’’ آم کھٹے ہیں!‘‘

حمید عادل
عنوان پڑھ کر خدارا آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم اس لومڑی کی تقلید کررہے ہیں جوانگور کی بیل کے نیچے ٹھہر کر انگور کھانے کی کوشش کرتی رہی لیکن جب اس کے ہاتھ انگور نہ آئے تو ’’ انگور کھٹے ہیں‘‘ کا شگوفہ چھوڑ کر چلتی بنی۔
جی نہیں! ایسا قطعی نہیں ہے،کیونکہ اس سال آم کچھ زیادہ ہی ’’عام‘‘ ہوگئے ہیں، بازار میں جدھر بھی نظر دوڑائیے آم ہی آم نظر آتے رہے ہیں جو راستہ چلنے والوں کو کچھ اس طرح گھور رہے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں:
’’ پلیز ہمیں خرید لو، ورنہ ہم کہیں کے نہیں رہیں گے!‘‘
ہر طرف زرد زردآموں کو دیکھ کر یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے شہر حیدرآباد یرقان میں مبتلاہوگیا ہے۔پچھلے چند برسوں سے ہم غور کررہے ہیں کہ ہر سال یہ دل شکن اعلان کیاجاتا ہے کہ اس برس طوفانی ہواؤں کی بدولت آم کی فصل کو کافی نقصان پہنچا ہے، اس لیے اس سال آم ، ’’عام‘‘ نہیں ہوں گے لیکن ہر سال ماشاء اللہ آموں میں ایسی خیروبرکت ہوتی ہے کہ وہ بآسانی دستیاب ہوجاتے ہیں۔
زندگی کے کھٹے میٹھے واقعات کی طرح آم بھی کھٹے اور میٹھے ہوتے ہیں،البتہ آم کھٹے ہیں یا میٹھے، انہیں پرکھنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے ، ہم تواس معاملے میں بالکل اناڑی ہیں، چنانچہ اس سال آموں نے ہمارے دانت کچھ زیادہ ہی کھٹے کردیے جب کہ چمن بیگ آم پرکھنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں، چنانچہ ہم نے ان سے شکایت بھرے لہجے میں کہا:
’’ یار اس سال نجانے کیا ہوگیاہے ،جس آم کو بھی ہم ہاتھ لگا تے ہیں وہ کھٹا نکلتا ہے۔‘‘
’’ میاں!لگتا ہے تمہارے ستارے گردش میں ہیں ،اگر قسمت خراب ہو تو پھرسونا بھی پکڑیں تو مٹی ہوجاتا ہے ، پھر آم کیا چیز ہیں؟‘‘
’’ شاید تم ٹھیک کہتے ہو!‘‘ہم نے سرد آہ بھر کر جواب دیا اور پھرقدرے توقف سے ہم نے دوبارہ اپنی چونچ کھولی :’’ یہ تو کہو چمن کہ آم کو کس طرح پرکھا جائے ؟ آخرکس طرح ظاہر کو دیکھ کر باطن کا اندازہ لگایا جائے ؟ ‘‘
’’ آم میٹھا ہے یا کھٹا ،آم خود چیخ چیخ کر بتاتا ہے میرے دوست!بس اس کی آواز سننے والے کان چاہیے‘‘ چمن بیگ نے ’’ماہر آمیات‘‘کی طرح ریمارک کیا اور سلسلہ ٔ کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے:’’ میاں!کانوںکے علاوہ آم کے خریدار کی ناک کا نہایت حساس ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔‘‘
’’ وہ کیوں؟‘‘ہم نے سر کھجاتے ہوئے سوال داغا۔
’’کیونکہ آم کو سونگھنا بھی پڑتاہے تاکہ پتہ لگایا جاسکے کہ وہ میٹھے ہیں یا کھٹے؟‘‘
’’ اچھا!وہ کس طرح‘‘
’’ تم پہلے کسی آم کی دکان یا بنڈی کا رخ کرو پھر اپنی ناک آم کے منہ کے قریب لے جاؤاور پھر زور سے سانس کو اندر کھینچو،،اگر میٹھی بو آئے تو سمجھ لینا کے آم میٹھے ہیں اور اگر کھٹی بو آئے تو اس آم سے پناہ مانگنا۔‘‘
ہم نے چمن بیگ کی ہدایات پر پوری دیانتداری کے ساتھ عمل کیا۔ آم کی بنڈی پر پہنچ کر ہم نے اپنے دو عدد کان کھڑے کیے تو واقعی ہمیں حضرت آم کی آواز صاف سنائی دی جو چیخ چیخ کر گواہی دے رہے تھے کہ وہ میٹھے ہیں۔ہم نے اپنی ایک عدد ناک کا زندگی میں پہلی بار بھرپور استعمال کیا ،ہم ہر آم کو ناک کے قریب لے جا کر اس قدر شدت سے سونگھنے لگے کہ ہمیں اپنا دم ناک میں آتا ہوا محسوس ہوا۔ اگر کوئی کھوجی کتا ہمیں اس طرح سونگھتا ہوا دیکھ لیتا تو اپنے کتا ہونے پر شرمسار ہوکر خودکشی کرلیتا۔
ہم آم خرید کر اس کامل یقین کے ساتھ گھر پہنچے کہ اب آم یقینا میٹھے ہوں گے لیکن آم کی خریداری میں ہماری ساری احتیاطی تدابیراس وقت دھری کی دھری رہ گئیں جب پھول بانو آم کے منہ سے اپنا منہ لگاتے ہی چیخ اٹھیں: ’’ ہائے ہائے پھر سے وہی کھٹے آم اٹھا لائے۔‘‘
’’ کیا کہہ رہی ہو، آم کٹھے ہیں؟‘‘
’’ کھٹے؟ ارے اتنے کھٹے آم میں نے اپنی زندگی میں نہیں کھائے۔آخر آپ کو ہو کیا گیا ہے ، کیا آپ چن چن کر کھٹے آم گھرلارہے ہیں ؟‘‘
’’ بیگم! اب ہم کیا بتائیں ،آم خریدتے وقت تو میٹھے ہوتے ہیں لیکن گھر پہنچتے پہنچتے پتہ نہیں وہ کیسے کھٹے ہوجاتے ہیں۔‘‘
اور پھر ہم نے آموں کی تعریف کرتے ہوئے کہا:’’ بیگم! دیکھیے تو کتنے خوبصورت آم ہیں، بلکہ ہم تو کہیں گے کہ حسن وجمال میں یہ آپ پر بھی بازی مار رہے ہیں !‘‘
’’ارے آپ صرف آم کے ظاہر پر فدا ہورہے ہیں، اس کے باطن کو پرکھیے۔‘‘
’’بیگم! اگرہم باطن پرکھنے میں اتنے ہی ماہر ہوتے تو آپ کہاں اس گھر میں آتیں؟‘‘
’’ کیا کہا؟‘‘
’’ کچھ نہیں !ہم توایسے ہی ۔۔۔۔‘‘
ہم نے اپنا جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا۔دریں اثنا پھول بانو تنک کر پوچھ بیٹھیں۔ ’’ ارے اگر آپ آم کی خریداری میں عقل کا نہیں تو کم از کم ناک کا تواستعمال کیجیے۔‘‘
پھول بانو نے ناک کا ذکر کچھ اس طرح کیا جیسے حضرت انسان کو قدرت نے ناک محض آم سونگھنے کے لیے عطا کی ہے۔
’’ بیگم!ہم نے ناک کا استعمال بھی کرکے دیکھ لیا ۔اب ہم آپ کوکیا بتائیں کہ جو بھی آم ہم اپنی ناک کے قریب لے جاتے ہیں ، میٹھی میٹھی خوشبو آنے لگتی ہے۔ پتہ نہیں !یہ ہماری ناک کا قصور ہے یا پھر آم فروشوں کی چالاکی کا۔‘‘
’’ بیچارے آم فروش کیا چالاکی کرسکتے ہیں؟‘‘
’’ ہوسکتا ہے وہ آم کے منہ پرکوئی ایسا پرفیوم مار رہے ہوں جس کی بدولت آم سے میٹھی میٹھی مہک آرہی ہو۔‘‘
’’ کیا یہ ممکن ہے؟‘‘پھول بانو نے حیرت سے استفسار کیا۔
’’ کیوں نہیں! ارے بیگم کچھ ایسے پھل فروش بھی اس شہر میں موجودہیں جو آم کو جام اور جام کو آم بتا کر فروخت کردیتے ہیں ،شکر مانو کہ پھل فروش نے ہمیں آم کے بدلے جام نہیں تھمادیے!‘‘
’’ آپ کی اوٹ پٹانگ باتیں ، میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔‘‘پھول بانو ہماری باتوں سے بیزار ہوکر ڈرائنگ روم سے ہال کی سمت چلی گئیں۔
دوستو!ہم آم کے بڑے شوقین ہیں،جہاں آم دیکھتے ہیں، وہیں کھڑے ہوکر گنگنانے لگ جاتے ہیں :’’ ہم تو’’ آم‘‘ کے دیوانے ہیں ، بڑے مستانے ہیں، آہا ،او ہو!‘‘
کچھ ہم آم کے دیوانے ہیں اور کچھ آم فروش ہمیں دیوانہ بنا دیتے ہیں ۔ہماری سادہ لوحی توملاحظہ فرمائیں کہ ہمیں رس والے اور کاٹ کر کھانے والے آموں کی آج تک پہچان نہیں ہے۔ایسا کئی بار ہوچکا ہے کہ رس والے آموں کو آم فروشوں نے کاٹ کر کھانے والے آم بتلا کر ہمارے سر منڈھ دیا تو تو کئی بار کاٹ کر کھانے والے آموں کو رس والے آم کہہ کر ہمارے پلے باندھ دیا۔جب ہم اس دھوکے بازی سے پریشان ہوکرآم کی دکان پر پہنچے اور آم کو دیکھ کر سوال کیا یہ رس والے آم ہیں یا کاٹ کر کھانے والے ؟ تو آم فروش نے بڑا نپا تلا جواب دیا، کہنے لگا ’’ آپ کی مرضی پر ہے جناب! چاہے آپ انہیںچوسیں چاہے آپ انہیں کاٹیں!‘‘
بیشترپھل فروش بڑے ہی شاطرہوتے ہیں، پلک جھپکتے سڑا ہوا پھل کب آپ کی جھولی میں ڈال دیں، کہہ نہیں سکتے۔مشکوک حیدرآبادی کہتے ہیں: فی زمانہ ناپ تول میںکمی تو عام ہوگئی ہے،اگر آپ پانچ کیلو آم خریدیں تو یہ سوچ کر خریدیں کہ آپ چار کیلو آم خرید رہے ہیں ۔ یہ نہ صرف تولنے میں بلکہ گنتی میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں اور اگر انہیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیں تو معصومیت سے جواب دیتے ہیں ’’ ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں صاحب، سو غلطی ہوجاتی ہے!‘‘لیکن تعجب تو اس بات پر ہوتاہے کہ وہ کبھی حساب کتاب میں ایسی کوئی غلطی نہیں کرتے۔موز خریدتے وقت تو ہمیں نہایت چوکس و چوکنا رہنا چا ہیے ،کیونکہ انہیں ایک درجن موزوں میں کم از کم ایک سڑا ہوا موز ملانے تک چین ہی نہیں آتا!‘‘
پھل فروشوں کے نعرے بڑے دلچسپ ہوتے ہیں، کوئی سر شام کہتا ہے ’’ صبح سے اندر تھا، اب باہر آگیا، میٹھا آم ، میٹھا آم‘‘ تو کوئی اپنے کھٹے آموں کے تعلق سے چیخ چیخ کر اعلان کرتا ہے ’’ میٹھائی کی دکان ، میٹھائی کی دکان ، پچاس روپئے کیلو‘‘ تو کوئی اپنے سڑے گلے آموں کے تعلق سے رائے قائم کرتا ہے ’’ آہا کیا آم ہیں؟‘‘تو کوئی کہتا ہے ’’ وریجنل آم ، وریجنل آم‘‘
اکثرو بیشتر ہم ان دل خوش کن نعروں سے متاثر ہوکر پھل فروشوں کی سمت بے ساختہ دوڑپڑتے ہیں۔ کل ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا،البتہ ہم نے چمن بیگ کی ہدایت کے مطابق اس بار آم چکھ کر خریدنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔چنانچہ ہم نے آم فروش سے کہا ’’ بھیا! ہم آم اسی وقت خریدیں گے جب آپ آم ہمیں چکھاؤگے؟‘‘
’’ بالکل صاحب! یہ لو‘‘ آم فروش نے ہماری ہتھیلی پر فوراً آم کا رس نچوڑ دیا۔
ہم نے رس چکھا اور مطمئن ہوگئے ، پھر اچانک ہمیں خیال آیا کہ پھل فروش نے جو آم ہمیں چکھایا ہے اس کا سائز چھوٹا ہے اور جو آم ہم اس کی بنڈی سے خریدنا چاہتے ہیں وہ بڑے سائز کے ہیں۔ہم نے اس اہم نکتے کی جانب اس کی توجہ مبذول کروائی تو چرب زبان آم فروش بولا ’’ صاحب ! جو آم میں نے آپ کو چکھایا وہ بچہ ہے اور جو آم میں آپ کو دے رہا ہوں وہ اس کے بڑے بزرگ ہیں۔ ذراسوچیے ،بچہ جب اتنا میٹھا ہے تو بزرگ آم کتنے میٹھے ہوں گے؟‘‘
ہمیں آم فروش کی یہ دلیل بے حد پسند آئی اور ہم نے فوری پانچ کیلو آم خرید لیے ۔
گھر آکر جب ہم نے ایک بزرگ آم کو چکھا تو پتا چلا کہ وہ ہماری زندگی میں مزید کھٹاس بھرنے کے لیے چلے آئے ہیں ،ہم پھر سے آم کے بدلے ’’ دھوکا‘ کھا چکے تھے!
۰۰۰٭٭٭۰۰۰