قانونی مشاورتی کالم

صدیوں تک نوجوان بیواؤں کو چتا پر زندہ جلانے والوں کے دلوں میں ایسی ہمدردی عجیب لگتی ہے

شہریت ترمیمی قانون کی منظوری اور اس پر عمل درآمد کے بعد زعفرانی ٹولہ مسلمانوں کے ان عائلی قوانین پر نظر لگائے بیٹھا ہے جو ان کے مطابق انسانیت کے خلاف اور یتیموں پر ظلم کے مترادف ہیں۔

شہریت ترمیمی قانون کی منظوری اور اس پر عمل درآمد کے بعد زعفرانی ٹولہ مسلمانوں کے ان عائلی قوانین پر نظر لگائے بیٹھا ہے جو ان کے مطابق انسانیت کے خلاف اور یتیموں پر ظلم کے مترادف ہیں۔ مثلاً ورثہ میں بیٹے اور بیٹی کو دیئے جانے والے مال و جائیداد میں یکسانیت نہیں ہے اور عورت کا حق مرد کے بہ نسبت نصف ہے جو ان کے مطابق اصولِ مساوات کے خلاف ہے۔

متعلقہ خبریں
مسلمانوں کی جان، املاک، عبادت گاہوں اور تجارت پر جان لیوا خطرات منڈلارہے ہیں۔ مفکرین کی رائے
مالکِ جائیداد کی وفات کے بعد ورثاء آپس میں جائیداد بانٹ سکتے ہیں۔ اگر آپس میں کوئی اختلاف نہ ہو
حکومت کچھ خطرناک قوانین لارہی ہے: جائیدادوں کی بذریعہ زبانی ہبہ تقسیم کردیجئے
یکساں سیول کوڈ کو زبردستی مسلط نہیں کیا جاسکتا: مولانا محب اللہ ندوی
یکساں سیول کوڈ سے ہندوؤں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا: ممتا بنرجی

ان شرپسندوں نے بعض مسلم نما برقعہ پوش خواتین کو اپنا ہمنوا بنالیا ہے جو ان لوگوں کے اشاروں پر کام کرتی ہوں۔ اس بات کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ برقعہ پوش عورتیں اندر سے اہل ہنود ہوں جو اس مذموم مقصد کے حصول کے لئے کام کررہے ہیں۔ موجودہ حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یکساں سیول کوڈ قانون اور این۔آر۔سی۔ لاگو ہوجائے گا کیوں کہ زعفرانی پارٹی کے یہ انتخابی وعدے تھے۔

موجودہ حکمران زعفرانی ٹولے نے ایک اصول بنایا ہے جس پر تمام اس کے اراکین عمل پیرا ہورہے ہیں ۔ سب سے پہلے ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت کی ایک خلیج پیدا کی جائے تاکہ موجودہ طور پر متحد ہوتے ہوئے ہندو مسلم ووٹرس پھر سے آپس میں ٹکرائیں اور ملک کے ووٹرس دو پلڑوں یعنی 20 اور80 میں تقسیم ہوجائیں۔

جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ حکمران ٹولہ بالا کوٹ فضائی حملہ کی لہر کی طرح اس بار بھی کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔ نفرت کی خلیج کو مزید وسعت دینے کے لیے زہریلی ذہنیت کے حامل آر۔ ایس۔ایس شاکھاؤں کے تربیت یافتہ افراد کو ملک بھر میں اعلیٰ عہدوں پر مامور کیا جارہا ہے جن میں اعلیٰ بیوروکریٹس سے لے کر ہائیکورٹ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے ججس بھی ہیں۔ سپریم کورٹ کالیجیم جن منتخب امیدواروں کے نام حکومت کو روانہ کرتا ہے تاکہ ان کی تقرری ہو‘ نہ جانے کیوں ایسی فائلس کو برسوں برفدان میں رکھا جاتا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں سے لے کر نیچے ہوم گارڈز تک اس زہریلی ذہنیت کے افراد کا تقرر کیا جارہا ہے۔

اگر یہی صورت مزید پانچ سال تک برقرار رہے تو انتظامیہ اور عدلیہ میں یہ زہر بھرجائے گا۔ نہ انصاف رہے گا اور نہ منصف مزاج ججس۔ ان ججس سے انصاف کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے جن کی رگوں میں نفرت لیا ہوا خون بہہ رہا ہے۔ ناانصافیوں کی مثالیں تو آپ آج بھی دیکھ رہے ہیں۔1991ء کے مقاماتِ عبادت قانون کی دھجیاں اڑا کر گیان واپی مسجد اور دیگر مساجد کے خلاف احکامات جاری کئے گئے۔ یہ غیر قانونی ہے۔ بابری مسجد کا مقدمہ۔ آپ نے دیکھ لیا کس طرح ججس اپنے زبانی وعدوں سے منحرف ہوکر قانون کی جگہ عقیدت کی بنیاد پر فیصلہ صادر کیا ۔ دہلی کی ایک مسجد کے سامنے نمازیوں کو لات مار کر ایک پولیس مین نے کمینہ پن اور اسلام دشمنی کی بدترین مثال قائم کی ۔ اس واقعہ کو گودی میڈیا نے اجاگر نہیں کیا گویا یہ خبر اس لائق نہیں تھی کہ اس کی تشہیر کی جاتی۔

اب اس بات میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ موجودہ حکمران ٹولہ مسلم و اسلام دشمنی پر کمربستہ ہے اور اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ ملک کے مسلمانوں کو برباد و بے نوا کردے تاکہ آئندہ ان کی ہمت نہ ہوسکے کہ وہ اپنا سر کسی احتجاج کے لئے اٹھاسکیں۔

مسلمانوں کی جائیدادیں نشانہ پر۔ بے نامی جائیداد قانون۔ لینڈ ٹائٹلنگ قانون کا بے تحاشہ استعمال ہوگا

حکومت کے پاس سب سے خطرناک اور کارگر قانون بے نامی قانون ہے۔ پہلے اس قانون پر دوبارہ بحث کی جائے گی کیوں کہ2016ء میں اس قانون کے اثرات پر بارہا لکھا گیا لیکن اس کا اثر ہوتا ہوا معلوم نہیں ہوتا۔ یہ ایسی جائیدادیں ہوتی ہیں جن پر یقینی طور پر بے نامی قانون کی تلوار چل سکتی ہے۔

جائیداد ضبط ہوسکتی ہے اور مقدمہ چل سکتا ہے

یہ بات دیکھی گئی ہے کہ بعض قانون و قواعد سے غافل مسلم افراد اس قانون سے بالکل واقفیت نہیں رکھتے۔ یہ قانون ان لوگوں کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے جنہوں نے اپنے پیسوں یا کمائی کی رقومات سے غیر منقولہ جائیدادیں اپنی بیٹی۔ بیوی۔ بیٹے ‘ بھائی بہن وغیرہ کے نام پر خریدا تھا۔ اس قانون کی روشنی میں کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کے نام پر کوئی جائیداد نہیں خریدسکتا۔ اگر اس بات کا علم حکومت کو ہو کہ کسی شخص نے کوئی جائیداد اپنی بیوی کے نام پر خریدی ہے تو حکومت دونوں کو نوٹس دے کر طلب کرسکتی ہے اور مقدمہ کا آغاز ہوسکتا ہے۔ اگر جائیداد بیوی کے نام پر خریدی گئی تو بے چاری بیوی سے دریافت کیا جائے گا کہ اتنی بڑی رقم جو اس جائیداد کی خرید میں لگائی گئی اس کے ذرائع حصول کیا تھے اور کیا ان رقومات پر انکم ٹیکس ادا کیا گیا تھا۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ بعض قانون سے ناواقف مسلم عہدیدار اپنی آمدنی سے یا تو محبت کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے اپنی بیوی کے نام جائیداد خریدتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر کل ایسی بات پیدا ہوگئی تو ان کے پاس اس کا جواب کیا ہوگا۔ لہٰذا بے نامی جائیداد قانون ایک خطرناک قانون ہے جو مسلمانوں کو اور خصوصاً صاحبِ جائیداد مسلمانوں کو تباہ و برباد کردے گا۔

وراثت ٹیکس

دوسرا اور سب سے خطرناک قانون جس کے ابھی بال و پر نکلے ہیں‘ یعنی اس کا مسودہ تو تیار ہے لیکن کسی وجہ سے اسے پارلیمان میں پیش نہیں کیا جاسکا‘ وہ ہے وراثت ٹیکس ۔ یعنی کسی بھی شخص کے انتقال کی صورت میں اس کی چھوڑی ہوئی جائیداد پر وراثت ٹیکس لاگو ہوگا اور اس کی حد زائد از پچاس فیصد ہوگی۔ یہ قانون یوروپ کے تمام ممالک‘ امریکہ‘ کیناڈا‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں لاگو ہے۔ جاپان میں تو وراثت ٹیکس 70فیصد ہے۔ امریکہ میں بھی یہی حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر امریکن اپنی ساری کمائی کھانے پینے اور عیش و عشرت پر صرف کرتا ہے۔ ہندوستانیوں کی طرح ایک ایک پیسہ جمع کرکے کروڑوں کی جائیدادیں نہیں خریدتا۔

یہ قانون جب پاس ہوجائے گا تو یہ بات یقینی ہے کہ حکومت کی آمدنی میں کم از کم دو تین گنا زیادہ اضافہ ہوگا اور ہندوستان خوشحالی کی جانب گامزن ہوگا۔ اس بات کے سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی کہ سب سے پہلا نشانہ وہ مسلم افراد ہوں گے جن کے صاحب جائیداد والدین نے حالیہ دنوں ‘ مہینوں یا سالوں میں انتقال کیا ۔ حکومت اپنے مخبروں کی اطلاعات کی اساس پر کارروائی کا آغاز کرے گی۔ اس سے پہلے کہا جاچکا ہے کہ نریندر مودی پردھان منتری نے اس ضمن میں ایک لاکھ ایجنٹس کا تقرر کیا ہے‘ جن کو معاوضہ کے طورپر حاصل شدہ ٹیکس آمدنی کا ایک حصہ دیا جائے گا۔ یہ مخبر سرگرمِ عمل ہیں اور ضروری اطلاعات انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو ترسیل کررہے ہیں۔

علاوہ ازیں ایک اور خطرناک قانون لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ بھی منظور ہوا جس پر گزشتہ ہفتہ کافی روشنی ڈالی گئی تھی۔

ان تمام مسائل کا واحد قانونی حل جائیداد کی منتقلی بذریعہ ہبہ

دنیا میں کوئی مسئلہ ہی نہیں جس کا کوئی حل نہ ہو ۔ اگر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس نہ ہوں تو ساری کمائی انکم ٹیکس چھین لے جائے گا۔ اگر وکلاء نہ ہوں تو کوئی بھی کسی کی جائیداد پر قبضہ کرسکتا ہے اور حقیقی مالک کو محروم کرسکتا ہے اگر ڈاکٹر نہ ہوں تو لاکھوں مریض شفا یاب نہ ہوں۔

اسی طرح اس مرض کی ایک دوا ہے ۔ اس دوا کا نام ہے ’’ میمورنڈم آف اورل گفٹ‘‘ ہبہ۔ اس طریقۂ تقسیم جائیداد سے آپ کو کئی پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل ہوسکتا ہے ۔ آپ کی جائیداد محفوظ رہ سکتی ہے اور ظالم حکومت کے ہتھے چڑھنے سے محفوظ رہے گی۔

اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کو رجسٹریشن آفس تک جانے کی ضرورت نہیں۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ اپنی جائیداد تمام بیٹے بیٹیوں میں انصاف کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر تقسیم کریں گے اور کسی بھی وارث کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔ ایک دو سو مربع گز پر تین منزلہ عمارت کی اگر گفٹ رجسٹری کی جائے تو آپ کو کم از کم چھ سات لاکھ روپیہ اسٹامپ ڈیوٹی کے عنوان پر ادا کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں اسٹاف اور رجسٹرار صاحب کو نذرانہ یا رشوت کے طور پر تیس چالیس ہزار روپیہ ادا کرنا پڑے گا جو آپ بہ خوشی ادا کردیں گے ۔ جبکہ وہ صورت جو بتائی گئی ہے اس پر کچھ بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔

نہ رشوت‘ نہ اسٹامپ ڈیوٹی اور نہ الجھن۔ اس طرح تیار کیا گیا ڈاکومنٹ اسی اثر کا حامل ہوگا جتنا کہ ایک رجسٹر شدہ دستاویز ۔ اس کی اساس پر نام کی تبدیلی بھی ہوسکتی ہے ۔ آپ کو تجربہ کار اور قوانین و فیصلوں سے واقف وکلاء کا انتخاب کرنا ہوگا جو اس صنف میں کافی تجربہ رکھتے ہوں۔ اس عمل کی تکمیل کے بعد ان دونوں قوانین کا اثر زائل ہوجائے گا کیوں کہ گفٹ پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ یہ سہولت صرف مسلمانوں کو حاصل ہے جبکہ ہندو‘ سکھ ‘ عیسائی وغیرہ کو اس سہولت سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لہٰذا اس قانونی سہولت کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔

a3w
a3w