طنز و مزاحمضامین

شکر ہے ہم پاگل نہیں!

زکریا سلطان۔ ریاض

راج کپور پر فلمایا گیا غمگین کردینے والا مکیش کا کلاسیکل گانا ایک صاحب محفل میں بڑے مزے لیتے ہوئے جھوم جھوم کر گارہے تھے "تیری دنیا میں دل لگتا نہیں ، واپس بلالے، میں سجدے میں گرا ہوں مجھ کو اے مالک اٹھا لے ” سامعین کی آخری صفوں میں سے ایک منچلے شوخ نوجوان نے بہ آوازِ بلند آمین کہہ دیا ، بے ساختہ قہقہے بلند ہوئے اور گلوگار بھی غم کے ماحول سے نکل کر مسکرانے پر مجبور ہوگئے۔یکم اگسٹ2022 کا منصف کھولا تو عنوان نظر آیا ” ہم بھی پاگل ہیں” دل سے آواز آئی یقینا ہوں گے!!! پھر غور سے رک رک کر آہستہ آہستہ لفظ بہ لفظ مضمون کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک دانا اور با شعور زندہ دل خاتون کا ظرافت سے بھرپورمضمون ہے جس میں معاشرہ کی حقیقی صورتحال کا دلچسپ انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔
مضمون کے ابتدائی حصہ میں درج شعر :
عمر کا اک حصہ کرکے دانائی کے نام ٭ ہم بھی اب یہ سوچ رہے ہیں پاگل ہوجائیں
بیٹھے بیٹھے پاگل ہوجانا ہمیں اچھا نہیں لگا ،کچھ خلش سی ہونے لگی اور دل مطمئن نہ ہوا تو ہم نے ترمیم کرکے اسے اپنے حق میں یوں کرلیا :
عمر کا اک حصہ کرکے نادانی کے نام
ہم بھی اب یہ سوچ رہے ہیں دانا ہوجائیں
مضمون پڑھتے وقت ڈاکٹر مجید خان صاحب مرحوم کی ہمیں رہ رہ کر یاد آتی رہی ۔ اِک زمانہ تھا حیدرآباد میں جب کوئی نامعقول بات یا نا معقول حرکت کرتا تو لوگ کہتے ”نکل گیا، اس کو مجید خان کے پاس لے جاﺅ“ اور پھر مجید خان صاحب ایسے مریضوں کا مناسب علاج معالجہ کرکے انہیںٹھیک ٹھاک کردیتے۔ مجید خان صاحب اپنے مضامین میں بھی مختلف مریضوں کی کیفیات لکھاکرتے تھے جو قارئین کے لیے کافی معلوماتی اور دلچسپ ہوا کرتی تھیں۔ امراض نفسیات کے ماہرین پر بھی بعض لطیفے بڑے مشہور اور سننے کے لائق ہیں۔ یہ حضرات عموماً اپنے مریضوں سے ایک سوال ضرور کرتے ہیں "کیا آپ زندگی سے بیزار ہیں۔ کیاخودکشی کرنے کو آپ کا جی چاہتا ہے؟ ” اس سوال پر ایک مریض نے کسی ڈاکٹر صاحب سے کہا جی نہیں بالکل نہیں ! خود کشی کو نہیںبلکہ کسی کا قتل کرنے کو دل چاہتا ہے، پوچھا کس کا؟ مریض نے کہا کسی ڈاکٹر کا!!! یہ سن کر ڈاکٹر صاحب پر کپکپی طاری ہوگئی اور وہ فوری اپنے کمرے سے باہر نکلے، طبی عملہ کو ساتھ لے کر آئے اور گھبراہٹ کے عالم میں نسخہ لکھ کر مریض کوجھٹ پٹ رخصت کردیا اور پھر اطمینان کی سانس لی۔نفسیاتی امراض کے مختلف مراحل و اسباب ہوتے ہیںچنانچہ جیسا مرض ویسا مریض بھی کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ مرض کی نوعیت اور شدت کے مطابق ہی مریض کا رد عمل ہوتا ہے۔مالی،معاشی ،معاشرتی سماجی اور سیاسی مسائل کی وجہ سے بھی لوگ آج کل ٹینشن اور ڈپریشن کا شکار ہورہے ہیں ، ہر طرف نفسہ نفسی کا عالم ہے۔ ہر سُو خود غرضی بے مروتی اور بے حسی چھائی ہوئی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو کاٹنے کے لیے دوڑ رہے ہیں، کوئی کسی کو سننے اور برداشت کرنے کو تیار نہیں یہاں تک کہ شاعر بھی شاعر سے بھاگ رہا ہے ۔بد امنی، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل بھی نفسیاتی امراض میں زبردست اضافہ کا سبب بن رہے ہیں، فرقہ پرستی کا جنون الگ ہے جس کی وجہ سے خون خرابہ ہورہا ہے ۔
خرد کا نام جنون پڑگیا جنون کا خرد ٭ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اقتدار کی بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے خواتین و حضرات کی بھی اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جن کی دماغی صحت کو اطمینان بخش نہیں کہا جاسکتا، ایسے میں ان سے خیر کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے اقدامات کرنے کے لیے ان کے پاس وقت کہاں ہے، وہ تو سال کے بارہ مہینے اپنی تجوریاں بھرنے اور انتخابات کی منصوبہ بندی کرنے، حکومتوں کے تختے الٹنے کی تیاری میں مصروف و مشغول رہتے ہیں، اقتدار کی کرسیوں پر گوند لگاکر چالیس چالیس برس تک چپک جانے کے خبط و جنون میں وہ مبتلا ہیں جس کا اعلان و اظہار بھی وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔
ایک رکن پارلیمنٹ نے توپکوان گیس کی آسمان کو چھوتی قیمت پر انوکھا احتجاج کرتے ہوتے ایوان میں کچا بینگن ہی چبا کر کھالیا،کاش وہ پکا ہوامسالہ دار حیدرآبادی بیگن ڈنڈی سمیت اٹھا کر کھالیتے یا پھر کسی چمچے کی مدد سے کھاتے ، پارلیمنٹ میں چمچوں کی کمی تو نہ تھی!
کہا جاتا ہے کہ نوٹوں کو نوٹ چپک کر آتے ہیں اور مقناطیس کو زمین پر رگڑا جائے تو فولادی ذرات مقناطیس کے ساتھ لگ کر آتے ہیں، اسی طرح شاید پاگل بھی پاگلوں کو دیکھ کر مچلتے ہوئے ان سے جڑ جاتے ہوں گے جس کی مثال ترکی کے مینٹل ہاسپٹل سے فرار ہونے والے پاگلوں کی ٹرین کی شکل میں گھرواپسی (پاگل خانہ) سے ملتی ہے جن کی تعداد 423سے بڑھ کر612ہوگئی تھی،لگتا ہے اب ہمارے پاس بھی یہی حال ہونے والا ہے دن بہ دن پاگلوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
یہ صحیح ہے کہ عام آدمیوں کے علاوہ دنیا کی بڑی بڑی شخصیات اور مشہورلوگ بھی خبط و جنون کا شکار ہوتے ہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ نام نہاد بڑے لوگوں میں ہی یہ روگ زیادہ پایا جاتا ہے، کوئی اپنے آپ کا قاروہ نوش فرمارہا ہے تو کوئی اپنے بنگلے میں موجود پودوں کو اپنی ذاتی کھاددے کر باغبانی کررہا ہے تو کوئی عوام کو بالکونی میں کھڑے ہوکر تالی اور تھالی بجانے کی صلاح دے رہا ہے!!!
عقلِ سلیم واقعی ایک بڑی نعمت ہے، اللہ کا شکر ہے کہ ہم پاگل نہیں ہیں۔
میں محترمہ نصرت فاطمہ کو عمدہ مضمون لکھنے پر مبارکباددیتا ہوں!