بابری مسجد کا انہدام: تاریخ، واقعات، اور اثرات
کوبرا پوسٹ کے 2014ء کے ایک اسٹنگ آپریشن میں دعویٰ کیا گیا کہ بابری مسجد کا انہدام کسی ہجوم کا غیر منصوبہ بند عمل نہیں تھا بلکہ وشو ہندو پریشد اور شیو سینا کی جانب سے کئی ماہ کی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔
تعارف
6 دسمبر 1992ء کو ایودھیا میں بابری مسجد کا انہدام ہندوستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ کا ایک اہم اور متنازعہ واقعہ ہے۔ یہ مسجد 16ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی اور کئی دہائیوں سے ہندو اور مسلم برادری کے درمیان تنازع کا مرکز بنی رہی۔ اس واقعے نے نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں شدید ردِ عمل کو جنم دیا۔
منصوبہ بندی اور انہدام
کوبرا پوسٹ کے 2014ء کے ایک اسٹنگ آپریشن میں دعویٰ کیا گیا کہ بابری مسجد کا انہدام کسی ہجوم کا غیر منصوبہ بند عمل نہیں تھا بلکہ وشو ہندو پریشد اور شیو سینا کی جانب سے کئی ماہ کی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔ اس واقعے کے پیچھے ایک واضح سیاسی حکمت عملی کارفرما تھی، جس کا مقصد ہندوتوا کے نظریے کو تقویت دینا اور سیاسی فوائد حاصل کرنا تھا۔
معاشرتی اثرات
بابری مسجد کے انہدام کے بعد پورے ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے، جن میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ممبئی، دہلی، کانپور، احمد آباد اور دیگر شہروں میں بدامنی کے واقعات سامنے آئے۔ ان فسادات نے ملک کے سماجی تانے بانے کو شدید نقصان پہنچایا اور فرقہ واریت کو ہوا دی۔ 1993ء میں ممبئی دھماکوں اور دیگر دہشت گردانہ کارروائیوں کا جواز بھی انہی واقعات کو قرار دیا گیا۔
تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی
16 دسمبر 1992ء کو یونین ہوم منسٹری نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے لب رہان کمیشن قائم کیا۔ 16 سال کی محنت کے بعد کمیشن نے 2009ء میں اپنی رپورٹ پیش کی، جس میں واضح کیا گیا کہ یہ واقعات اچانک نہیں تھے بلکہ پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت انجام دیے گئے تھے۔ 2017ء میں سپریم کورٹ نے بی جے پی کے رہنماؤں ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اور اوما بھارتی سمیت دیگر افراد پر سازش کے الزامات بحال کر دیے۔
بین الاقوامی ردِ عمل
بابری مسجد کے انہدام پر بین الاقوامی ردِ عمل بھی سامنے آیا۔ خلیجی ممالک میں مظاہرے ہوئے، جن میں ہندو مندروں اور ہندوستانی قونصل خانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ دبئی میں احتجاج کے دوران ہندوستانی اسکول کے زنانہ حصے کو نذرِ آتش کیا گیا، جس کے بعد کئی مظاہرین کو گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا گیا۔
نتائج اور سبق
بابری مسجد کا واقعہ اور اس کے بعد کے فسادات ہندوستان کی فرقہ وارانہ سیاست کی ایک افسوسناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ واقعہ نہ صرف ماضی کی سیاست پر اثرانداز ہوا بلکہ موجودہ دور میں بھی اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ہندوستانی معاشرے کے لیے ایک سبق ہے کہ مذہبی ہم آہنگی اور رواداری ہی ملک کو پائیدار ترقی کی جانب لے جا سکتی ہے۔
یہ مضمون تاریخی حوالوں اور تحقیقات کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو بابری مسجد کے انہدام اور اس کے اثرات کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کی جا سکے۔