مذہب

آمد ماہ ِربیع المنور اور اس کا روح افزا پیام

ماہ ربیع المنورکی آمد یاد تازہ کراتی ہے۔ اس مبارک گھڑی کی جس ساعت سعید میں نور مجسم، مظہرانوار حق، باعث تکوین عالم، سیدعالم سیدالانس والجان، ہادی عالم، محبوب کردگار، محسن انسانیت، رحمۃ للعالمین، سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خاکدان گیتی پر رونق افروز ہوئے۔

مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786

ماہ ربیع المنورکی آمد یاد تازہ کراتی ہے۔ اس مبارک گھڑی کی جس ساعت سعید میں نور مجسم، مظہرانوار حق، باعث تکوین عالم، سیدعالم سیدالانس والجان، ہادی عالم، محبوب کردگار، محسن انسانیت، رحمۃ للعالمین، سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خاکدان گیتی پر رونق افروز ہوئے۔ کفر و شرک اور ظلم و جورکی ظلمتیں کافورہوئیں،توحیدکا نورایسے پھیلاکہ کفروشرک کی ہنگامہ خیزیاں دریابردہو گئیں،عصیان وطغیان ،فسق وفجورکی تہہ درتہہ جمی گردوغبارسے اٹے دل کے آئینوں کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ نور ہدایت کی درخشانیاں منورکرگئیں۔ قَدْ جَاءَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ بیشک تمہارے پاس اللہ سبحانہ کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے(المائدہ ؍۱۵)۔بت خانے ویران ہوگئے،شجروحجرکے آگے جھکنے والی پیشانیاں الٰہ واحدکی بارگاہ قدس میں سجدہ ریزی کا شرف پاگئیں، چاند و سورج، ستاروں، دریائوں اور سمندروں کے مخلوق ہونے کی حقیقت دلوں میں راسخ ہوگئی،جہالت کی وجہ ان مخلوقات کی عظمت وبڑائی کا جوفاسدعقیدہ دل ودماغ میں راسخ ہوگیاتھا وہ محوہوگیا،باطل خدائوں کے آستانے ویران ہوگئے۔

سماج میں ہونے والے مظا لم کا بتدریج خاتمہ ہوگیا، زندہ درگور کی جانے والی معصوم بچیوں کوحیات نو ملی، یتیموں، بیوائوں اور مظلوموں کی ڈھارس بندھی اورایک مضبوط سہارا ان کے ہاتھ آگیا اور ان پرڈھائے جانے والے ظلم وجورسے ان کو نجات ملی، عورتوں کی ناموس اوران کی عزت وآبروکی حفاظت کا سامان ہوا۔ کمزور طبقات اور ذہنی غلامی، فکری واعتقادی بیماروں کو قبیلہ کے سرداروں ومذہبی ٹھیکہ داروں کی اجارہ داری سے آزادی نصیب ہوئی،باطل کی ظلمتوں نے باطن کے ساتھ ظاہری دنیا کوبھی تاریک کردیاتھاکفروشرک کے گھٹاٹوپ اندھیاروں کے ساتھ شراب وزنا،سودوسٹہ ،جبروتشدد،ظلم و تعدی، ظالمانہ وغیر منصفانہ سماجی نظام ،معاشرتی سطح پرعدم مساوات ،اونچ نیچ، چھوت چھات جیسی تاریکیاںپورے سماج کواپنی لپیٹ میں لے رکھی تھیں۔

ان تاریکیوں کوجوانتہائی عروج پرپہنچ گئی تھیں انھیں ایک دن چھٹنا تھا،وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدمبارک سے ایسے چھٹ گئیں جیسےمادی دنیا کے آسمانی افق پرجب خورشیدخاورنیردرخشاں بن کرجگمگاتاہے تورات کی گھٹاٹوپ تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اورروشن صبح نمودارہوتی ہے،نبی رحمت سیدنامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آمد کیا ہوئی کہ طویل ترین تاریک راتیں اپنی بساط الٹ کر رخصت ہوگئیں ،پھر کیا تھا ان کے شب وروز کا نظام اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے معمو رہوگیا ،دن میں وہ مجاہد فی سبیل اللہ تھے تو راتوں کے آخری پہر ندامت کے آنسوئوں سے وضو کرکے بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے سارے عالم پر رحمتوں کی رداء تن گئی ،وہ کم نصیب ہی تھے جو اس کی ایمان افروز راحت بھری چھائوں سے محروم رہے ،لیکن وہ پاکیزہ نفوس جن کی فطرت مسخ نہیں ہوئی تھی وہ تو جاں بلب مریضوں کی طرح ایک مسیحا کے منتظر تھے جو انہیں ایمان کا آب حیات نوش کرائے پھرکیا تھا، روحانیت کے پیاسے خوب سیراب ہوئے، توحید ربانی ومعرفت الٰہی کا جام نوش کرکے الٰہ واحد کے پرستار بن گئے، اللہ سبحانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب فرماتے ہوئے جن جلیل القدر القابات کا تذکرہ فرمایا ہے ان میں ایک عظیم الشان لقب ’’سراج منیر‘‘ ہے جس کی روحانی درخشانیاں وضو فشانیاں ہی ہیں جن سے کرئہ ارض کی ساری ظلمتیں کافور ہوئیں، اللہ سبحانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا مژدئہ جانفزا سنایا ’’تمہارے پاس ایک ایسے عظیم الشان رسول تشریف لائے ہیں جو تمہیں میں سے ہیں،تمہارا مشقت میں پڑجانا ان پر سخت گراں ہے، ہمیشہ تمہاری بھلائی ومنفعت کے خواہشمند رہتے ہیں، ایمان والوں کے ساتھ توبڑے ہی شفیق و مہربان ہیں‘‘ (التوبہ؍۱۲۹)۔ اس آیت پاک میں ’’عزیز علیہ ما عنتم‘‘ یعنی جوانسانوں کونقصان وضررپہونچاتی ہےوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرنہایت گراں گزرتی ہے ،عربی میں ’’عنت‘‘ ایسی چیزوں کوکہتے ہیں جن سے انسان کوضرروتکلیف پہنچے یعنی دنیا وآخرت ہر دو اعتبار سے انسانوں کاتکلیف و مشقت میں پڑجانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رنجیدہ ومغموم رکھتا ہے،انسانیت کی دنیوی واخروی منفعت کی تڑپ آپؐکوبے چین ومضطرب رکھتی ہے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کو مضرتوں سے بچانے اور نفع پہنچانے کے لئے فکرمند رہتے ہیں۔

اس آیت پاک میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ساری انسانیت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتۂ الفت و محبت کو بلیغ پیرایۂ بیان میں ذکر فرمایا ہے ،بنی نوع انسان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمومی رحمت کا سائبان ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سائبان رحمت میں جگہ پانے والوں کیلئے ایک ایسا ابرکرم ہیں کہ اس کے سایہ میں ٹھنڈک ہی ٹھنڈک ،خنکی ہی خنکی ، راحت ہی راحت ،سکینت ہی سکینت ہے ،الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے خیر خواہ و بہی خواہ بن کر اس دنیا میں تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جلوہ گری سے سارے عالم پر رحمتوں کے انوار چھا گئے، اسلام کےفطری پیغام رحمت سے محروم جاںبلب مریض پیغام توحید کا ایک جرعہ نوش کرکے شفایاب ہوگئے اور حیات نوپاگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل کردہ کتاب مبین کی روح افزا تعلیمات سے ان کوحیات تازہ ملی ۔کفروشرک جن کی گٹھی میں رچابساتھا ان کا کورانہ تقلیداورآباءپرستی کےجال سے نکلنا بڑادشوارتھا لیکن اللہ سبحانہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تاج نبوت ورسالت کی درخشانیوں کے ساتھ مزیدظاہری وباطنی کمالات اورقامت زیباکوبے کراں حسن وجمال سے مالا مال فرما کرانسانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گرویدہ بنا دیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوانہوں نےاپنامحبوب بنالیااوراپناسب کچھ نچھاورکرنےکے لئے تیارہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرکے اللہ سبحانہ نے یہ ارشادفرمایا’’کہ ہم نے عالیشان کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب منیرپرنازل فرمائی (کہ کفروشرک ،بدعت و ہوائے نفس،فسق وفجور)کی تاریکیوں سے آپ لوگو ں کو (ہدایت کے) نوروروشنی کی طرف لے آئیں (گمراہ انسانیت) کوان کے پروردگارکے حکم سے، زبردست اورتعریفوں والے اللہ کی طرف لائیںیعنی معرفت ربانی اور قرب الٰہی کی راہ دکھائیں‘‘ (مفہوم آیت: ۱،ابراہیم) ’’وہی ذات ہے جواپنے بندے پرواضح آیات نازل فرماتی ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کرنورکی طرف لائے‘‘ (الحدید؍۹)۔ چودہ سوسال سے زائدکا عرصہ گزرگیاآہستہ آہستہ دنیا پھرسے تاریکیوں کی لپیٹ میں ہے،کم وبیش دورجاہلیت ہی کی طرح ظلمتوں نے پھر سے ڈیرہ جمانا شروع کردیا ہے ،کون ہے جودنیا کواس تیرہ وتاریک ماحول سے نکالے۔ ظاہرہے یہ کام خیرامت کا ہے،اب وقت آگیا ہے کہ منصب رفیع کی امین یہ امت اپنے نبی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت ومحبت کی عملی تصدیق کرے،اورخیرامت کے منصب عالی کی لاج رکھے۔ارشادباری ہے’’تم بہترین امت ہوجوخلق خدا کی منفعت کیلئے پیداکی گئی ہے کہ تم معروف کاحکم کرتے ہواوربرائیوں سے روکتے ہواوراللہ سبحانہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘ (آل عمران: ۱۱۰) سیدنامحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سارے انبیاء ومرسلین علیہم السلام سے افضل ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک نسبت کی برکت سے یہ امت بھی دیگر اقوام وامم سے افضل ہے،اس مبارک نسبت کاحق یہ ہے کہ ایمان وعمل ،تقوی وطہارت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کو نقوشِ راہ بنائے،اہل بیت اطہارو حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور امت کے اسلاف نے کتاب و سنت کے مطابق جیسی پاکیزہ زندگی گزاری ہے اس کی پیروی کرے ،یہ منصب تقاضہ کرتاہے کہ امت مسلمہ اپنے کرداروعمل سے ایمان واعمال صالحہ کانورپھیلائے،بلا تخصیص قوم وقبیلہ ،ملک وعلاقہ سب کیلئے ابررحمت بن جائے، منافیٔ توحید اعتقادات، افکار و اعمال جوروحانیت کے چمنستان میں خارزاربن کر ایمان و اعمال صالحہ کی روح کو مجروح کررہے ہیں نبوی شفاء بخش تعلیمات سے اس کا مداوا کرے تاکہ بیمارروحوں کوحیات تازہ ملے، اعتقادات صحیحہ و افکار ِصالحہ کے اختیار کرنے اور اسی کی ساری انسانیت کو دعوت دینے سے صحیح معنی میں یہ امت خیرالامم کے منصب جلیل پر فائز ہوسکتی ہے ۔

آئو!ماہ میلادپاک کی مبارک وفرحت بخش ساعتوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے حقیقی خوشیوں کا سامان کریں،کتاب وسنت کی پاکیزہ تعلیمات کی عملی جلوہ گری سے روشنی بکھیریں، اسلامی تعلیمات کا عملی پیکربن کردعوت حق کی اشاعت کافریضہ انجام دیںاورانواراسلام کا ابررحمت بن کر عالم روحانیت پر چھا جائیں،کرداروعمل کے ایسے نقوش چھوڑیں جودلوں پر راست دستک دیں ،مقصدتخلیق کی خودتکمیل کریں اوردوسروں کواس کی تلقین کریں،اشرف المخلوقات کوجوعقل وفہم کا نوربخشاگیاہے قرآن وسنت کے نورسے ان کوجلا بخشیں،کتاب وسنت کے سایۂ رحمت میں جگہ پانے کی طلب وتڑپ انسانی دلوں میں پیدا کریں، راہ حق پر چلیں اوردوسروں کوبھی راہ حق پرچلنے کی دعوت دیں،رسول اکرم سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا وآخرت کی جن حقیقتوں سے پردہ اٹھایا ہے اورجس پر ہمارا ایمان وایقان ہے اس سے ساری انسانیت کو باخبر کریں۔ اپنے رب کی یاد اور اس کے ذکروفکرمیں زندگی بسرکریں اوراس میں حلاوت ایمانی وبشاشت قلبی کی جو روحانی کیفیات ہیں اس سے دلوں کو مسرور رکھیں اوردوسروں کوبھی اس نعمت سے بہرہ مندکرنے کی فکر کریں۔ دنیا کے عیش وآرام ،راحت وآسائش سے زیادہ آخرت کی راحت ورحمت کی چاہت سےدلوں کو شاد وآباد رکھیں، جرائم کےسیلاب پرایسا بندباندھیںکہ معاشرہ سے فسق و فجور کافور ہوجائے، عجز و انکساری، تواضع وخاکساری کے پیکر میں ڈھل جائیں، مسکینوں، عاجزوں، کمزوروں اور غریبوں کے کفیل وکارسازبنیں۔اللہ سبحانہ نے خیرامت بناکر خلافت ارضی کا تاج سرپررکھا ہے تواس کے احکام کی تعمیل میں زندگی گزارکر اس نعمت عظمی کا شکرانہ ادا کریں، نمازقائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، بھلائیوں کا حکم کریں اوربرائیوں سے روکیں ،اس کام کواخلاص و سنجیدگی کے ساتھ ایسے انجام دیں کہ مسلم سماج حقیقی معنی میںاس کا آئینہ دار بنے، مسجدیں آباد ہوں، پنجگانہ نمازوں میں بھی وہ تنگ دامنی کا شکوہ کریں،مساجد اقامت صلاۃ، ذکر و اذکار کے ساتھ کتاب وسنت کے پیغام کی اشاعت اورخاص طورپر ایمان والوں کو اسلام کی بنیادی ضروری تعلیمات سکھانے کیلئے وقف ہوں۔ اہل خانہ کو شرعی احکامات کا تابع بنائیں،گھریلونظام کو پوری طرح اسلام کے رنگ میں رنگ دیں۔

مذہبی، سیاسی، سماجی، ثقافتی، ملی، خاندانی، عائلی ہرشعبہ میںاسلام پسندانہ رجحانات کوفروغ دیں خاص کر ازدواجی زندگی میں اختلافات کی بڑھتی خلیج کوپاٹنے کیلئے حقوق زوجین سے متعلق اسلام کی پاکیزہ ہدایات سے روشنی حاصل کریں، قرآنی ہدایات اورسیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ عملی زندگی سے روشنی حاصل کرکے اپنے آپ کو ایک اچھا اور باکردار شوہرثابت کریں۔ بلاوجہ طلاق وخلع سے سخت گریز کریںطلاق دیناہی ناگزیر ہوتو ’’فامساک بمعروف او تسریح باحسان‘‘ (البقرہ: ۲۲۹) ’’فامسکوہن بمعروف او سرحوہن بمعروف‘‘ (البقرہ:۲۳۱) کی عملی تفسیر بنیں یعنی ازدواجی زندگی خوشی خوشی گزارنا مقصود ہویا ناگزیر وجوہات کی بناء رشتہ نکاح منقطع کرنا ہو ہر صورت میں عرف و دستور کے مطابق بھلائی و خیرخواہی کو پیش نظر رکھیں سورہ تحریم آیت مبارکہ (۶) میں دیئے گئے پیغام کو عملی زندگی کا نصب العین بنالیں،جس میں اہل ایمان سے خطاب کرکے ایک اہم ترین ہدایت دی گئی ہے کہ خودکواوراپنے اہل خانہ کوجہنم کا ایندھن بننے سے بچائیں، ظاہر ہے قرآن پاک وسیرت نبی علیہ التحیۃ والتسلیم سے روشنی حاصل کئے بغیر اپنی اوراپنے گھر والوں کی اصلاح اور ان کی تعلیم وتربیت ممکن نہیں۔ مسلمان تاجرہوں تواسلامی اصولوں کے مطابق تجارت کریں، جھوٹ،دھوکہ،خیانت سے اپنا دامن بچائیں،حدیث پاک میں سچے تاجروں کیلئے خوشخبری ہے کہ ان کا حشر انبیاء ،شہداء وصالحین کے ساتھ ہوگا۔ (ترمذی رقم ۱۲۰۹) وکیل ہوں تو جھوٹے مقدمات کی پیروی نہ کریں، مقدمہ سچاہوتب بھی اس کو ثابت کرنے کیلئے ہرگز جھوٹ اورفریب کا سہارانہ لیں،جج ہوں توہمیشہ عدل و انصاف کے تقاضوں کوپوراکریں(النساء؍ آیت ۱۳۵، المائدہ ؍آیت۸) میں اپنوں اور بیگانوں کی تخصیص کے بغیر جو عدل و انصاف اور ہوائے نفس کی اسیری سے رہائی کا پیغام دیا گیا ہے وہ ہر آن نگاہوں میں رکھیں الغرض ڈاکٹروطبیب ہوں ،استاد و معلم ہوں ،قائد قوم وسیاستداں ہوں خواہ کسی شعبہ سے جڑے ہوں پوری دیانت وامانت کے ساتھ اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآ ہوں۔ اس کے ساتھ تواضع، انکساری، منصف مزاجی ، اسلامی اخلاق کا عملی پیکربنے رہیں، اس طرح سارے شعبہائے حیات میں اسلامی اخلاق و کردار کا احیاء کریں اور یہی پیغام رحمت ساری انسانیت تک پہنچائیں۔

میلادپاک کے مبارک مہینہ میں ہمارے اسلاف کرام رحمہم اللہ اجمعین یہی پیغام ساری انسانیت تک پہونچاتے رہے ہیں،ماہ مبارک کی جب آمدہوتی تو شہرشہر، قریہ قریہ مساجد اور خانقاہیں آباد ہوجاتیں، محافل میلادپاک بصدعقیدت واحترام منعقدکئے جاتے،سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی الفت ومحبت، عظمت واحترام ،توقیروتعظیم پرمدلل روح افزابیانات ہوتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے نورانی گوشوں سےحاضرین کوواقف کروایا جاتا،چونکہ وہ اتقیاء ،ازکیاء،صلحاء تھے،ان کی زندگی کے شب وروزبڑے پاکیزہ تھےگویا وہ انوار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کےترجمان تھے،ان کی مبارک زندگیاں کھلی کتاب تھیں،اس کے ورق ورق پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت واحترام،مبارک سیرت پاک کے عملی نقوش مرتسم تھے اس لئےان کی باتیں دلوں پر اثرانداز ہوتیں اوراس کے روحانی اثرات تادیرمسلمانوں میں دیکھے جاتے، موجودہ حالات اسی کے متقاضی ہیں ورنہ ظاہرداریاں جواسلامی روح سے عاری ہوں کسی کو متاثرنہیں کرسکتیں چونکہ اسلام خود اس کا حامی نہیں ہے ،ریا، دکھاوا، ایک ایسا مرض ہے جو اعمال خیر کے ذخیرہ کو گھن کی طرح کھاجاتا ہے ،ایمانی تقاضوں کی تکمیل کے بغیر اعمال ایسے ہی کھوکھلے اور بے جان ثابت ہوتے ہیں ۔

اس لئے اہل ایمان کواس سےحد درجہ اجتناب کرنا چاہیے، اپنے سینوںکو نور نبوت کی نورانی کرنوں سے تاریک رکھتے ہوئے اخلاص و للہیت کے بغیر جلسے جلوس،نظروں کوخیرہ کرنے والی روشنیاں،سامعین کوخوش کرنے والی شعلہ بیانیاں ثمرآور اور نتیجہ خیزنہیں ہوسکتیں ،خطابات میں فصاحت وبلاغت کے دریا بہانے سے کچھ ہاتھ نہیں آسکتا ،اس سے سماعتوں میں جل ترنگ ضرور بج سکتے ہیں دلوں کو شادماں ومسرور کرسکتے ہیں لیکن اسلام کے حقیقی پیغام کو کانوں کی راہ سے دلوں تک نہیں پہنچاسکتے ،علامہ اقبال نے اسی درد دل کو شعری پیرہن میں ڈھالا ہے ۔

تمدن تصوف شریعت کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب
مگر لذت شوق سے بے نصیب
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

تحریر و تقریر یقیناً موثر ذرائع ہیں بشرطیکہ اخلاص نیت، دل دردمند و فکر ارجمند کے ساتھ کتاب وسنت کے دلائل کی روشنی میں دلنشین سنجیدہ پیرائے بیان میں ہوں اس کے ساتھ ساتھ صاحب تقریروتحریربھی مزیدعمدہ اسلامی اخلاق اوراعلی کردار سے مزین ہوتو’’نورعلی نور‘‘جس سے مقناطیسی کشش پیدا ہوجاتی ہے، انسانی دلوں پرراست طورپراثراندازہونے میں اس کا بڑا کردار ہے،یہی وہ پیغام ہے جوماہ ربیع المنور کی مناسبت سے عام کرنے کی ضرورت ہے۔اس پیغام رحمت کو عام کرنےکے مسلمان امین ہیں،ماہ ربیع المنور کی آمد یقینا ساری امت کیلئے باعث مسرت ہے ،اس مبارک مہینے کی آمد یاد تازہ کراتی ہےکہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ تعلیمات سے امت مسلمہ کے سینے روشن و منور ہوں، انسان کی اندرونی دنیا و بیرونی دنیا سیرت طیبہ کی عطر بیز خوشبوؤں سے معطر ہو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آمد کا یہی وہ پیغام ہے جو ساری انسانیت کی کامیابی کا ضامن ہے، یہی پیغام علامہ اقبال رحمہ اللہ نےمسلمانوں کودیا ہے۔

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کردے
٭٭٭