جنوبی بھارت

پارلیمانی حلقوں کی تنظیم جدید جنوبی ہند کی ریاستوں کیلئے نقصان دہ

پارلیمانی حلقوں کی تنظیم جدید جنوبی ہند کی ریاستوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ لوک سبھا کے حلقوں کی تعداد میں زبردست کمی آنے کا امکان ہے اور شمالی ہند کی ریاستوں کے حلقوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا۔

حیدرآباد: پارلیمانی حلقوں کی تنظیم جدید جنوبی ہند کی ریاستوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ لوک سبھا کے حلقوں کی تعداد میں زبردست کمی آنے کا امکان ہے اور شمالی ہند کی ریاستوں کے حلقوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا۔

متعلقہ خبریں
حلقوں کی حدبندی آئینی عمل: کشن ریڈی
حیدرآباد دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت نہیں رہا
پٹاخے کی فیکٹری میں دھماکہ سے 11 مزدوروں کی موت، پانچ زخمی
1969 کی تحریک میں طلبہ پر کس نے گولی چلانے کی ہدایت دی؟ کے ٹی آر کا سوال
ماہ صیام کا آغاز، مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اعلان

جس کی وجہ سے جنوبی ریاستیں آبادی کی بنیاد پر تنظیم جدید نہیں کرنا چاہتی  ہیں۔ تمل ناڈو کے چیف منسٹر اور صدر ڈی ایم کے اسٹالن نے تشویش ظاہر کی ہے کہ حلقوں کی نئے سرے سے حد بندی کی چھری جنوبی ریاستوں کی اہمیت ختم کر دے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیشہ ایمانداری کا نتیجہ اچھا رہتا ہے مگر ہم نے چونکہ آبادی کنٹرول کیلئے دیانتداری سے عمل کیا اس کا نتیجہ ہے کے آج ہم پر حلقے کم ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ آبادی کی بنیاد پر پارلیمانی حلقوں کی دوبارہ حد بندی کا اصول با شعور جنوبی ریاستوں کے سیاسی غلبہ پر سوالیہ نشان بن جائے گی۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے گزشتہ بدھ کو لوک سبھا میں کہا کہ خواتین تحفظات بل کی منظوری کے بعد ہونے والی پہلی مردم شماری کے بعد پارلیمانی حلقوں کی دوبارہ حد بندی کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی حلقوں کی ازسر نو حد  بندیوں کا معاملہ ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا ہے۔

کئی مطالعات پہلے ہی یہ ثابت کر چکے ہیں کہ اگر آبادی کو بنیاد بنایا گیا تو جنوبی ریاستوں میں لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد کم ہونے کا خطرہ ہے۔ حال ہی میں کارنیج اینڈومنٹ  نامی ایک  ادارے نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ واشنگٹن سے کام کرنے والی اس تنظیم نے جنوبی ریاستوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو اجاگر کیا۔

موجودہ پارلیمانی سیٹوں کیلئے 1971 کی مردم شماری کی بنیاد بنایاگیا ہے جس کے مطابق تلنگانہ میں 17 اور آندھرا پردیش میں 25 لوک سبھا حلقے ہیں۔ 2026 تک ان دونوں ریاستوں کی آبادی اس وقت کے مقابلے میں کافی کم ہو جائے گی۔ اس تنظیم جدید کی وجہ سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ دونوں ریاستوں کو کم از کم سات سے آٹھ نشستوں کا نقصان ہوگا۔

اس وقت ان دونوں ریاستوں میں لوک سبھا کی کل 42 نشتیں ہیں، لیکن نئی تقسیم کے بعد ان کی تعداد گھٹ کر 34 رہ جائے گی۔ اگر اکیلے تلنگانہ کی بات آتی ہے تو تین چار سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ 2011 کی مردم شماری پر غور کرنے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں تلگو ریاستوں میں لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد کم ہو کر 37 ہو سکتی ہے۔ اگر ہم 2026 کی مردم شماری کو بنیاد کے طور پر لیں تو یہ تعداد 34 رہ جائے گی۔

اگر ہم تمام جنوبی ریاستوں کا جائزہ  لیں تو اس تنظیم جدید سے ان کی نمائندگی بری طرح متاثر ہو  گی۔ تلنگانہ، آندھرا پردیش، تمل ناڈو، کیرالہ اور کرناٹک کی ریاستوں میں اس وقت لوک سبھا کی نشستوں کی جملہ تعداد 129ہے۔ کارنیج اینڈومنٹ نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تازہ ترین حدبندی میں یہ تعداد گھٹ کر 103  ہو جائے گی۔ اسی طرح شمالی ریاستوں اتر پردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان اور بہار میں لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوگا۔

اس وقت ان چار ریاستوں میں لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد 174 ہے اور دوبارہ حدبندی سے  ان کی تعداد 204 تک پہنچ جائے گی۔ اس نئی حدبندی کی وجہ سے ریاست مغربی بنگال اور اڈیشہ کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ تقریباً تمام شمالی ریاستوں میں لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور جنوبی ریاستوں میں کمی آئے گی۔

جس سے پارلیمنٹ میں جنوبی ریاستوں کا اثر کم ہونا یقینی ہے۔ اسی لئے جنوبی ریاستوں کا مطالبہ ہے کہ حلقوں کی دوبارہ حد بندی کے لیے آبادی کو بنیاد کے طور پر نہ لیا جائے۔ تاہم یہ ایسا  پہلی بار نہیں ہے کہ جنوبی ریاستوں نے اس مسئلہ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بی آر ایس کے صدراور تلنگانہ کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ  اور وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ٹی آر نے کئی مواقع پر اس مسئلہ پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

کے ٹی آر نے کہا کہ ترقی یافتہ جنوبی ریاستیں پارلیمانی سیٹیں کھودیں گی جبکہ جنوبی ریاستیں نہ صرف آبادی کو کنٹرول کرنے میں بلکہ انسانی ترقی کے اشاریوں میں بھی سرفہرست ہیں۔ کے ٹی آر نے ایک پہلے موقع پر کہا تھا کہ جنوبی ریاستیں جو ملک کی آبادی کا صرف 18 فیصد حصہ ہے، وہ جی ڈی پی میں 35 فیصد حصہ ادا کرتی ہیں۔ جہاں جنوبی ریاستیں آبادی پر قابو پانے کامیاب رہی ہیں وہیں سیاسی سطح پر شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.وہیں جنوبی ریاستوں کے رہنما یہ شکایت کر رہے ہیں کہ شمالی ریاستیں  آبادی میں اضافہ کے مسئلہ پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں، آبادی میں زبردست اضافہ کی وجہ سے مختلف مسائل سے دوچار ہیں۔

اسی لئے جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے قائدین بار بار کہہ رہے ہیں کہ حلقوں کی دوبارہ حد بندیوں کیلئے صرف آبادی کو بنیاد کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے۔ اسی سلسلہ میں اسٹالن نے  وزیر اعظم مودی نے مطالبہ کیا ہے کہ کے حلقوں کی دوبارہ تقسیم میں جنوبی ریاستوں کو کوئی نقصان نہیں ہونہ چاہیے۔

واضح رہے کہ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کچھ عرصے سے اسمبلی حلقوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا شدت سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ مطالبہ ریاست کی تقسیم کے وقت سے ہی کیا جا رہا ہے۔ اور آندھرا پردیش تنظیم جدید ایکٹ میں وعدہ کیا گیا تھا کہ تلنگانہ میں موجودہ 119 اسمبلی سیٹوں کو بڑھا کر 153 اور اے پی 175 اسمبلی سیٹوں کو بڑھا کر 225 کر دیا جائے گا۔

a3w
a3w