حیدرآبادسوشیل میڈیا

میدک پولیس کے تشدد کا زخمی مسلم نوجوان فوت

میدک پولیس کے مبینہ تشدد اور شدید زدو کوب سے متاثر 35 سالہ محمد قدیر خان جو16 فروری کودوران علاج تشدد کے زخموں سے جانبر نہ ہوسکا، کی لاش کا آج صبح گاندھی ہاسپٹل میں پوسٹ مارٹم کیا گیا اور بعد پوسٹ مارٹم لاش، میدک منتقل کردی گی جہاں تدفین عمل میں آئی۔

حیدرآباد: میدک پولیس کے مبینہ تشدد اور شدید زدو کوب سے متاثر 35 سالہ محمد قدیر خان جو16 فروری کودوران علاج تشدد کے زخموں سے جانبر نہ ہوسکا، کی لاش کا آج صبح گاندھی ہاسپٹل میں پوسٹ مارٹم کیا گیا اور بعد پوسٹ مارٹم لاش، میدک منتقل کردی گی جہاں تدفین عمل میں آئی۔

متعلقہ خبریں
اسدالدین اویسی کا کووڈ وبا کے تباہ کن اثرات کی طرف اشارہ
یونیفام سیول کوڈ کی نہیں ملازمتوں کی ضرورت:اویسی
گاندھی اسپتال میں مریض کی خودکشی
مسلمان اگر عزت کی زندگی چاہتے ہو تو پی ڈی ایم اتحاد کا ساتھ دیں: اویسی
ویڈیو: ملک کے موجودہ حالات نازک : اکبر الدین اویسی

سرقہ کے الزام میں ایس آئی میدک پی راجیش اور دو کانسٹبلوں پرشانت اور پون نے شہر حیدرآباد کے حسینی علم علاقہ سے29 جنوری کو اسے گرفتار کرلیا۔ ایس آئی نے مبینہ طور پر مشتبہ ملزم خان کو5 دنوں تک غیر مجاز طور پر تحویل میں رکھا جہاں پولیس عہدیدار نے مشتبہ ملزم قدیر خان پر تھرڈ ڈگری کا استعمال کیا اور پھر ملزم کو تین دنوں تک گھر پر نظر بند کردیا تاکہ وہ (ملزم) کسی سے شکایت نہ کرسکے تاہم ناقابل برداشت درد کی وجہ سے خان، کسی طرح گھر سے بھاگ کر میدک کے سیول ہاسپٹل میں شریک ہوگیا۔

بتایا جاتا ہے کہ مقامی صحافیوں کی مدد سے قدیر خان نے ترجمان ایم بی ٹی امجد اللہ خان خالد سے ربط پیدا کیا۔امجد اللہ خان خالد نے ٹوئٹ کے ذریعہ ریاستی وزیر کے ٹی آر، ڈی جی پی انجنی کمار، ضلع کلکٹر میدک اور ضلع ایس پی اور دیگر کو اس معاملہ سے رجوع کیا۔

انہوں نے ان ارباب مجاز سے پولیس تشدد سے متاثر محمد قدیر خان کا بہتر علاج کرانے اور خاطی ایس آئی اور کانسٹبلوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد میدک پولیس نے زخمی خان کو کوم پلی کے رینووا ہاسپٹل میں شریک کرایا تھا۔ بعدازاں خان کو گاندھی ہاسپٹل منتقل کردیا گیا جہاں بعد تشخیص پتہ چلا کہ پولیس تشدد کے سبب قدیر خان کی ریڈھ کی ہڈی میں کئی فریکچر آگئے اور اس کے دونوں گردے ناکارہ ہوگئے۔

پولیس تشدد کے شکار قدیر خان ہاسپٹل میں تقریباً دو ہفتوں تک زندگی کی جنگ لڑتا رہا تاہم16 فروری کو وہ، زندگی کی لڑائی ہار گیا۔ امجد اللہ خان خالد نے کہا کہ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ضلع ایس پی روہنی پر یہ درشنی نے اپنے ماتحت عملہ(ایس آئی اور دو کانسٹبلوں) کو کلین چٹ دے دی۔ ایس پی نے ہاسپٹل کا دورہ کرنے جہاں ملزم زیر علاج رہا یا متاثرہ کے افراد خاندان سے ملاقات کرتے ہوئے حقائق معلوم کرنے کو ضروری نہیں سمجھا۔

مقامی رکن اسمبلی پدما دیویندر ریڈی جو مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانے کو اپنا حق سمجھتی ہیں، نے بھی متاثرہ کی عیادت کرنے کیلئے ہاسپٹل جانا گوارا نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے متاثرہ کے افراد خاندان سے ملاقات کی۔ ہمیشہ ٹوئٹر پر سرگرم رہنے والے ریاستی وزیر کے تارک راما راؤ نے اس واقعہ کی اب تک مذمت نہیں کی اور نہ ہی کے ٹی آر نے پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

ترجمان ایم بی ٹی نے اس واقعہ کی سی بی آئی یا ہائی کورٹ کے برسر خدمت جج کے ذریعہ تحقیقات کا مطالبہ کیا اور متاثرہ کے افراد خاندان کو 25 لاکھ روپے معاوضہ کا مطالبہ کیا۔ آئی اے این ایس کے مطابق آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین نے میدک کے مسلم نوجوانوں کو اذیت دینے اور اس پر تشدد کرنے کے الزام میں ملوث پولیس عہدیداروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔

پولیس تشدد کی وجہ سے مسلم نوجوان کی موت ہوگئی۔ 35 سالہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والا مزدور محمد قدیر، جمعہ کے روز پولیس تشدد کے زخموں سے دوران علاج جانبر نہ ہوسکا۔ میدک پولیس نے 29 جنوری کو قدیر کو حیدرآباد میں اس کی بہن کے گھر سے اٹھالیا تھا اور اسے میدک منتقل کیا۔

میدک کے ایک ہاسپٹل میں علاج کے دوران اپنے بیان میں سرقہ کے الزام میں ماخوذ ملزم قدیر خان نے بتایا کہ پولیس نے اسے5دنوں تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا اس دوران پولیس ملازمین نے مجھے شدید زدوکوب کیا جبکہ پہلے سے کہہ رہا تھا کہ وہ بے قصور ہے۔

پولیس عہدیداروں نے بتایا کہ ا س کیس میں ملوث ایک شخص تجھ جیسا دکھائی دے رہا ہے۔پولیس نے 2 فروری کو اس کو چھوڑ دیا۔ شدید تشدد کے سبب وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو حرکت دینے کے بھی موقف میں نہیں تھا۔ پولیس نے اسے ایک سادہ کاغذ پر دستخط کرنے کی ہدایت دی تاہم وہ اپنے ہاتھ میں قلم پکڑنے کے بھی موقف میں نہیں تھا۔

ایک پولیس ملازم نے میرا ہاتھ پکڑا تب میں نے کاغذ پر دستخط کئے۔ قدیر خان نے اپنے بیان میں یہ بات بتائی۔ قدیر نے دوکانسٹبلوں اور ایک ایس آئی کا نام لیا۔ اس نے بتایا کہ ایس آئی نے ایک بار مجھے2 سے تین تھپڑ رسید کئے مگر دونوں کانسٹبلوں نے مجھے مسلسل شدید زدو کوب کرتے رہے، شدید تشدد کی وجہ سے وہ صحیح طور پر کھڑا نہیں ہورہا تھا۔

جب قدیر کی حالت خراب ہونے لگی تو اسے گاندھی ہاسپٹل منتقل کیا گیا۔ گاندھی ہاسپٹل میں ہفتہ کی صبح پوسٹ مارٹم کے بعد لاش کو افراد خاندان کے حوالہ کردیا۔ قدیر کی موت کی اطلاع سے میدک کے مسلمان برہم ہوگئے۔

مسلمانوں کی بڑی تعداد رکن اسمبلی پدما دیویندر ریڈی کے مکان پر جمع ہوگئی اور رکن اسمبلی سے مطالبہ کیا کہ خاطی پولیس ملازمین کے خلاف سخت کاروائی کریں۔ پدما دیویندر نے ایس پی سے اس مسئلہ پر بات کی آخر کار ایس پی نے ایس آئی راج شیکھر اور دونوں کانسٹبلوں پرشانت اور پون کا تبادلہ کردیا۔

مجلس کے رکن اسمبلی کو ثر محی الدین بھی میدک پہنچے۔ انہوں نے تدفین پر تحدیدات عائد کرنے پر پولیس کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے پوچھا کہ آیا قدیر نکسلائٹ یا دہشت گرد تھا؟ انہوں نے ان تین پولیس ملازمین کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔

a3w
a3w