مضامین

شاکرہ خلیلی اور سوامی شردھانند کی شادی کا عبرت ناک انجام

یہ کہانی شاکرہ خلیلی کی ہے جن کی پیدائش 27؍ اگست 1947ء کو مدراس کے ایک تاجر گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام غلام حسین نمازی اور والدہ کا نام گوہر تاج بیگم مرزا تھا۔ گوہر تاج بیگم مرزا دراصل سر مرزا اسمٰعیل کی صاحبزادی تھیں اور سر مرزا اسمٰعیل کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے آزادی سے پہلے ہندوستان کی تین دیسی ریاستوں میں بحیثیت دیوان کام کیا تھا۔ جی ہاں سر مرزا اسمٰعیل نے حیدرآباد، میسور کے علاوہ جئے پور کی ریاست میں بطور دیوان خدمات انجام دی۔

محمد مصطفی علی سروری

متعلقہ خبریں
جموں و کشمیر میں جیش محمد کے کمانڈر کی 6 جائیدادیں ضبط: این آئی اے
گائے کے پیشاب سے علاج
جس کا انتقال ہوجائے اور زکوٰۃ ادانہ کرپائے
روزہ میں کن باتوں سے پرہیز ضروری ہے ؟
غسل کریں یا سحری کھائیں ؟

یہ کہانی شاکرہ خلیلی کی ہے جن کی پیدائش 27؍ اگست 1947ء کو مدراس کے ایک تاجر گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام غلام حسین نمازی اور والدہ کا نام گوہر تاج بیگم مرزا تھا۔ گوہر تاج بیگم مرزا دراصل سر مرزا اسمٰعیل کی صاحبزادی تھیں اور سر مرزا اسمٰعیل کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے آزادی سے پہلے ہندوستان کی تین دیسی ریاستوں میں بحیثیت دیوان کام کیا تھا۔ جی ہاں سر مرزا اسمٰعیل نے حیدرآباد، میسور کے علاوہ جئے پور کی ریاست میں بطور دیوان خدمات انجام دی۔

آیئے اب ہم اپنے کالم کے مرکزی موضوع پر واپس آتے ہیں۔ جی ہاں ہم تاریخ کے ایک ایسے باب کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو کہ حقیقت پر مبنی ہے ۔ یہ کہانی ہے شاکرہ خلیلی کی۔ ان کی تاریخ پیدائش تو مندرجہ بالا سطور میں ہم لکھ چکے اور یہ بھی بتلا چکے ہیں کہ شاکرہ خلیلی دراصل مرزا اسمٰعیل کی نواسی تھیں۔ جب شاکرہ خلیلی کی عمر 18 برس کی ہوئی تو ان کی شادی ان کے ماموں کے صاحب زادے اکبر مرزا خلیلی کے ساتھ انجام دے دی گئی۔

اکبر مرزا خلیلی کون ہیں وہ بھی جان لیجئے۔ اکبر مرزا خلیلی انڈین فارن سرویس (آئی ایف ایس) میں کام کرتے تھے اور ایک سفارتکار کے طور پر کام کرنے کے علاوہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے معاملات میں حکومت ہند کے لیے بطور مشیر خدمات بھی انجام دیں۔

چونکہ اکبر مرزا خلیلی ایک سفارت کار تھے تو اکثر ملک و بیرون ملک سفر کیا کرتے تھے۔ جب بھی ان کی بیوی شاکرہ خلیلی اپنے شوہر کے ساتھ سفر پر نہیں ہوتی تھیں تو وہ بنگلور میں ہی قیام کرتی تھیں اور ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں مصروف رہتی تھیں۔

سفارتکار اکبر مرزا خلیلی کو اپنی بیوی شاکرہ خلیلی سے چار لڑکیاں ہوئیں۔ زیب النساء، صباح، ریحانہ اور عصمت۔ شاکرہ خلیلی کی زندگی میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب وہ 1982ء میں نواب آف رامپور سے ملنے کے لیے گئی۔ جس وقت نواب آف رامپور سے شاکرہ خلیلی اور اس کے شوہر نے ملاقات کی تو اسی ملاقات کے دوران شاکرہ خلیلی کا سوامی شردھانند سے تعارف ہوا۔

یہ سوامی شردھانند کون ہے۔ اخبار انڈین ایکسپریس کی 28؍ اپریل 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق سوامی شردھانند کا اصلی نام مرلی منوہر مشرا ہے جس کا تعلق مدھیہ پردیش سے ہے۔ جس نے اسکولی تعلیم ترک کردی تھی اور بعد میں رامپور کے شاہی گھرانے کی جائیداد کی دیکھ بھال کا کام شروع کردیا تھا۔ بعد میں مشرا نے اپنے آپ کو سوامی قرار دے کر دعویٰ کیا کہ اس کے ہاں ایک تانترک کی طاقت ہے۔

قارئین یہ تو سوامی شردھا نند کا تعارف تھا جو کہ اخبار انڈین ایکسپریس نے دیا تھا۔ اخبار آگے مزید لکھتا ہے نواب آف رامپور سے ملنے کے بعد خلیلی خاندان (شاکرہ خلیلی وغیرہ) جب بنگلور واپس لوٹے تو ان کے ساتھ ہی مشرا بھی بنگلور آگیا۔ تاکہ خلیلی فیملی کی زمینات کے بعض معاملات میں مدد کرسکے۔

ادھر مرلی منوہر مشرا بنگلور آگیا۔ ادھر سفارتکار اکبر مرزا خلیلی کو حکومت ہند نے ایران میں 27؍اپریل 1980ء کو بحیثیت سفیر ہندوستان کا نمائندہ بناکر تہران بھیج دیا۔ اکبر مرزا خلیلی 27؍ اپریل 1980 سے لے کر 16؍ اگست 1984 تک ایران میں ہندوستانی سفیر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔

(بحوالہ indianembassytehran.gov.in)

اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق رامپور میں مشرا سے ملاقات کے بعد شاکرہ خلیلی بنگلور واپس آگئی اور مشرا بھی بنگلور آگیا۔ تین برس بعد شاکرہ خلیلی نے اپنے شوہر اکبر مرزا خلیلی سے طلاق کا مطالبہ کردیا اور 1986ء میں شاکرہ نے مرلی منوہر مشرا سے شادی کرلی۔ شادی کے بعد شاکرہ خلیلی کا اپنے خاندان سے رابطہ کم سے کم ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ شاکرہ کا اپنی لڑکیوں کے ساتھ بھی تعلق ختم ہوگیا۔ اس دوران مرلی منوہر مشرا عرف سوامی شردھانند نے شاکرہ خلیلی کی جائیداد و دولت پر قبضہ کر کے اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے لگا۔

مرلی منوہر مشرا عرف سوامی شردھانند کے اس تیور کو دیکھ کر شاکرہ خلیلی کی والدہ گوہر تاج نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ مرلی منوہر مشرا عرف شردھانند کو ان کے خاندان کی جائیداد حاصل کرنے سے روکا جاسکے۔

کچھ عرصے بعد شاکرہ خلیلی کا اپنی لڑکی صباح سے دہلی ایئرپورٹ پر رابطہ ہوگیا۔ صباح اس وقت تک ایک ماڈل بن چکی تھی۔ لیکن اب ماں بیٹی نے طئے کیا کہ وہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں گے۔

مشرا عرف سوامی شردھانند اور شاکرہ خلیلی کے گھر والوں نے پولیس اور عدالت کے روبرو جو بیانات دیئے ہیں اس کے حوالے سے اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ شاکرہ خلیلی کا جب اپنے افراد خاندان اور لڑکیوں سے دوبارہ ررابطہ استوار ہوا تو شاکرہ خلیلی نے اپنی بچیوں پر اپنی دولت کو خرچ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ بس اس مسئلے کو لے کر مشرا عرف سوامی شردھانند اور شاکرہ کے درمیان بار بار جھگڑے ہونے لگے۔

1991ء میں شاکرہ نے صباح (اپنی لڑکی) کے ساتھ بات چیت کرنا بند کردیا۔ صباح اپنی ماں سے رابطہ نہ ہونے پر پریشان تھی۔

صباح جو کچھ سوالات پوچھتی تو مشرا جواب دیتا کہ اس کی ماں چھٹیاں منانے دوسری جگہ گئی ہوئی ہے۔

صباح کو مشرا کی اس اطلاع پر شک ہونے لگا تب صباح نے محسوس کیا کچھ تو گڑبڑ ہے تب 1992ء میں صباح نے اس معاملے کو پولیس سے رجوع کیا۔

قارئین صباح کی پولیس میں اپنی ماں کی گمشدگی کی اطلاع درج کرنے کے بعد بھی کوئی کامیابی نہیں ملی اور دو ایک دن نہیں بلکہ پورے دو سال کا عرصہ گزر گیا لیکن شاکرہ خلیلی کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔

ادھر بنگلور کی پولیس مسلسل کھوج میں لگی ہوئی تھی کہ شاکرہ خلیلی کو ڈھونڈ نکال سکے۔ پھر تحقیقات میں شامل ایک پولیس کانسٹبل نے مشرا عرف سوامی شردھانند کے ایک نوکر کے ساتھ شراب نوشی کی محفل سجائی اور اس شراب نوشی کے دوران مشرا عرف سوامی شردھانند کے نوکر نے انکشاف کیا کہ شاکرہ خلیلی کی نعش کو تو اسی رچمنڈ ٹائون ہوم کے گھر میں دفن کردیا گیا جہاں پر شاکرہ خلیلی مشرا عرف سوامی شردھانند کے ساتھ قیام کرتی تھی۔

اس اطلاع کے ملنے کے بعد رچمنڈ ٹائون کے گھر میں کھدائی کر کے شاکرہ خلیلی کی نعش کو برآمد کیا گیا۔

پولیس کے حوالے سے اخبار انڈین ایکسپریس نے لکھا کہ مشرا عرف سوامی شردھانند نے پہلے تو شاکرہ خلیلی کی چائے میں نشہ آور چیز ڈالی اور پھر شاکرہ خلیلی کو ایک بڑ ے لکڑی کے بکسے میں لٹادیا۔ لکڑی کا یہ بکسا مشرا عرف سوامی شردھانند نے یہ کہہ کر بنوایا تھا کہ اس میں نوادرات کی اہمیت کے حامل فرنیچر کو ٹرانسپورٹ کرنا ہے۔ اب اس لکڑی کے باکس کو کیا کیا گیا وہ بھی جان لیجئے ۔

اخباری رپورٹ کے مطابق رچمنڈ ٹائون ہوم کے گھر میں واٹر ٹینک بنوانے کے نام پر ایک گڑھا پہلے ہی سے کھودکر رکھا گیا جس میں لکڑی کے اس باکس کو رکھ کر مٹی ڈال دی گئی جس میں شاکرہ خلیلی کو نشہ آور چیز دے کر لٹادیا گیا تھا۔
دوبرس بعد جب پولیس نے مشراکے نوکر سے ملنے والی اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے شاکرہ خلیلی کی نعش کو باہر نکالا تو ایسا لگ رہا تھا کہ شاکرہ خلیلی کا ایک ہاتھ اپنے نیچے کی بیڈ شیٹ کو پکڑا ہوا تھا جس سے ان شبہات کو تقویت ملی کہ جب شاکرہ خلیلی کو لکڑی کے باکس میں رکھا جارہاتھا اس وقت وہ زندہ تھی اور جدو جہد کر رہی تھی۔ یوں شاکرہ خلیلی کی زندگی 44 برس میں اختتام کو پہنچ گئی۔

شاکرہ خلیلی کے غائب ہونے کے دو برس بعد اس کی نعش ملی۔ مگر انصاف کی لڑائی گیارہ برسوں تک چلی اور سال 2005ء میں مشرا عرف سوامی شردھانند کو ایڈیشنل سٹی سیول جج نے قتل کا مجرم قرار دے دیا۔ اسی برس ستمبر میں کرناٹک ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کی موت کی سزاء کو برقرار رکھا۔ بعد میں اس کو عمر قید کی سزاء میں تبدیل کردیا گیا۔

ستمبر 2022ء میں مشرا عرف سوامی شردھانند نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی کہ راجیو گاندھی کے قاتلوں کو جس طرح رہا کیا گیا ویسے ہی اس کو بھی جیل سے رہا کیا جائے۔

قارئین یہ واقعہ بھی گذشتہ برس کا ہے۔ لیکن مئی 2023ء میں اس سارے قصے کو اس لیے سپرد قلم کیا جارہا ہے کہ 26؍ اپریل 2023 کو سپریم کورٹ نے مشراء عرف سوامی شردھانند کی عرضی کو خارج کردیا جو اپنی بیوی کے قتل کے جرم میں سزائے عمر قید کاٹ رہا ہے۔ حالیہ عرصے میں شاکرہ خلیلی کا واقعہ کا ذکر اس لیے بھی آیا ہے کہ پرائم ویڈیو کے OTT پلیٹ فارم پر Dancing on the Grave کے نام سے شاکرہ خلیلی قتل واقعہ پر ایک ڈاکیو سیریز پیش کی جارہی ہے جس پر 82 برس کے مشراء عرف سوامی شردھانند نے سیریز بنانے والوں کو ایک قانونی نوٹس بھیجتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس سیریز سے اس کے قانونی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔

قارئین اس سارے واقعہ کو موجودہ ہندو مسلم شادیوں کے پس منظر میں پڑھنا بہت سارے احباب کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔[email protected]

a3w
a3w