قانونی مشاورتی کالم

اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل اراضیات پر قبضہ جات کو باقاعدہ بنانے کا عمل معرض التواء میں پڑا ہوا ہے

ہماری رائے میں اور قانون کی نظر میں فاضل اراضیات پر جو 23-3-2008ء کی تاریخ سے قابض ہے اور اس کے پاس دستاویزی ثبوت موجود ہو تو درخواست پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیوں کہ ایسی اراضیات کے وہ خود قانونی مالک ہیں۔

حیدرآباد میں اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل قرارکردہ اراضیات پر اکثر قابضین نے اپنے مکانات تعمیر کروالئے ہیں اور تقریباًتیس سال سے وہیں مقیم رہ کر پراپرٹی ٹیکس بھی ادا کررہے ہیں لیکن گورنمنٹ ان کے حقِ ملکیت کو تسلیم نہیں کررہی ہے اور بھاری قیمت کے عوض قبضہ جات کو باقاعدہ بنانے کا گورنمنٹ آرڈر بھی جاری کیاگیا ہے اور کئی ایک حضرات نے اپنی درخواستیں معہ فیس بھی ادا کردی ہیں لیکن آج تک کسی کی بھی درخواست پر عمل درآمد نہیں ہوا اور ساری درخواستیں معرض التواء میں پڑی ہوئی ہیں۔

متعلقہ خبریں
عجیب سوال۔ تباہ کن ارادے
مالکِ جائیداد کی وفات کے بعد ورثاء آپس میں جائیداد بانٹ سکتے ہیں۔ اگر آپس میں کوئی اختلاف نہ ہو
گائے کے پیشاب سے علاج
ناپاکی کا دھبہ صاف نہ ہو
ٹولی چوکی۔ شیخ پیٹ روڈ کی توسیع جائیدادوں کی بلا معاوضہ طلبی

ہماری رائے میں اور قانون کی نظر میں فاضل اراضیات پر جو 23-3-2008ء کی تاریخ سے قابض ہے اور اس کے پاس دستاویزی ثبوت موجود ہو تو درخواست پیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیوں کہ ایسی اراضیات کے وہ خود قانونی مالک ہیں۔

1976ء کا قانون1999ء میں منسوخ ہوا ۔ یعنی جو قابض ہے وہی مالک ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کی روشنی میں اگر حکومت نے ایسی اراضی کا مکمل قبضہ حاصل کرلیا ہویعنی (Physical Possession) حاصل کرلیا ہو تو ایسی اراضی حکومتی ملکیت قراردی جائے ۔ دوسری جانب اگر23-3-2008ء کی تاریخ سے پہلے ہی سے قابض ہے اور اس کے پاس دستاویزی ثبوت مثلاً بیع نامہ‘ رجسٹر شدہ یا نوٹری ۔ مکان ٹیکس رسید۔ آدھار کارڈ ۔ الکٹرک یا ٹیلی فون بل۔ ووٹرس لسٹ میں نام کا اندراج ہو تو اسے ہی مالک قراردیا جائے گا اور حکومت کو اسے بے دخل کرنے یا اس کی قیمت حاصل کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ۔ 23-3-2008ء کی تاریخ اس وجہ سے اہمیت رکھتی ہے کہ اسی تاریخ کو حکومت آندھرا پردیش نے1999ء کے منسوخ شدہ قانون کو تسلیم کرلیا تھا۔

ایک تلنگانہ ہائیکورٹ کے فیصلہ نے اس صورت کو بالکل واضح کردیا۔ NILE LTD. کیس میں ہائیکورٹ نے حکومت کے رقمی مطالبہ کو مسترد کردیا کیوں کہ 23560 مربع میٹر اراضی کو فاضل قراردیا گیا تھا لیکن23-3-2008ء سے قبل ہی یہ کمپنی اپنا کام کررہی تھی یعنی حکومت نے اس اراضی کا Actual Physical Possession حاصل نہیں کیا تھا۔ اس مقدمہ میں حکومت کی ہار ہوئی۔

ہماری رائے میں درخواستیں پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن جو درخواستیں داخل کی گئی ہیں اور ان پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے تو ہائیکورٹ میں رٹ درخواست دائر کرکے قبضہ جات کی باقاعدگی کے احکامات حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

a3w
a3w