مذہب

سمجھنا ہے بہت مشکل مقامِ اولیاء اللہ

ولی اللہ یا اولیاء اللہ، اللہ جل مجدہ کے مقبول بندوں کوکہتے ہیں۔جن کودنیا و آخرت میں کسی قسم کاخوف و غم نہیں ہوتا۔ حق تعالیٰ کی محبت، اطاعت، خوف و خشیت نے انہیں ہرطرح کے خوف و غم سے بے نیاز کردیا ہے۔ ا

مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی وجیہؔ نظا می نقشبندی

خلاق کون و مکاں نے اپنی تخلیقات میں انسان کو اشرف کے تاج سے نوازا۔ اسے بے شمار و بے مثال نعمتیں عطاکی گئیں۔ اسلامی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ خالق کائنات نے مخلوق کی رہنمائی کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے انبیاء کرام کا سلسلہ جاری فرمایا۔ پھر اس سلسلہ نبوت کو ہمارے آقا و مولا مدنی تاجدار خاتم الانبیاء احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر موقوف فرمادیا۔ اب سلسلہ نبوت کو مہر لگ چکی ہے۔ تاقیام قیامت کوئی نبی و رسول آنے والا نہیں، لیکن لوگوں کی رشد و ہدایت کے لیے علمائے حق و اولیائے کرام پیدا ہوتے رہیںگے۔ یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔مقبولان حق تعالیٰ جواس کی ذات وصفات کے عارف ہوں گے، اس کی عبادت و فرمانبرداری کے پابند رہیں گے، گناہوں سے بچیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے انہیں اپناقرب خاص عطافرمائے گا۔ ان ہی مقدس و متبرک ذوات قدسیہ کو اولیاء اللہ کہتے ہیں۔

ان مقدس ہستیوں کو سوائے رب تعالیٰ کے نہ کسی قسم کاخوف ہوتا ہے اور نہ کسی قسم کاغم۔ ان مقبولان حق سے محیر العقول افعال کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر دوردراز مقامات کے حالات منکشف ہونا، جمادات وحیوانات سے کلام کرنا، پانی پر چلنا،بلائوں کو دفع کرنا، مصیبتوں کو ٹالنا وغیرہ۔ ذیل میں ولی اللہ کی تعریف، ان کی صفات و خوبیاںاور اولیاء اللہ کی اقسام و درجات کا تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کی جاتی ہے۔

ولی اللہ یا اولیاء اللہ، اللہ جل مجدہ کے مقبول بندوں کوکہتے ہیں۔جن کودنیا و آخرت میں کسی قسم کاخوف و غم نہیں ہوتا۔ حق تعالیٰ کی محبت، اطاعت، خوف و خشیت نے انہیں ہرطرح کے خوف و غم سے بے نیاز کردیا ہے۔ اللہ کے ولیوں کی محبت دراصل دارین کی سعادت و سبب رضائے الٰہی ہے ۔ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ مخلوقات کی حاجتیں پوری فرماتا ہے، ان کی دعاؤں سے خلقت فائدہ اٹھاتی ہے ۔

ولی، عربی مذکر اسم ہے۔ جس کے کئی معانی ہیں۔ منجملہ ان میں چند یہ ہیں۔ ایسا انسان جو خدا کے قریب ہو، سرپرست، محافظ، مربی، متولی، وارث، قریبی یا مددگار وغیرہ۔ اسی طرح ولی اللہ کا مطلب ہے: خدا رسیدہ، مقرب بارگاہ الٰہی، بزرگِ دین وغیرہ۔ علاوہ ازیں ولاء اور توالی کا مطلب دو یا زیادہ چیزیں اس طرح موجود ہوں کہ ان کے درمیان کوئی غیر نہ ہو اور اس کلمہ کو قُرب کے معنی میں استعمال کیا گیا۔ یہ قرب مکانی اور نسبی، دینی، دوستی، مدد، عقیدہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا۔ (علامہ ابوالقاسم الحسین بن محمد، الراغب الاصفہانی، متوفی:۵۰۲)، المفردات فی غریب القرآن)، (علامہ ابن منظور (۶۳۰ھ-۷۱۱ھ)، افریقی، لسان العرب، ۱۵: ۴۰۲) ولی بمعنیٔ محب، دوست، مددگار، غالب، قریب، مالک، متصرف، مدبر، مقتدر بھی مستعمل ہے۔ (شرح تاج العروس، القاموس طبع بیروت، ۱۰: ۳۹۸)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: خبردار! اللہ کے دوستوں پر نہ خوف ہے اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہے۔ انہی کے لیے خوشخبری ہے، دنیوی زندگی میں اور آخرت میں، اللہ کی باتیں تبدیل نہیں ہوتیں، یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔ (یونس: آیات، ۶۲ تا ۶۴)

اولیائے کاملین کی جماعت وہ مقدس و متبرک جماعت ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت کی نعمتوں کاوارث بنایا ہے۔ اولیائے حق کویہ مقام و مرتبہ صرف اورصرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی، ان کی محبت و اطاعت کرنے کے سبب حاصل ہوتا ہے۔ اسی حوالہ سے شاعرمشرق علامہ اقبالؒ جواب شکوہ کے آخری بند کے آخری حصہ میں کہتے ہیں؎

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اولیاء اللہ کی صفات و خوبیاں: قرآن کریم اور احادیثِ طیبہ میں اولیاء اللہ کی متعدد صفات و خوبیاں بیان کی گئیں ہیں۔ ان میں سے چند پیش ہیں:

اولیاء اللہ کی ایک صفت و خوبی یہ ہے کہ وہ تقویٰ شعار ہوتے ہیں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اولیاء اللہ وہ ہیں جو اللہ کے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں، اگرچہ ان میں رحم کے رشتے بھی نہ ہوں اور نہ کوئی مالی لین دین ہو۔ خداکی قسم ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر رونق افروز ہوں گے۔ جب لوگ تھر تھر کانپتے ہوں گے، انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور جب لوگ غمزدہ ہوں گے، وہ غم سے محفوظ و مامون ہوں گے۔ پھر آپؐ نے (سورہ یونس کی ۶۲ ویں) آیت پڑھی۔ جس کا ترجمہ یہ ہے: آگاہ ہوجائو اللہ کے ولیوں کو نہ کسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ غم۔

دوسری صفت و خوبی ایمان ہے ، یعنی وہ صاحبِ ایمان ہوںگے۔ ان کی سوچ اس حوالہ سے پختہ ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لائے اس پر دل سے حق اور سچ ہونے کا یقین کرتے ہیں۔ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ماورائے عقل و حواس جو حقائق کوئی نہیں جانتا مگر اللہ کے بتانے سے صرف نبی جانتے ہیں اور مخلوق خدا کو بتاتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے متعلق آپؐ نے فرمایا تھاکہ انسانی شکل میں آنے والا فرشتہ (جبرئیل) ہے جو تمہیں تمہارا دین سمجھانے اور بتانے آیا تھا، تو اب اس حقیقت کو عقل و حواس سے معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا علم صرف نبی کے بتانے سے ہوسکتا ہے۔ بس نبی نے اللہ رب العزت کی تعلیم سے اللہ تعالیٰ، ملائکہ، کتب سابقہ کی تصدیق، انبیائے سابقین، موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا، قبرو قیامت، جنات، پل صراط، جنت، جہنم اور ان کے تفصیلی و اجمالی احوال، ماضی، حال اور مستقبل کے واقعات، امت کے عروج و زوال کی تفصیلات، قرب قیامت کے آثار، جنت و اہل جنت کے حالات سے واقف ہوکر اسی کے اجازت سے دنیا کو بتائے ہیں۔ جس نے ان کو سچا جانا اور ان کا یقین کرلیا، وہ مومن ہے۔ در حقیقت اولیاء اللہ کے اندر یہ ایمانی کیفیت عام مومنین کی بہ نسبت بدرجہ اولیٰ موجود ہوتی ہے۔

اولیاء اللہ کی تیسری صفت و خوبی یہ ہے کہ ان کا عقیدہ درست اور دلیل پر مبنی ہوتا ہے۔ جیسا کہ متکلمین نے فرمایا: اللہ کا ولی وہ ہے جس کا عقیدہ درست ہو، مبنی بر دلیل ہواور جس کے اعمال بمطابق شریعت ہوں۔ (امام فخرالدین الرازی، التفسیر الکبیر، ج: ۱۷، ص: ۱۲۶)

چوتھی صفت و خوبی یہ ہے کہ ان کے دیکھنے سے حق تعالیٰ یاد آجائے۔ جیسا کہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیاکہ اولیاء اللہ کون ہیں؟ فرمایا: اولیاء اللہ وہ ہیں جن کو دیکھنے سے اللہ جل مجدہ یاد آجائے۔ اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اولیاء اللہ کون ہیں؟ فرمایا:جن کے دیکھے سے اللہ یاد آجائے۔ (علامہ اسماعیل بن کثیر الدمشقی، متوفی ۷۷۴ھ)، تفسیر القرآن العظیم، ۲/۴۲۲)

اولیاء اللہ کی پانچویں صفت و خوبی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کا دلیل سے ضامن ہے۔ اسی حوالہ سے حضرت ابوبکر الاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اولیاء اللہ وہ ہیں جن کی ہدایت کا دلیل سے اللہ ضامن ہے اور اللہ کی عبادت اور اس کی دعوت کے وہ ضامن ہیں۔ جب بندہ ان صفات پر کاربند ہوجاتا ہے، وہ ولی اللہ ہوتا ہے اور جب بندہ ولی اللہ ہوجاتا ہے تو اللہ اس کا والی ہوجاتا ہے اور یہی ہونا چاہیے، اس لیے کہ قرب دونوں طرف سے ہوتا ہے۔

چھٹی صفت و خوبی یہ ہے کہ وہ شب بیدار، ان کے چہرے زرد اور آنکھیں آنسوئوں سے تر ہوتی ہیں۔ اسی ضمن میں مولائے کائنات حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: شب بیداری کے سبب ان کے چہرے زرد، ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر، بھوک سے ان کے پیٹ سکڑے ہوئے اور بسبب پیاس ہونٹ خشک ہوں گے۔ جب اللہ ان کا والی، وارث اور دوست ہوجاتا ہے تو یہ دنیا و آخرت کے خوف و غم سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ان پر کچھ خوف نہیں، اس لیے کہ اللہ ان کا دوست ہے اور وہ دنیا میں غمگین بھی نہیں ہوتے، اس لیے کہ اللہ ان کو دنیا و آخرت میں صلہ دیتا ہے کہ وہ ان کا ولی و مولا ہے۔(امام قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، ۸: ۲۲۸، طبع مصر)

اولیاء اللہ کی ساتویں صفت و خوبی یہ ہے کہ بروز حشر اللہ رب العزت کے ہاں ان کی عزت و مرتبہ دیکھ کر انبیاء و شہداء رشک کریں گے۔سورۂ یونس کی آیت ۶۲ کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایسے بندے بھی ہیں جو نہ انبیاء ہیں، نہ شہداء مگر قیامت کے دن اللہ کے ہاں ان کی عزت و مرتبہ کو دیکھ کر انبیاء و شہداء رشک کریں گے۔عرض ہوئی کہ ہمیں خبر فرمائیں کہ وہ کون ہیں اور ان کے اعمال کیا ہیں کہ ہم ان سے محبت کریں؟ فرمایا: یہ لوگ وہ ہیں جو اللہ کے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں، ان میں رحم (نسب) کے رشتے ہیں اور نہ کوئی مالی لین دین ہے۔ خدا کی قسم ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور نورکے منبروں پر رونق افروز ہوں گے، جب لوگ ڈرتے ہوں گے، انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور جب لوگ غمزدہ ہوں گے، انہیں کوئی غم نہ ہوگا۔ پھر آپؐ نے سورۂ یونس کی ۶۲ ویں آیت تلاوت فرمائی، جس کا ترجمہ سابق میں پیش ہوچکا۔

آٹھویں صفت و خوبی یہ کہ اچھے اچھے کام کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بارگاہ نبوی میں عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! ایک آدمی کوئی اچھا کام کرتا ہے اور لوگ اس پر اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مومن کی فوری خوشخبری ہے۔ (مسلم)

اولیاء اللہ کی نویں صفت و خوبی یہ ہے کہ ان سے دشمنی اللہ تبارک و تعالیٰ سے دشمنی کے مترادف ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث قدسی مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ رب العزت نے فرمایا:  ’’جس کسی نے میرے ولی سے دشمنی کی، میں اُس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا قرب حاصل کرنے کے لیے میں نے جو احکام بندے پر فرض کیے ہیں، ان کے بجا لانے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور میرا بندہ ہمیشہ نفل عبادات کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پھر میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، اس کے پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے مانگے تو ضرور عطا کرتا ہوں، اگر مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور اسے پناہ دیتا ہوں اور میں جو کرنا چاہوں اس میں مجھے کوئی تردد نہیں، جتنا تردد مجھے مسلمان کی جان سے متعلق ہوتا ہے۔ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اس کی تکلیف کو ناپسند کرتا ہوں۔ حالانکہ اسے اس کے بغیر چارہ نہیں‘‘۔ (بخاری: ۶۵۰۲) 

اولیائے کاملین کی دسویں صفت و خوبی یہ ہے کہ ان کے لیے دوجہاں کی خوشخبری اور بڑی کامیابی ہے۔ سورہ یونس آیت ۶۴ کا مفہوم ہے: ان کے لیے خوشخبری ہے دنیوی زندگی اور آخرت میں اللہ کی باتیں بدلا نہیں کرتیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔ خوشخبری سے مراد علمائے کرام نے یہ بھی فرمایا کہ انہیں اچھے اچھے خواب آتے ہیں، فرشتے موت کے وقت انہیں خوشخبریاں سناتے ہیں، فرشتے کہتے ہیں:اللہ کے ولی تجھ پر سلام، اللہ تجھے سلام فرماتا ہے۔فرشتے اولیاء اللہ کو اس حال میں وفات دیتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوتے ہیں اور فرشتے انہیں سلام کرتے ہیں، اللہ کی رحمت، جنت، رضا اور اجرو ثواب کی مبارکبادیاں دیتے ہیں۔ (القرطبی، الجامع للاحکام القرآن: ۸: ۲۲۹)

حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:مومن کے پاس جب موت آتی ہے تو اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں، نورانی سفید چہروں والے، سفید لباس والے اور کہتے ہیں: اے پاک روح! نکل خوشبوئوں و باغوں کی طرف اور رب کریم کی طرف، تو روح اس کے منہ سے ایسے نکلتی ہے جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ۔ اب رہا یہ کہ انہیں آخرت میں خوشخبری کیسے ملے گی تو اس تعلق سے اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے : وہ بڑی گھبراہٹ ان کو پریشان نہیں کرے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سےوعدہ کیا گیا تھا۔ اور فرمان باری تعالیٰ ’’اور جس دن مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑتا ہوگا، تمہیں مبارک ہو آج کے دن، (وہ) باغ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں ہمیشہ رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے‘‘ اور یہ بھی فرمایا کہ ’’اللہ کی باتیں بدلا نہیں کرتیں‘‘ یعنی یہ وعدہ نہ بدلے گا، نہ اس کے خلاف ہوگا، نہ تغیر و تبدل ہوگا، بلکہ پختہ ہے، ثابت ہے لازمی طور پر ہونے والا ہے (یہی بڑی کامیابی ہے)

ولایت کی اقسام و درجات: ولایت ایک قربِ خاص ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے۔ اس کی تین صورتیں ہیں۔ فطری، وہبی اور کسبی۔ فطری: ایسے اولیاء اللہ جو پیدائشی ولی ہوں وہ فطری ولایت پر ہیں۔ مثلاً حضرات پیران پیر سیدنا غوث اعظم دستگیر و مجدد الف ثانی قدس سرھما العزیز وغیرہ۔ وہبی: وہ اولیائے کرام جو کسی ولی کامل کی چشم عنایت سے درجہ ولایت پالے۔مثلاً پیران پیر رضی اللہ عنہ کا چوروں کو نگاہ فیض سے ولی و قطب بنانا۔ کسبی: ایسی ولایت جو خوب عبادات، محنت، مجاہدات وغیرہ سے حاصل ہو۔ مگر کسبی ولایت سے وہبی و فطری ولایت اعلیٰ و ارفع ہے۔

اولیاء اللہ کی اقسام: اولیاء اللہ دو قسم کے ہیں: ۱۔ تشریعی ولی اور۲۔ تکوینی ولی۔۱۔ تشریعی ولی یعنی ”اللہ سےقربت رکھنے والا‘‘۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بے شمار ہیں، جہاں چالیس نیک و صالح مسلمان جمع ہوں ان میں ایک دو ولی ضرور ہوتے ہیں۔ ۲۔ تکوینی ولی وہ کہ جسے عالم میں تصرف کا اختیار دیا گیا ہو، ان اولیاء اللہ کی مخصوص جماعتیں ہیں جیسے غوث، قطب، ابدال وغیرہ۔ ان کی مختلف اقسام بھی ہیں اور یہ سب کے سب قیامت کے ڈر اور رنج سے یا دنیا کے مضر خوف و غم سے محفوظ ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح،۸/۵۱۷، نور العرفان ،سورہ یونس:بضمن آیت ۶۲)

آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:  شام میں ہمیشہ چالیس ابدال رہیں گے، جن کی برکت سے زمین والوں پر بارشیں ہوں گی۔ ایک اور ارشاد نبوی اس طرح ہے: میری امت میں ہمیشہ تین سو اولیاء حضرت آدم علیہ السلام کے، چالیس حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ، سات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پر ہوں گے۔ اور پانچ کے قلوب حضرت جبرئیل ، تین کے حضرت میکائیل اور ایک کا قلب حضرت اسرافیل علیہم کے قلب پر ہوگا۔ جب اس ایک کا انتقال ہوگا ان تین میں سے کوئی ایک اس کا قائم مقام ہوگا، اور ان تین کی کمی ان پانچ میں سے ہوگی اور پانچ کی کمی سات میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی تین سو میں سے اور تین سو کی کمی عام (صالح) مسلمانوں میں سے پوری کردی جائے گی۔ (مشکوٰۃ شریف باب ذکر الیمن والشام، شرح مرقاۃ) 

علاوہ ازیں علمائے کرام نے تکوینی اولیائے کرام کی مختلف اقسام و تعداد بیان کی ہے۔ ان میں سے چند کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے۔

قطب: اس سے مراد وہ عظیم انسان ہے جو زمانہ بھر میں صرف ایک ہی ہو، اسی کو ”غوث“ بھی کہتے ہیں۔ ” قطب“ اللہ رب العزت کا نہایت مقرب اور اپنے زمانے کے تمام اولیا کا آقا ہوتا ہے۔

ائمہ: یہ ہر دور میں صرف دو ہوتے ہیں۔ ایک کا صفاتی نام ”عبد الرب“ اور دوسرے کا صفاتی نام ”عبد الملک“ ہوتا ہے۔ یہ دونوں قطب کے وزیر ہوتے ہیں اور یہی اس کے انتقال کے بعد اس کے خلیفہ مقرر ہوتے ہیں۔

اوتاد: یہ ہر زمانے میں صرف چار حضرات ہوتے ہیں۔ ان کے سبب اللہ تعالیٰ مشرق، مغرب، شمال و جنوب کی حفاظت فرماتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی ولایت ایک جہت میں ہوتی ہے۔ ان کے صفاتی نام عبدالحی، عبدالعلیم، عبدالقادر اور عبدالمرید ہیں۔

ابدال: ان کی تعداد سات ہے۔ اللہ جل مجدہ نے انہیں ہفت اقالیم کی حفاظت کی ذمہ داری عطا فرمائی ہے۔ ہر ایک کی ایک اقلیم ہوتی ہے جہاں ان کی ولایت کا سکہ چلتا رہتا ہے۔

نقبا: ہر زمانے میں ۱۲ نقیب ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر نقیب آسمان کے ۱۲ برجوں میں سے ایک ایک برج کی خاصیتوں کا عالم ہوتاہے۔ یہ، شیطان اور اس کے ان پوشیدہ معاملات سے بھی واقف ہوتے ہیں جن کو خود شیطان نہیں جانتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں یہ شان عطا فرمائی ہے کہ کسی بھی شخص کے زمین پر لگے پاؤں کے نشان ہی کو دیکھ کر انہیں اس کےبد بخت اور خوش بخت ہونے کا علم ہوجاتا ہے۔

نجبا: ہر دور میں آٹھ ہوتے ہیں۔ ان حضرات کے احوال سے ہی قبولیت کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ حال کا ان پر غلبہ ہوتا ہے اور اس غلبہ کو صرف وہ اولیائے عظام پہچان سکتے ہیں جو مرتبہ میں ان سے اوپر ہوتے ہیں۔

رجال الغیب: ان حضرات کی تعداد ۱۰ ہے۔ ہمیشہ ان کے احوال پر انوارِ الٰہی کا نزول ہوتا رہتا ہے لہٰذا یہ اہل خشوع ہوتے ہیں اور سرگوشی میں بات کرتے ہیں۔ یہ مستور (یعنی نظروں سے اوجھل) رہتے ہیں۔ اہل اللہ جب بھی لفظ رجال الغیب استعمال فرماتے ہیں تو ان کا مطلب یہی حضرات ہوتے ہیں۔ کبھی اس لفظ سے مراد نگاہوں سے اوجھل انسان اور کبھی مومن جن بھی مراد لئے جاتے ہیں نیز کبھی اُن لوگوں کو بھی رجال الغیب کہہ دیا جاتا ہے جنہیں غیب کے خزانوں سے علم و رزق عطا ہوتا ہے۔

رجبی: یہ ہر دور میں ۴۰ ہوتے ہیں۔ انہیں رجبی اس لئے کہتے ہیں کہ اس مقام کا حال صرف ماہِ رجب کی پہلی تاریخ سے آخری تاریخ تک طاری ہوتا ہے۔ البتہ بعضوں پر اس کیفیت کا کچھ اثر سال تمام بھی رہتا ہے۔ (تلخیص جامع کرامات اولیا،۱/۶۹تا۷۴)

المختصر! یہ کہا جائے تو یقیناً بے محل نہ ہوگا کہ اولیائے کاملین اتباع رسول کرنے والے، محبت خدا و رسول رکھنے والے، فرض کے ساتھ نفل نمازوں بطور خاص نماز تہجد کابہت ہی ذوق و شوق سے اہتمام کرنے والے، فرض کے علاوہ نفل روزوں کا اہتمام کرنے والے، خوب صدقہ و خیرات کرنے والے، ہمیشہ استغفار کرنے والے، ذکر خدا میں مصروف رہنے والے، اگر معصیت کا ارتکاب ہوجائے تو فورا ًتوبہ کرنے والے، اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرنے والے، خدا پر توکل کرنے والے، ان کے قلوب خوف الٰہی سے ہمیشہ لبریز، خشیت ایزدی سے کپکپاتے بدن رکھنے والے، صبر و تحمل کرنے والے، اعمال صالحہ میں خوب حصہ لینے والے، پابند امر بالمعروف و نہی عن المنکر، نمود و نمائش سے مجتنب، لغو و بے ہودہ باتوں سے اعراض کرنے والے، امانت داری و دیانت داری سے کام کرنے والے، برے و فحش افعال سے ہمیشہ گریزاں، رب تعالیٰ کی رضا جوئی کرنے والے، رب کی نعمتوںپر شاکر، ایفائے عہد کرنے والے، ہر کام میں مخلص، منصف مزاج، ہر ایک سے صلہ رحمی کرنے والے، بکثرت تلاوت قرآن کرنے والے، ہر وقت باوضو رہنے والے، اللہ کے دوستوں سے دوستی رکھنے والے، رب کی ناپسندیدہ اشیاء سے بیزار، دشمنان خدا سے دشمنی رکھنے والے، اللہ کے دین کے مددگار، کلام الٰہی کی سماعت پر اشکبار ہونے والے، غصہ پینے والے اور عفو و درگزر سے کام لینے والے ہوتے ہیں۔ اپنے تحریر کردہ اس منقبتی شعر کے ساتھ مضمون کو سمیٹتا ہوں۔

یہی دل سے صدا آئی وجیہ اللہ سبحانی
سمجھنا ہے بہت مشکل مقامِ اولیاء اللہ

اللہ رب العزت ہمیں اولیائے کاملین سے محبت کرنے والا، اٹوٹ وابستگی رکھنے والا اور ان کے نقش قدم پر قائم و دائم رہنے والا بنائے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭