حیدرآباد
ٹرینڈنگ

جمعہ میں مکہ مسجد کے لاؤڈ اسپیکر س کی مسدودی سے عوام میں بے چینی، پولیس کی ایماء پر تار کاٹ دیئے جانے کا ادعا

کچھ پولیس اہلکار‘ تلنگانہ کو اترپردیش اور حیدرآباد کو لکھنؤسمجھ بیٹھے ہیں اور فرقہ وارانہ خطوط پر وہاں جو کچھ کیا جارہا ہے اس کو یہاں ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے یہ حکومت کی پالیسی کی پروا کئے بغیر اقدامات کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

حیدرآباد: کچھ پولیس اہلکار‘ تلنگانہ کو اترپردیش اور حیدرآباد کو لکھنؤسمجھ بیٹھے ہیں اور فرقہ وارانہ خطوط پر وہاں جو کچھ کیا جارہا ہے اس کو یہاں ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے یہ حکومت کی پالیسی کی پروا کئے بغیر اقدامات کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

ایسی ہی ذہنیت کے حامل پولیس والوں نے حکومت کے اعلیٰ حکام کے علم میں لائے بغیر مکہ مسجد کے انتظامیہ پر دباؤ ڈالتے ہوئے آج نماز جمعہ میں خارجی اسپیکرس کو بند کروادیا تھا جس کے باعث مصلیان مکہ مسجد اور مکہ مسجد کے اطراف کاروبار کرنے والے حیرت میں پڑگئے اور مکہ مسجد کے لاؤڈاسپیکرس کو بند کردئیے جانے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔

درحقیقت گزشتہ تین ہفتوں سے مقامی پولیس‘مکہ مسجد انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ خارجی اسپیکرس کا استعمال بند کردیا جائے۔ ہر جمعہ چارمینار پولیس اسٹیشن سے وابستہ کارندے مکہ مسجد پہنچ کر اسپیکرس کو بند کردینے کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے‘ حتیٰ کہ وہ مکہ مسجد کی سیکیوریٹی کے عملہ سے بھی یہ کام کروانا چاہتے تھے۔

پولیس انسپکٹر نے سپرنٹنڈنٹ مکہ مسجد جناب محمد عبدالقدیر صدیقی کو بتایا تھا کہ ڈی سی پی ساؤتھ زون نے ہدایت دی ہے کہ مکہ مسجد کے خارجی اسپیکر کو بند کروادیا جائے۔ایک متعلقہ انسپکٹر نے آج بہ ذات خود مکہ مسجد کا دورہ کرکے اس بات کی طمانیت حاصل کی کہ اسپیکرس بند کردئیے گئے ہیں یا نہیں اور وہ کچھ دیر سپرنٹنڈنٹ سے بات کرکے واپس لوٹ گئے۔

بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ جمعہ کو ہی پولیس کے دباؤ کے نتیجہ میں خارجی اسپیکر سے تاروں کو کاٹ دیا گیا تھا مگر یہ بات عام نہیں ہوئی تھی مگر آج جب مصلیوں اور لوگوں نے یہ دیکھا کہ مکہ مسجد کے خارجی اسپیکرس کام نہیں کررہے ہیں تو انہیں تعجب ہوا اور کچھ ہی دیر میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ پولیس نے مکہ مسجدکے اسپیکر بند کروادئیے ہیں۔

معلوم ہوا ہے کہ عوام کے شدید ردعمل کو دیکھتے ہوئے ایک رکن پارلیمنٹ نے اسپیشل سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود مسٹر تفسیر اقبال سے بات کرتے ہوئے مکہ مسجد کے لاؤڈاسپیکرس کی مسدودی پر اپنی برہمی کا اظہار کیا جس پر تفسیر اقبال نے مکہ مسجد کے سپرنٹنڈنٹ سے تمام آگہی حاصل کی۔ اسی اثناء میں گھانسی بازار ڈیویژن کے مجلسی قائد ساحل اکبر نے مکہ مسجد پہنچ کر علیحدہ کردہ تاروں کو پھر سے جوڑنے لگایا۔

مکہ مسجد کے اسپیکروں کو بند کردئیے جانے کی تفصیل جب سوشل میڈیا پر یہ بات عام ہوگئی تو پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں تک یہ بات پہنچ گئی اور وہ اس معاملہ کی حساسیت کا لحاظ کرتے ہوئے فوری حرکت میں آگئے اور متعلقہ پولیس ملازمین سے تمام واقعہ کی تفصیلات حاصل کیں‘ جس کے نتیجہ میں ساؤتھ زون پولیس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مکہ مسجد کے اسپیکرس بند کروانے میں پولیس کا کوئی رول نہیں ہے۔

اس خصوص میں ڈی سی پی ساوتھ زون اسنیہا مہرا نے وضاحت کی کہ انہوں نے اس ضمن میں نہ ہی تحریری اور نہ ہی زبانی احکام جاری کئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس کی جانچ کررہی ہیں۔انہیں جیسے ہی اس معاملہ کا علم ہوا‘ انہوں نے ضروری ہدایت دی۔ انہوں نے بتایا کہ صورت حال کا نوٹ لیا اور اندرون ایک گھنٹہ معاملہ کی یکسوئی کردی گئی ہے۔

انہوں نے یہ وضاحت کی کہ پولیس نے مکہ مسجد سپرنٹنڈنٹ پر اس خصوص میں کوئی دباؤ نہیں ڈالا اور اس بات پر زور دیا کہ جوں کا توں مؤقف برقرار رہے گا۔اس واقعہ کی نہ صرف پولیس کی جانب سے تردید کی جارہی ہے اور خود ڈسٹرکٹ مائناریٹی ویلفیر آفیسر مسٹر محمد الیاس نے بھی یہ وضاحت کی کہ یہ بات گشت کررہی ہے کہ مکہ مسجد کے اسپیکرس ہٹادئیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا ”اسپیشل سکریٹری اقلیتی بہبود تفسیر اقبال کی ہدایت پر میں نے خود مکہ مسجد کا دورہ کیا ہوں اورایسا کچھ نہیں ہے‘ لاؤڈ اسپیکرس کام کررہے ہیں۔“ انہوں نے کہا کہ اسپیکرس نکال دئیے جانے کی تردید کرتے ہوئے افواہ پر دھیان نہ دینے کی اپیل کی ہے۔

اس واقعہ سے حکومت کی رسوائی اور بدنامی اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی کو دیکھتے ہوئے سبکی (خفت) مٹانے کی کوشش میں اسپیکرس بند کردئیے جانے سے ہی انکار کیا جارہا ہے اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کبھی اسپیکرس کے تار کاٹے ہی نہیں گئے جب کہ اس کے شواہد موجود ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈی سی پی کی ہدایت کے بغیر کیا انسپکٹر پولیس ان کا نام لے کر مکہ مسجد کے اسپیکرس ہٹادینے پر مجبور کرسکتا ہے؟ اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے والے عہدیداروں کے خلاف سخت تادیبی کرنے کی بجائے پولیس اور محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیدار واقعہ کو ہی جھٹلانے کی کوشش کررہے ہیں شائد اس لئے بھی کہ اس معاملہ میں قصور وار کوئی اور نہیں بلکہ خود پولیس ہے اور اتفاق سے محکمہ اقلیتی بہبود کے اسپیشل سکریٹری بھی ایک آئی پی ایس عہدیدار ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ بدنامی کا باعث بننے والے عہدیداروں کی پردہ پوشی کی بجائے ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے اور ایک اعلیٰ سطحی تحقیقیاتی کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے پائے۔

a3w
a3w