مضامین

افسوس کہ یہ دنیا اسے بھول رہی ہے،شمس جالنوی کی یاد میں

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی زندگی خود اک داستان ہوتی ہے, ایسی داستان جس کے نشیب و فراز سب کے لئے یادگار چھوڑدیتے ہیں۔ایسی یادگار جو قدردانوں کے لئے اک سرمایہ ہوتا ہے۔

مجتبیٰ نجم

کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی زندگی خود اک داستان ہوتی ہے, ایسی داستان جس کے نشیب و فراز سب کے لئے یادگار چھوڑدیتے ہیں۔ایسی یادگار جو قدردانوں کے لئے اک سرمایہ ہوتا ہے۔ ایسا سرمایہ جس کا کوئی مول نہیں, جو بے نظیر اور غیر متوازی ہوتا ہے۔ زندہ رہتے ہوئے تو لوگ اس کی خوبیوں سے محظوظ ہوتے ہی ہیں لیکن افسوس کہ دائمی جدائی کے بعد ہم بڑی آسانی سے اسے بھول دیتے ہیں۔ زندگی کی بھاگ دوڑ میں آہستہ آہستہ ہمیں کچھ یاد بھی نہیں رہتا۔

اردو زبان و ادب کا ایسا ہی اک انمول سرمایہ جس نے صرف سرزمینِ دکن ہی نہیں بلکہ ملک کے گوشہ گوشہ میں اپنے کلام اور اندازِ استحضار سے کروڑوں افراد کے دلوں کو جیت لیا تھا, اک قلندر صفت, سادگی و عاجزی کا پیکر, اپنی زبان کا ایمانداری سے حق ادا کرنے والا علاقہ جالنہ کے متوطن اک نابغہ روزگار شاعر شمس جالنوی۔۔۔۔ زندگی بھر زبان و ادب کی سچی اور عملی خدمت کرنے والا یہ شاعر آج سے تین سال قبل یعنی 21 جولائی کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ آج بھی انھیں مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین

شمس صاحب نے عمر بھر کبھی کسی ایوارڈ, تعریف, اور شہرت کی خواہش نہیں کی۔ اور ایسا کرنے والوں کو کبھی پسند بھی نہیں فرمایا۔ انھوں نے اردو کو صرف لائبریری تک محدود نہیں رکھا۔ بلکہ کڑاکے کی سردی ہو, موسلادھار بارش ہو یا چلچلاتی دھوپ۔ ہر حالت میں بس اسٹینڈ سے روز صبح اخبار کے پارسل اتار کر خود اپنی پرانی سائیکل پر اخبار تقسیم کرتے تھے — یعنی— اردو کو گھر گھر پہنچاتے تھے۔ میری آنکھوں نے انھیں ان کی عمر کے 94 ویں سال میں بھی اخبار تقسیم کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ اردو کی عملی خدمت کی سب سے بہترین مثال ہے۔

شمس صاحب اک زندہ جاوید شاعر تھے۔ اک ایسا شاعر جس کے اشعار کے ہر مصرعہ سے احساس خود گویا ہوتا تھا۔ رشتوں کی تعمیر و تخریب, اقدار کی سسکیاں, انسانی فکر کے زیر و بم, رِیا اور انا کے فتنوں کی چیخیں سب کچھ ان کے کلام میں عیاں تھا۔ ان کا کلام سامعین پر ترنم کی وجہہ سے کم, خیال کے بانکپن کی وجہہ سے زیادہ اثر کرتا تھا۔ ورنہ ہم تو آئے دن درجنوں مترنم شعراء کو سنتے ہیں لیکن وہ کچھ دیر تک ہی اثر چھوڑتے ہیں۔ شمس صاحب کا ترنم اور فکر دونوں مسحور کن تھے۔

”زرد زرد چہرے ہیں ” یہ کلام شمس صاحب کی شناخت بن گیا تھا۔ ادبی محفل میں شمس صاحب ہوں اور یہ کلام پیش نہ ہو, تو وہ محفل ادھوری مانی جاتی تھی۔

شمس صاحب کے ساتھ متعدد ادبی محفلوں میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ جب بھی ذہنی مایوسی اور بیزارگی کا احساس ہوتا, تخلیقی کاوش میں کوئی فنّی دشواری پیش آتی, میں فوری شمس صاحب سے ملنے جالنہ چلا جاتا۔ کئی گھنٹوں کی ملاقات میں کافی سیکھنے کو ملتا۔ مرحوم عاجزی وانکساری کے پیکر تھے۔ کبھی بھی اپنی فوقیت جتانے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ مجھے ہمیشہ بڑے پیار سے ادبی باتیں سکھاتے۔ انکسار کا یہ عالم تھا کہ جب پتہ ہوتا کہ میں اس بس سے آرہا ہوں تو بس سے اترتے وقت دیکھتا ہوں تو حضرت موجود رہتے۔ ”اور میاں, سفر اچھا رہا نا۔ کتنے بجے نکلے تھے وہاں سے؟” پھر چائے نوشی کے بعد گھنٹوں ادبی گفتگو ہوتی۔

آج —- شمس صاحب کو دنیا سے رخصت ہوئے تین سال ہوگئے۔ افسوس کہ کسی کو کوئی احساس نہیں۔ اگر کوئی سیاسی لیڈر یا صاحب ثروت ہوتا تو اس کی یوم پیدایش یا وفات پر ہم ”وفاداری” جتانے کے لئے اخباروں کے صفحات رنگ دیتے۔ سیمینار وغیرہ منعقد کرکے واہ واہی لوٹی جاتی۔ اور نہ جانے کیا کچھ کیا جاتا۔ لیکن شمس صاحب سے منسوب اردو دنیا میں کوئی سمینار نہیں, ان کی خدمات پر روشنی نہیں۔ آج کا دن چھوڑئیے۔ عام دنوں میں بھی کچھ نہیں ہوا۔ کیا اردو صرف لائبریریوں اور اداروں میں ہی مقید رہے گی؟ کیا ہم اس عظیم شخصیت کو بڑی آسانی سے بھول جائیں گے؟ کیا ہماری دلی خواہش ہے کہ ہماری نسل اس شخصیت کا نام بھی یاد نہ رکھے؟

اللہ ہمیں اپنے اسلاف اور بزرگوں کی قدر دانی کی توفیق نصیب فرماے۔ آمین

a3w
a3w