مذہب

شادی کے دعوت نامہ میں والد کے بجائے دوسرے شخص کانام

اگر سیٹھ صاحب نے داعی کی حیثیت سے اپنانام لکھاہے ، نہ کہ والد کی حیثیت سے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ، اگر والد کی حیثیت سے لکھا ہے ،یعنی عبدالرحیم ولد فلاں ، تو اس طرح لکھنادرست نہیں،

سوال:- ایک لڑکے نے اسلام قبول کرلیا ہے ، پہلے اس کانام ستیّا تھا، اب اس کانام عبدالرحیم ہے ، اس لڑکے کی شادی ہوئی تو رقعہ میں والدصاحب کے نام کی جگہ اس کے سیٹھ نے اپنانام لکھ دیا، کیایہ درست ہے اوراس طرح نکاح ہوجائے گا ؟ (راشد انور، حمایت نگر)

جواب:- اگر سیٹھ صاحب نے داعی کی حیثیت سے اپنانام لکھاہے ، نہ کہ والد کی حیثیت سے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ، اگر والد کی حیثیت سے لکھا ہے ،یعنی عبدالرحیم ولد فلاں ، تو اس طرح لکھنادرست نہیں،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولدیت کے معاملہ میں غلط نسبت کی خصوصی طور پر مذمت فرمائی ہے :

عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : من انتسب إلی غیر أبیہ أو تولی غیر موالیہ فعلیہ لعنۃ اللّٰہ و الملائکۃ و الناس أجمعین ( سنن ابن ماجہ : ص : ۱۸۷ ، کتاب الحدود) ،

نیز قرآن مجید میں بھی اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے ؛ چنانچہ ارشاد ہے : أدعوھم لاٰبائھم ھو اقسط عند اللّٰہ ( الاحزاب : ۵ )؛

البتہ ایسے مواقع پر ازراہ ’’توریہ‘‘ والدکے نام کی جگہ ’’عبداللہ ‘‘ لکھا جاسکتاہے ؛کیونکہ ہر شخص اللہ کابندہ ہے اور بعض اوقات ولدیت میں غیر مسلم کانام دیکھ کر لوگوں کے ذہن میں تحقیرپیداہوتی ہے ،

جب خود اس شخص کانام درست تھااوروہ خود بھی محفل عقد اور لوگوں کے دلوں میں متعین تھاتونکاح درست ہوگیا۔

a3w
a3w