مضامین

سعودی عرب کے روایتی پہناوے

روایتی طورپر ،سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں مختلف لباس ہوتے ہیں۔ بہت سی خواتین عام طورپر عبایا پہنتی ہیں، ایک لمبی کالی چادر جوعوام میں ہاتھ اور چہرے کے علاوہ باقی سب کوڈھانپتی ہے۔

غلام زہرا

روایتی طورپر ،سعودی عرب کے مختلف علاقوں میں مختلف لباس ہوتے ہیں۔ بہت سی خواتین عام طورپر عبایا پہنتی ہیں، ایک لمبی کالی چادر جوعوام میں ہاتھ اور چہرے کے علاوہ باقی سب کوڈھانپتی ہے۔ کچھ سعودی خواتین پورے چہرے کا نقاب پہنتی ہیں، جیسے کہ نقاب یابرقع ۔خواتین کے کپڑوں کواکثر قبائلی شکلوں، سکے، سیکوئن ،دھاتی دھاگے اور ایپلکس سے سجایا جاتا ہے۔ سعودی عرب نے حال ہی میں خواتین کے ضابطہ لباس میں نرمی کی ہے۔ سعودی عرب میں خواتین کے علاقائی ملبوسات میں ثقافتی تنوع اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انسان اپنے ماحول اورطرززندگی سے کس قدر متاثر ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے ہرعلاقے کے جغرافیائی تنوع اورموسمی اختلاف کے باعث ملبوسات میں بھی تنوع پایا جاتا ہے۔ اسی اختلاف نے سعودی خواتین میں ملبوسات کی پسند پراپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں جو پہلے سے ہی نفاست اورزیب وزینت کی طرف مائل رہی ہیں۔

خواتین کے ملبوسات میں کڑھائی اورموتی کا کام سعودی عرب کے بعض علاقوں میں بطور خاص نمایاں ہوا ہے۔ ایک تواس کی وجہ علاقوں کا جغرافیائی اختلاف ہے اوردوسرا ثقافتی تنوع کا بھی اثر تھا۔ پہلی نظر میں توتمام علاقوں کے ملبوسات ایک جیسے ہی لگتے ہیں مگرحقیقت میں ان میں بڑا فرق ہے، جبکہ ان ملبوسات کودیگر خلیجی ممالک کے مقابلے میں دیکھا جائے تو واضح فرق نظرآئے گا۔

سعودی فیشن ماہرین کے مطابق پہاڑی علاقوں میں رہنے والی خواتین کے ملبوسات مختلف ہیں، جبکہ ساحل پہاڑی علاقے کے ملبوسات اورحجاز میں رہنے والی خواتین کے ملبوسات ان سے بالکل مختلف منفرد ہیں۔ اسی طرح میدانی ساحلی علاقوں میں رہنے والی خواتین جیسے مشرقی ریجن کا علاقہ ہے وہاں کی خواتین کے ملبوسات منفرد اور نمایاں ہیں۔ جبکہ ان کے ملبوسات خلیجی ریاستوں کے ملبوسات سے زیادہ قریب ہیں۔ اسی طرح حائل کے علاقے کی خواتین کے ملبوسات میںنجداور عرب کے شمالی علاقوں کا رنگ نظرآئے گا۔ اسی اختلاف اورتنوع کی وجہ سے سعودی عرب میں خواتین کے علاقائی ملبوسات ثقافتی طورپر بہت مالا مال ہیں۔

نجد کے علاقے کودیکھیں توجغرافیائی طورپر یہ حائل کے علاقے کا پھیلاؤ معلوم ہوتا ہے، جبکہ اس مشرقی ریجن سے بھی گہرا تعلق ہے۔ ان تینوں علاقوں کے ملبوسات کا طرز ایک جیسا ہے جیسے کہ ملبوسات کے اوپر پہنے جانے والی زینت ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ نجداور حائل میں ایک لباس بہت معروف ہے جسے النثل یا الصحاب کہا جاتا ہے، یہ خاصہ طویل ہوتا ہے اور اس کی دم زمین میں گھسیٹ رہی ہوتی ہے، یہ لباس دونوں علاقوں میں ایک جیسا ہے بلکہ رنگوں میں بھی کوئی فرق نہیں۔ یہ لباس گھر سے باہر جانے کے لیے پہنا جاتا ہے، اس کے دوپلوہوتے ہیں۔ اس کا گلہ گول ہوتا ہے ۔ اس کے اندرونی حصے کوکرتہ یا وراعہ کہا جاتا ہے جبکہ اس کی شلوار بھی بہت کھلی اورکشادہ ہوتی ہے۔

شمالی علاقوں میں خواتین کے ملبوسات کی اپنی پہچان اوررنگ ہے۔ یہاں زیادہ پسند کئے جانے والے لباس کوجبہ اورزبون کہا جاتا ہے۔ یہ دوحصوں پرمشتمل لباس ہے جوعام طورپر باہر نکلنے کے لیے پہناجاتاہے۔ اس کے دوسرے حصے کو مرد ونہ کہتے ہیں اوریہ اوڑھاجاتا ہے اور اس کی لمبائی ٹانگوں تک ہوتی ہے۔ دیکھنے میں یہ جزیرہ عرب کے شمال میں واقع عرب علاقوں کے لباس کے زیادہ قریب ہے۔ شاید حائل کے علاقے کے لوگ شمالی علاقوں کے ملبوسات سے متاثر ہیں یا ثقافتی میل جول کا اثر ہوگا۔

سعودی فیشن ماہرین کے مطابق حائل کا ہی ایک لباس ہے جسے تشول کہا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی عورت کی لمبائی سے دوگنازیادہ ہوتی ہے۔ اس کا پلو عورت کی کمرسے لپیٹا جاتا ہے تاکہ بیلٹ کی طرح نظرآئے ۔ لپیٹنے کے بعد اس کی لمبائی عورت کی لمبائی کے برابر کردی جاتی ہے۔

اسی طرح الزبون نامی لباس ہے جوباہر نکلنے کے لیے پہناجاتا ہے، اس پر کسی طرح کا کوئی کام نہیں ہوتا، یہ بالکل سادہ ہوتا ہے۔ اس کے اندر زیرجامہ کے طورپر جبہ نامی لباس پہنا جاتا ہے۔ جبکہ مقطع اورکرتہ نامی لباس اہل نجد کے لباس کی طرح ہے۔ اسی طرح سرپر باندھنے اور منہ ڈھانپنے کے لیے مندیل اوڑھا جاتا ہے۔ یہ مستطیل شکل کا ہے اورکالے ریشم سے تیار ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی دومیٹراورچوڑھائی آدھا میٹر ہوتی ہے اور سرپررکھ کراوڑھاجاتا ہے جبکہ اس کی دونوں پلودھاری دارہوتے ہیں۔ جنوبی علاقے میں دوطرح کے لباس شہرت رکھتے ہیں۔ ایک قسم کا لباس عموماً گھرمیں پہناجاتا ہے جسے بصمہ کہا جاتا ہے جبکہ دوسرا باہر نکلنے کے لیے یاسماجی تقریبات کے لیے پہنا جاتا ہے جسے مشغول کہا جاتا ہے۔

سرپر باندھنے یامنہ چھپانے کے لیے بھی دوطرح کے دوپٹے ہیں، ایک ان لڑکیوں کے لیے جن کی شادی نہیں ہوئی، اسے مندیل کہاجاتا ہے جبکہ دوسرا شادی شدہ عورتوں کے لیے ہے ،جسے شیلہ کہا جاتا ہے۔ شیلہ پردستکاری اورکڑھائی کی جاتی ہے اور یہ رنگ برنگی ہوتا ہے، جبکہ حجاز کی طرح اس میں موتی نہیں لگے جاتے، جازان اور نجران میں خواتین کے ملبوسات دیگر شہروں کے ملبوسات سے بہت منفرد ہیں کیونکہ یہ رنگ برنگی ہوتے ہیں اور عام طورکپڑا موٹا ہوتا ہے۔

ان میں صدرہ اور الوڑرہ نامی ملبوسات بہت مشہورہیں جبکہ سرپر اوڑھا جانے والا مندیل بھی اپنے رنگوں کی وجہ سے بہت منفرد ہے۔ حجاز کے رہائشیوں کا لباس اپنی پہچان رکھتا ہے جن کے لباس میں کڑھائی اور موتی کا کام بہت ہوتا ہے ۔ حجاز میں خواتین کا لباس تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ ہوازن قبیلے کے ملبوسات نجد کے ملبوسات کے قریب ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں اس کے علاوہ اوربھی بہت سے ملبوسات ہیں بلکہ ہر علاقے اورہرقبیلے کی اپنی پہچان ہے۔

سعودی عرب میں روایتی ملبوسات ڈیزائن کرنے کی ماہر منیرہ الربیعہ کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ روایتی ،لوک اورقدیم ملبوسات کے ڈیزائنز کوآپس میں گڈمڈکرتے ہیں، مگر روایتی اورلوک ملبوسات میں فرق نمایاں ہے۔ ان ملبوسات میں زمان ومکان کے اعتبار سے فرق موجود ہے۔

روایتی پہناوے وہ ہیں جوایک مخصوص علاقے میں ایک زمانے میں پہنے جاتے رہے ہیں۔ یہ ملبوسات اس خطے کی شناخت اورپہچان بن گئے۔ اب انہیں قومی دنوں پرپہنا جاتا ہے کیونکہ یہ ملبوسات قومی تشخص کی علامت یا ایک علاقے کی پہچان بن چکے ہیں۔ مثال کے طورپر سعودی خواتین سعودی قومی ورثے کا روایتی لباس پہنتی ہیں جب کہ مصری عورتیں روایتی مصری لباس پہنتی ہیں۔ لوک لباس کئی تہذیبوں اورمقامات سے مستعار لیے گئے لباس کا ایک مجموعہ ہے۔ یہ مصری یا یمنی ورثے سے متاثر ایک عوامی لباس ہوسکتا ہے، لیکن یہ خطے کی شناخت کی نمائندگی نہیں کرتا، کیونکہ یہ ایک شاخ ہے اوراصل نہیں ہے۔

منیرہ الربیعہ نے کہا کہ لوک لباس کوئی مخصوص شناخت نہیں بناتے ہیں اوروہ اکثر بعض ممالک کے روایتی لباس سے مستعار لیے جاتے ہیں۔ مثال کے طورپر جب ایک غیر اماراتی عورت اماراتی برقع پہنتی ہے اورکوئی غیر مصری خاتون مصری لباس پہنتی ہے۔

یہ عوامی لباس ہوتا ہے جسے ورثے کی علامت لباس نہیں سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ اسے پہننے والے کے لیے قومی شناخت کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اسی طرح مذہبی مواقع پرپہناجانے والا لباس جیسے کہ ماہ رمضان یاجسے عوامی مناسبت کہا جاتا ہے یاخواتین کے لیے مختص تقریبات میں جو لباس پہنا جاتا ہے، اسے ورثے کی نمائندگی کرنے والا لباس نہیں قراردیاجاتا ۔ جبکہ قدیم کپڑے ایسے ملبوسات ہیں جوآثارقدیمہ کی ڈرائنگ کے علاوہ موجود نہیں ہیں، جیسے پتھر، غاروں ،یا کاغذات، یا کتابوں میں بیان کیے گئے ہیں، لیکن اب موجود نہیں ہیں اوراب پہنا نہیں جاتا ہے۔ یہ کپڑے اب کوئی نہیں پہنتا، وقت کے ساتھ متروک اور غائب ہوگئے۔ اب وہ ماضی کا حصہ ہیں اور ان کی کوئی شناخت نہیں رہی ہے۔ بہت سی دکانیں جن پر روایتی کپڑے بیچے جاتے ہیں، وہ عوامی ملبوسات فروخت کرتی ہیں نہ کہ روایتی کپڑے… اس لیے بہتر ہے کہ انہیں لوگ ’’لوک کپڑے‘‘ قراردیں کیونکہ وہ عوامی نمائندگی توکرتے ہیں مگرکسی مخصوص قومی شناخت کی نمائندگی نہیں کرتے۔

فیشن کے متعارف ہونے میں حیرت انگیزطورپر ماحولیاتی اورسماجی قیمت پرادا کرنا پڑتی ہے اس لیے جیسے جیسے شعور بڑھ رہا ہے تومختلف برانڈز بھی پائیدار فیشن بنانے کی طرف بڑھ رہے ہیں جو صنعت کے ماحولیاتی اثرات کوکم کرے گا۔ عرب نیوز کے مطابق پائیدار فیشن کواپنانے اورلاگوکرنے کے لیے جرات مندانہ اقدامات کرتے ہوئے سعودی برانڈگلیمنگ سسٹرز نے اخلاقی فیشن اور اس کی تیاری کوفروغ دینے کے لیے اپنی ماحول دوست سٹریٹ ویئرلائن کا آغاز کیا ۔ چار بہنوں اورایک بھائی کے ذریعے قائم کردہ آن لائن برانڈکا مقصد ماحول دوست عصری لباس تیارکرنا ہے، جو مملکت کے فیشن کلچرکومتاثر کرے گا اور گاہکوں کوآرام دہ احساس دے گا۔ اسے سعودی وژن 2030کے مطابق بنایا گیا ہے تاکہ کاروباری افراد کی مملکت کی معیشت اور معاشرے کو متنوع بنانے میں مدد ہو۔

گلیمنگ سسٹرزکی بانی فادیہمنکی کے مطابق ہمارے فیبرک گننگ سکرپیس کو100 فیصد، ری سائیکل کیاجاتا ہے اوراسے نئی مصنوعات میں استعمال کیا جاتا ہے اورہماری مصنوعات کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی توانائی کا 33فیصد قابل تجدید وسائل سے آتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ مختلف لوگوں کی طرف سے تعاون مستقبل میں ایک بڑا مثبت اثر ڈالے گا۔ ہم ماحولیاتی کارکردگی کوبہتر بنانے کے لیے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے پائیدار مواد کے استعمال پرتوجہ مرکوز کرتے ہیں، جیسا کہ پلاسٹک کی بوتلوں سے تیارکردہ آرگینگ کاٹن اورری سائیکلڈپولیٹسر ،اگرچہ ہمارا سب سے بڑا چیلنج سعودی عرب میں ری سائیکلنگ فیکٹری تلاش کرنا تھا جس کے لیے ہمیں یورپ کی فیکٹریوں کے ساتھ تعاون کرنا پڑا جوآرگینک نیزری سائیکلڈشدہ اعلی ،معیار کے کپڑے تیار کرتی ہیں۔

فادیہ منکی کے جدید شہری سٹریٹ ویئرفیشن ڈیزائن دو تصورات پرمبنی ہیں۔ سب سے پہلے یہ مملکت کی ثقافت اورمعاشرے سے متاثر ہے اور دوسرا جب پہنا جاتا ہے تومثبت اورخوشگوار ماحول پیدا ہوتا ہے۔ ہمارا مقصد سمجھدار صارفین کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور صارفین کوایک پائیدار ماحول کی اہمیت اورآنے والی نسل کے لیے اپنی فطرت کوبچانے کے طریقوں کوسمجھنے میں مددکرنا ہے۔ گلیمنگسسٹرکے لیے خام مال بیرون ملک سے منگوایا جاتا ہے لیکن بانی مملکت کی ٹوٹل ویلیوایڈپروگرام اور مقامی کاروبار کوسپورٹ کرنے کے لیے اپنے برانڈکو100فیصد میڈان سعودی بنانا چاہتے ہیں۔ فادیہ منکی نے مزید کہاکہ مستقبل میں سعودی عرب میں ایک ری سائیکلنگ فیکٹری بنانے کا منصوبہ ہے جس میں صفرکاربن کے اخراج کے ساتھ اعلیٰ معیاری ماحول دوست کپڑے تیارکیے جائیں گے۔ سعودی عرب خود کوکاروباری افراد ،ڈیزائنرز اور مقامی برانڈز کے بڑھتے ہوئے مرکز کے طورپر کھڑا کررہا ہے اورمملکت پائیدار فیشن کے قیام ،فروغ اورمقامی ٹیلنٹ کوزیادہ سے زیادہ کرنے کے طریقے لے کرآرہی ہے
٭٭٭

a3w
a3w