رکن اسمبلی و سابق ریاستی وزیر فینانس مسٹر ٹی ہریش راؤ نے روزنامہ منصف سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے بہت سے حقائق پر سے پردہ اٹھایا۔ مسٹر ہریش راؤ نے کہا کہ ریونت ریڈی حکومت جو کچھ کررہی ہے وہ مالن کا گھر توڑ کر مال بنانے کے مترادف ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اس پروجیکٹ کے پس پردہ ئیل اسٹیٹ ذہن کارفرما ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ موسیٰ ندی 54 کیلومیٹر تک بہتی ہے۔ اگر اس ندی کو خوبصورت بنانا ہے تو اس میں گوداوری کا لاکر چھوڑا جاتا یا پھر ایس ٹی پیز نصب کئے جاتے تو ہم بھی اس کی تائید کرتے۔ اگر حکومت‘ عوام دوست ہوتی تو اس ندی کو خوبصورت بنانے کا آغاز وہاں سے کرتی جہاں کوئی بستی متاثر نہیں ہوتی۔

انہوں نے حیرت کا اظہار کیاکہ زمین کے حصول کے قانون کے تحت زمین کو حاصل کرنے کا اعلامیہ جاری کیا جانا چاہئے تھا اور اس پر عوام سے اعتراضات اور تجاویز طلب کئے جانے چاہئے تھے اور متاثرین کو قانون کے تحت فوائد بہم پہنچائے جانے تھے مگر غریب اور ان پڑھ لوگوں کو یہ باور کرواتے ہوئے کہ اگر وہ ڈبل بیڈ روم مکانات حاصل نہیں کریں گے تو مستقبل میں ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا‘ ان کے گھر چھین کر توڑ دئیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ریونت حکومت نے ایک پروجیکٹ کا تخیلی خاکہ اپنے ذہن میں بنا کر سینکڑوں مکینوں کو بے گھر کرنا شروع کردیا۔

انہوں نے استفسار کیا کہ ابھی موسیٰ ندی کو خوبصورت بنانے کے پروجیکٹ کا مفصل پروجیکٹ رپورٹ تیار کرنے والی ایجنسی کو ہی ہنوز قطعیت نہیں دی گئی مگر مکانات کو منہدم کردینا شروع کردیا گیا ہے جب کہ متاثرہ خاندانوں کی بازآبادکاری کو یکسر فراموش کردیا گیا ہے۔انہوں نے حصول اراضی کے مروجہ طریقے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مفصل پروجیکٹ رپورٹ کی تیاری کے لئے کم از کم ایک برس درکار ہوتا ہے اس کے بعد اس رپورٹ کی اساس پر وزارت ماحولیات و جنگلات اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور دیگر مرکزی ایجنسیوں سے اس پروجیکٹ کے لئے منظوری حاصل کرنا ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ انہیں اطلاعات ملی ہیں کہ سرکاری عہدیداروں نے سنٹرل لائبریری کے عقب میں واقع مکانات پر بھی بفر زون میں شامل ہونے کے نشانات لگادئیے ہیں۔

اگر یہ درست ہے تو پھر اس پیمائش کے لحاظ سے ہائی کورٹ کی عمارت‘ عثمانیہ ہاسپٹل‘ سالارجنگ میوزیم اور سنٹرل لائبریری بھی زد میں آجائیں گے اور کیا ایسا کرنا ممکن ہے؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ موسیٰ ندی میں مہاتما گاندھی بس اسٹیشن واقع ہے اور اس کے بیچ سے میٹرو ریل بھی گزرتی ہے‘کیا یہ بھی منتقل کئے جائیں گے؟مسٹر ہریش راؤ نے بتایا کہ ریاستی حکومت کو یہ بھی بتاناپڑے گا کہ وہ اس پروجیکٹ پر عائد ہونے والے مصارف کے لئے فنڈس کس طرح فراہم کرے گی؟انہوں نے استفسار کیا کہ آیا ریاستی حکومت اپنے مالی وسائل پر اتنے بڑے پروجیکٹ کی تکمیل کرپائے گی؟

اورمالیاتی ایجنسیوں سے فنڈس حاصل کرنے کا منصوبہ ہے تو پھر قرض فراہم کرنے والی ایجنسیوں کی شرائط کی تکمیل کرنی ہوگی اور پھر فنڈس کے حصول کے لئے علیحدہ منظوریاں حاصل کرنی پڑیں گی جس کے لئے ایک عرصہ لگ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام متاثرین کو ان کی جائیدادوں کی مارکٹ قدر کا تعین اور معاوضہ کی ادائیگی کے بغیر ڈبل بیڈ روم مکانات الاٹ کرنا حصول اراضی‘ بازآبادکاری اور دوبارہ بسانے میں واجبی معاوضہ اور شفافیت کے حق سے متعلق 2013 کے مرکزی قانون اور اس خصوص میں تلنگانہ کے مرممہ قانون 2016 کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسیٰ ندی پروجیکٹ کے نام پر بے گھر کئے جانے والے مکینوں کوصرف ڈبل بیڈ روم کا الاٹمنٹ کرنا ان کے ساتھ بدترین ناانصافی اور ظلم ہے۔یہ نہیں بلکہ بی آر ایس حکومت نے بے گھرشہریوں کے لئے جو ڈبل بیڈ روم مکانات تعمیر کروائے تھے ان کواس حق سے محروم کرتے ہوئے متاثرین کو وہاں بسانے سے کئی غریب خاندانوں کے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نامکمل امکنہ یونٹ اور سہولتوں کی فراہمی کے بغیر متاثرین کی منتقلی بھی نامناسب ہے۔

بے گھر کئے جانے والوں کو تمام سہولتوں سے آراستہ بستی میں منتقل ہونے کے قانونی حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کے قانون The Right to Fair Compensation and Transparency in Land Acquisition, Rehabilitation and Resettlement (RFCTLARR) Act, 2013.کی رو سے دیہی علاقوں میں ایک گھر سے محروم کیا جاتا ہے تو اندرا آواس یوجنا کی صراحتوں کے مطابق ایک تعمیر شدہ مکان دینا ہے اور شہری علاقوں میں گھر سے محرومی کی صورت میں تعمیر شدہ مکان دینا ہوگا جو 50 مربع میٹر سے کم رقبہ کا نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ فوائد ان تمام متاثرہ خاندانوں کو دینا پڑتا ہے جو جائے سکونت کے بغیر ہیں اور متاثرہ علاقہ میں مسلسل تین برس کی مدت سے رہ رہے ہیں۔

شہری علاقوں میں اگر کوئی پیش کردہ مکان حاصل کرنا نہیں چاہتا ہے تو مکان کی تعمیر کے لئے وہ کو یکمشت مالی امداد کا مستحق ہوگا اور یہ رقم دیڑھ لاکھ روپے سے کم نہ ہوگی۔ مسٹر ہریش راؤ نے کہا کہ تلنگانہ ترمیمی قانون کی رو سے ریاستی حکومت کے ڈبل بیڈ روم امکنہ پالیسی کی رو سے بے گھر ہونے والے خاندان کو 5.04 لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے یا واحد خاندان کو بشمول ایک فرد‘ بیوہ/رنڈوااس کے شریک حیات‘ نابالغ بچوں‘ نابالغ بھائیوں اور نابالغ بہنوں کو جو اس کے زیر کفیل ہیں 1.25 لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے۔

علاوہ ازیں متاثرہ خاندان کو ایک مرتبہ 5 لاکھ روپے کی ادائیگی کرنی ہوگی یا ایس سی اور ایس ٹی کی صورت میں 20 برسوں کی مدت کے لئے ماہانہ 3,000 روپے بہ طور مشاہرہ ادا کرنے ہوں گے یا ایس سی‘ ایس ٹی نہ ہونے کی صورت میں 20 برسوں کی مدت کے لئے ماہانہ 2,500 روپئے مشاہرہ دینا ہوگا۔علاوہ ازیں فی خاندان ایک برس کے لئے مجموعی طور پر 40 ہزار روپے کی مدد معاش ادا کرنا ہوگا۔ یہی نہیں بلکہ شیڈولڈ علاقوں میں ایس سی‘ ایس ٹی سے تعلق رکھنے والے متاثرہ خاندانوں کو 60 ہزار روپے یکمشت گرانٹ دینی ہوگی۔ بے گھر کئے جانے کی صورت میں ہر متاثرہ خاندان کو 60 ہزار روپے کی ایک مرتبہ ٹرانسپورٹ گرانٹ دینی ہوگی۔

اگر متاثرہ خاندان جانور یا چھوٹی دکان کا حامل ہوتو اس کو 25,000 روپے کی ایک مرتبہ مالی امداد فراہم کرنی ہوگی۔ فنکاروں‘ چھوٹے کاروباریوں‘ خود روزگار فرد یا متاثرہ خاندان غیر زرعی زمین یا تجارتی‘ صنعتی یا ادارتی ڈھانچہ رکھتا ہے تو اس کو 30 ہزار روپے کی ایک مرتبہ گرانٹ دینی ہوگی۔

دوبارہ بسنے کے لئے ہر متاثرہ خاندان کو ایک مرتبہ 60 ہزار روپے ادا کرنے ہوں گے۔ مسٹر ہریش راؤ نے بتایا کہ متاثرہ خاندانوں کو الاٹ کی جانے والی زمین یا مکان کے رجسٹریشن کے لئے ادا شدنی اسٹامپ ڈیوٹی اور دیگر فیس‘ زمین حاصل کرنے والی ایجنسی کو برداشت کرنے ہوں گے۔

متاثرہ خاندانوں کو فراہم کئے جانے والے مکان کی زمین تمام نزاعات سے پاک ہونی چاہئے۔ بی آر ایس قائد نے کہا کہ متاثرہ مشترکہ خاندان کے ارکان اگر ایک ساتھ رہ رہے ہوں اور مل جل کر خودکے مالیہ کی اسکیم یا انٹرپرائز اپنی پسند کی قائم کرنا چاہتے ہیں یا پھر کوئی اور ذرائع آمدنی کی سرگرمی میں مشغول کرنا چاہتے ہیں تو انہیں مذکورہ فوائد کے متبادل کے طور پر 7.5 لاکھ روپے کی یکمشت رقم کی مالی امداد فراہم کرنی ہوگی۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ ان تمام شرائط کی تعمیل کئے بغیر صرف ڈبل بیڈ روم مکانات کی فراہمی فطری عدل کے مغائر ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن مکانات کو حاصل کیا جارہا ہے ان کی تعمیری قدر کا تعین کئے بغیر انہیں منہدم کردیا جارہا ہے جوقانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن سے جگہ حاصل کی جارہی ہے ان کے جگہ کی مارکٹ قدر‘ تعمیرات کی قدر کے علاوہ مذکورہ بالا فوائد فراہم کرنے ہوں گے۔