دہلی

بلڈوزر انہدامی کارروائیوں پر اقوام متحدہ کو بھی تشویش

اقوام متحدہ کے خصوصی رپورتاژ برائے مناسب امکنہ بالاکرشنن راج گوپال نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے مکانات اور تجارتی اداروں کا بطور سزا اور من مانی انہدام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی سنگین شکل ہے۔

نئی دہلی: اقوام متحدہ کے خصوصی رپورتاژ برائے مناسب امکنہ بالاکرشنن راج گوپال نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے مکانات اور تجارتی اداروں کا بطور سزا اور من مانی انہدام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی سنگین شکل ہے۔

متعلقہ خبریں
مسلمانوں کی جان، املاک، عبادت گاہوں اور تجارت پر جان لیوا خطرات منڈلارہے ہیں۔ مفکرین کی رائے
سعودی عرب میں اقامہ اور ملازمت قوانین کی خلاف ورزیوں پر 24 ہزار فیصلے
امریکہ کا عمران خان اور دیگر قیدیوں کی حفاظت پر اظہارِ تشویش
اسرائیل جان بوجھ کر فلسطینیوں کو بھوکا مارنا چاہتا ہے: اقوام متحدہ

بالا کرشنن نے جمعہ کے روز ریاستی حکومتوں کی جانب سے لینڈ گرابنگ کی سزا کے طور پر انہدامی کارروائیوں کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہاکہ تمام من مانی انہدامی کارروائیاں قانونی تائید سے عاری ہیں۔ اس مقام پر جہاں منہدمہ ڈھانچہ موجود تھا‘ قانونی ملکیت یا کسی حق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

یہ ایک اہم گیارنٹی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ قانونی تکنیکی خامیوں کے بہانے انہدامی کارروائیوں کے نام کا کمزور افراد یا برادریوں کی اراضی کو ہڑپ کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ راجا گوپال کی پیروی وکلا ورندا گروور‘ آکرش کامرا‘ سوتک بنرجی اور دیویکا تلسیانی نے کی۔

انہوں نے بلڈوزر کے ذریعہ انہدامی کارروائیوں کے کیس میں شامل ہونے کے لیے عدالت سے اجازت طلب کی۔ اس کیس کی سماعت یکم اکتوبر کو جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ پر یکم اکتوبر کو ہوگی۔ عدالت نے 17 ستمبر کو بلڈوزروں کے ذریعہ غیرقانونی انہدامی کارروائیوں پر روک لگادی تھی۔

جسٹس وشواناتھن نے اترپردیش جیسی ریاستوں پر کڑی تنقید کی تھی۔ راجا گوپال نے کہاکہ سزا کے طور پر انہدامی کارروائیاں بالخصوص اقلیتی برادری کے ارکان کے خلاف کارروائیاں ظالمانہ‘غیر انسانی اور جانبدارانہ رویہ یا سزا ہیں “۔انہوں نے کہاکہ جرائم پر قابو پانے یا نظم و ضبط بحال رکھنے کے لیے انہدامی کارروائیاں یکسر غیرقانونی ہیں۔ رپور تاژ نے کہاکہ ہندوستان میں حالیہ برسوں میں انتہائی غریب برادریوں کے انخلا میں پریشان کن اضافہ دیکھاگیا ہے۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتاہے کہ حکم جنوری 2022 تا31 دسمبر 2023‘سرکاری انہدامی کارروائیوں میں تقریباً 7.4لاکھ افراد اپنے مکانات سے محروم ہوگئے ہیں۔ 2023 میں ایسی کارروائیوں کی رفتار غیرمعمولی سطح تک پہنچ گئی تھی۔ ملک بھر میں 5,15,752 افراد کا تخلیہ کرایاگیا اور 1,07,449 مکانات منہدم کردیئے گئے۔

اعداد و شمار سے یہ بھی انکشاف کیا کہ 31 فیصد افراد کااس عرصہ کے دوران زبردستی تخلیہ کرایاگیا جن کا تعلق حاشیہ پر رہنے والے گروپس بشمول درجہ فہرست ذاتیں‘ درج فہرست قبائل‘ دیگر پسماندہ طبقات‘ قبائیلی برادریوں‘ تارکین وطن اور مذہبی اقلیتوں سے تھا۔ انہوں نے کہاکہ جبری طور پر تخلیہ کرانے سے بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتاہے۔

گھروں کو تباہ کرنے سرکاری اختیارات کا من مانی استعمال حفاظت و سلامتی‘ امن و وقار کے ساتھ رہنے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ ایسی انہدامی کارروائیاں جن کے نتیجہ میں لوگ بے گھر ہوتے ہیں۔ یا شخصی منقولہ جائیداد تباہ ہوتی ہیں ‘ بین الاقوامی انسانی حقوق قانون کی خلاف ورزی ہے۔

a3w
a3w