مضامین

جنگ آزادی میں مسلمانوں کااہم کردار پھر اس کے ثمرات سے محرومی کیوں؟

ہمارے ملک عزیز ہندوستان میں ہر سال آزادی کا جشن منایا جاتا ہے لیکن حقیقی معنی میں خوشی و شادمانی اْس وقت پوری ہوتی، جب اس کے ہر شہری کو آزادی کے ثمرات مساوی طور پر ملتے …

مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار و صحافی
9849099228

متعلقہ خبریں
آزادی، وطن کے متوالوں کے لئے ایک عظیم کارنامہ، مانو میں یومِ آزادی تقریب، پروفیسر عین الحسن کا خطاب
شہزادی درشہوار ہاسپٹل کے قریب یوم آزادی تقریب کا اہتمام
گورنر اور چیف سکریٹری نے ترنگا لہرایا
ہیومن رائٹس ڈیولپمنٹ ویلفیئر اسوسی ایشن کے زیر اہتمام یوم آزادی تقریب
کاروان ساہو میں یوم آزادی تقریب، رکن اسمبلی کوثر محی الدین نے ترنگا لہرایا

ہمارے ملک عزیز ہندوستان میں ہر سال آزادی کا جشن منایا جاتا ہے لیکن حقیقی معنی میں خوشی و شادمانی اْس وقت پوری ہوتی، جب اس کے ہر شہری کو آزادی کے ثمرات مساوی طور پر ملتے … برخلاف اس کے، آزادی کے پھل اگر عوام کے کسی ایک خاص طبقہ کی حد تک محدود ہوجائیں اور دیگر باشندگان ملک کو اس سے محروم رکھا جائے تو یہ سراسر ناانصافی اور دیگر برادران وطن کی حق تلفی، و شرافت سے فراری اور ایک مہذب سوسائٹی کے لئے بدنما داغ ہے…

اس ملک میں یہاں کے رہنے والے اکثریتی طبقے کے ہمارے بھائی پچھلے کئی سالوں سے آزادی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں اور برسر اقتدار لوگوں نے بھی انہیں دریا دلی سے کام لیتے ہوئے خوب نوازتے رہے، اگر کوئی برادری اس ملک کی آزادی اور اس کے ذریعہ حاصل ہونے والے ثمرات سے محروم ہے تو صرف مسلمان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا عظیم ملک اس وقت جشن آزادی منارہا ہے، کیا یہ اس کا مستحق بھی ہے؟ جبکہ اس ملک کی ایک بڑی اقلیت آزادی کے ثمرات سے یکسر محروم کرکے رکھ دی گئی ہے؟ کیا ہمارے ارباب اقتدار نے اس جانب کبھی توجہ دی؟پچھلے سات دہائیوں سے مسلمانوں کی جو حالت تھی، آج کے ہندوستان میں ان کی جو حالت بناکر رکھ دی گئی ہے اگر اس کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کو مسلسل تنزل کی طرف ڈھکیلا جاتا رہا ہے۔

آزاد ہند کا ( مسلمان) ہر شہری یہاں کے ہر باضمیر اور اس کے دستور پر یقین رکھنے والے انصاف پسند آدمی سے یہ سوال کرنا چاہتا ہے کہ کیا مسلمانوں نے اس ملک کی کوئی خدمت ہی نہیں کی؟ کیا مسلمانوں نے اس ملک کو آزادی دلانے کے لئے اپنے خون کی قربانی پیش نہیں کی؟ کیا مسلم قائدین و عوام نے لاکھوں کی تعداد میں آزادی کی خاطر موت کو گلے نہیں لگایا؟حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی آزادی کے لئے سب سے پہلے کسی میں احساس پیدا ہوا ہے تو صرف مسلمانوں میں ہوا، اگر کسی نے اس سلسلہ میں پیش قدمی کی ہے تو وہ مسلمان ہیں، اگر ملک کی خاطر کسی نے جام شہادت نوش کیا ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں ہی نے کیا۔پھر آخر کیوں ہمارے ملک کے ارباب سیاست و دانشوران قوم ’’مسلم جانثارانِ وطن‘‘ کے کارناموں کو اپنی زبان پر نہیں لاتے؟ اسی طرح کی کئی اور سوالات ہیں جو ہندوستان کی آزادی کے سلسلے میں سوالیہ نشان بن چکے ہیں!!

انصاف کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کو آزادی دلانے کی جدوجہد میں سب سے پہلے مسلمانوں ہی نے اپنا قدم بڑھایا اور اس سلسلہ میں سب سے پہلے اگر کسی کا خون اس سرزمین پر بہا ہے ، تو وہ سراج الدولہ کا خون تھا۔ اس مرد مجاہد نے انگریزوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لئے جدوجہد کی اور پلاسی کی مشہور جنگ میں انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان عزیز قربان کردی۔مسلم مجاہدین آزادی، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، ملک کو آزاد کرانے کے لئے اپنے سینوں کو انگریز فوجوں کے گنوں توپوں کے سامنے پیش کردیا۔

آج ٹیپو سلطان شہیدؒ کے نام کو حرف غلط کی طرح مٹادیا گیا ہے حالانکہ 4 مئی 1799ء کو ٹیپو نے سری رنگا پٹنم کے میدان جنگ میں ملک کی بقاء اور اس کی آزادی و سلامتی کے لئے انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا اور اپنی زندگی میں کبھی بھی انگریزوں کو اس سرزمین پر جمنے نہیں دیا۔ انگریز ٹیپو سلطان ہی کو اپنی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تصور کرتے تھے، جب ٹیپو سلطان شہید ہوئے تو انگریزوں نے اطمینان کی سانس لی اور کہاکہ آج ہندوستان ہمارا ہے…

1803ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہوتے ہی شاہ ولی اللہؒ کے فرزند شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے کہاکہ اب ہمارا ملک غلام ہوگیا ہے اور فتویٰ دیا کہ ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جدوجہد کرنا بیحد ضروری ہے۔ اس طرح جہاد آزادی کا یہ سلسلہ 1818 ء تک چلا جس کے بعد ایک اور تحریک چلائی گئی جس کی قیادت سید احمد شہیدؒ نے کی۔ سید احمد شہیدؒ نے سارے ملک میں 13 سال تک مسلح جدوجہد کی اور سارے ہندوستان کا دورہ کرتے ہوئے انگریزوں کے خلاف بغاوت اور نفرت کا ماحول پیدا کردیا۔ آخرکار 10 جنوری 1831ء کو بالاکوٹ کے میدان جنگ میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے وہ شہید ہوگئے۔ ان کے معاون مولانا اسماعیل شہیدؒ دہلوی نے بھی اسی میدان کارزار میں جام شہادت نوش کیا۔ ان ممتاز علماء کی شہادت کے باوجود مسلمانوں کے جذبۂ جہاد آزادی میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اور بھی زیادہ جوش اور ولولہ پیدا ہوگیا۔

1857 ء میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی قیادت میں شاملی کے میدان میں انگریزوں سے سخت مقابلہ ہوا۔ اس طرح یکے بعد دیگرے مسلم قائدین اٹھتے رہے اور انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی ہوتی رہی۔ چنانچہ انگریز اپنا حقیقی دشمن مسلمانوں کو ہی تصور کرنے لگے اور جہاں کہیں بھی مسلم وضع کے لوگ نظر آتے ان کو پکڑا جاتا اور پھانسی پر لٹکادیا جاتا، اس طرح کئی لاکھ مسلمان تختہ دار پر چڑھادیئے گئے جن میں ایک چوتھائی تعداد علماء کرام کی تھی۔

1885 ء میں انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا۔ مسلمانوں کی ایک جماعت جمعیۃ العلماء جو پہلے ہی سے موجود تھی، اس نے ماضی کا شاندار ریکارڈ رکھتے ہوئے بھی نوزائدہ جماعت انڈین نیشنل کانگریس سے بھرپور تعاون کیا۔اس کے بعد کئی اور مراحل آئے یعنی ترک موالات، عدم تعاون، سائمن کمیشن کا بائیکاٹ، سیول نافرمانی وغیرہ۔ 1939 ء میں جب دوسری جنگ عظیم کے لئے جبری طور پر بھرتی کی جانے لگی تو اس کی مخالفت میں بھی مسلمان پیش پیش رہے، ان کو گرفتار کرکے طرح طرح کی اذیتیں دی جانے لگیں، لیکن یہ مسلمانوں کی ہی جدوجہد رہی کہ دوسری جنگ عظیم میں متحدہ ہندوستان کے لوگوں کو قربانی کا بکرا بننے سے بڑی حد تک بچایا گیا۔ انڈین نیشنل کانگریس صرف نعرے لگاتی اور میمورنڈم پیش کرتی جبکہ عملی طور پر جدوجہد صرف مسلمان کرتے۔ اس طرح مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے باعث آزادی کی راہیں ہموار ہوتی گئیں۔

اس سلسلہ میں اگر صرف کانگریس پارٹی کو ’’آزادی‘‘ دلانے والی پارٹی کہا جائے، تو یہ تاریخ کے ساتھ بھونڈا مذاق اور عوام کو دھوکہ دینا ہے جیسا کہ عام طور پر مسلم دشمن صحافت کا رول رہا ہے۔ اس طرح کی دروغ گوئی میں ’’مسلم لیبل‘‘ کے ساتھ شائع ہونے والے بہت سے جرائد اور اخبارات بھی شامل ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ہندوستان کو آزاد کروانے میں (سوائے ایک دو مشہور مسلمانوں کے) صرف ہندوئوں نے اپنا رول ادا کیا ہے تو یہ سراسر ناانصافی اور صریحاً حقائق کو دفن کرنا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کانگریس عین موقع پر آکر آزادی کی جدوجہد میں کود پڑی اور مسلم قیادت سے اسے ’’ہائی جیک‘‘ کرلیا اور ’’سہرا‘‘ اپنے سر باندھ لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی افریقہ سے آنے والے ایک وکیل صاحب ایم کے گاندھی کو جامع مسجد دہلی لیجاکر ’’علی برادران‘‘ نے عوام سے متعارف کروایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان شروع سے ہی انگریز سامراج کے خلاف لڑتے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں نے 5 اگست 1942 ء کو انگریز سامراج سے کہہ دیا کہ ’’تم ہندوستان چھوڑ دو‘‘ جس کے بعد کانگریس نے 8 اگست 1942 ء کو اپنے بمبئی اجلاس میں قرارداد پاس کی کہ انگریز ہندوستان چھوڑ دیں !!چنانچہ ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں فرنگیوں کی تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کا شرف بھی مسلمانوں ہی کو حاصل رہا۔

یہاں کے ارباب اقتدار و سیاست نے آزادی کی نعمتوں اور ثمرات سے مسلم برادری کو یکسر محروم رکھا اور مسلمانوں پر ’’چوٹ‘‘ لگائی جاتی : ’’سنبھل کے رہنا اس دیش کے چھپے ہوئے غداروں سے‘‘ جس میں روئے سخن مسلمانوں کی طرف ہوتا ہے!!

اس ملک میں آزادی سے قبل ہی سے ہندو مہا سبھا اور آریہ سماج جیسی مسلم دشمن تنظیمیں (جن کی ذریت آج آر ایس ایس نہ جانے اور کتنے ناموں سے کارکرد ہیں) مسلمانوں کے خلاف منظم سازشیں کرتی رہیں اور آج بھی ان کی وہی حکمت عملی جاری ہے۔ ان کے کرتا دھرتا یہی چاہتے ہیں کہ یہ ملک مکمل طور پر ہندو راشٹر میں تبدیل ہوجائے۔ ہندوستان کو تقسیم کرنے میں بھی اسی ذہن کی کارفرمائی رہی تاکہ ہندو راشٹر کا خواب پورا ہوسکے۔ اس نے کچھ ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ مسلمان ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کریں اور تقسیم ہند کی ذمہ داری آسانی کے ساتھ مسلمانوں کے سر تھوپی جاسکے، حالانکہ مسلمان جب انگریزوں سے ملک کی آزادی کے لئے لڑ رہے تھے اس وقت ان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ اپنا ملک عزیز ہندوستان کبھی تقسیم ہوگا۔ مسلم مخالف ذہن نے نفرت کے بیج بوئے اور سارے ہندوستان میں منصوبہ بند طریقے سے فرقہ وارانہ فسادات کروائے۔ اسی نے شدھی سنگٹھن کی بنیاد رکھی اور بعد میں آر ایس ایس کا روپ دھار لیا جس نے میڈیا اور انتظامیہ وغیرہ پر قبضہ کرلیا، آج پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا (گودی میڈیا) کے نام سے عیاں ہوچکی ہے۔

پچھلے پون صدی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو ہر میدان میں کمزور کرنے اور ان کو پست تر بنانے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتے رہے اور بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے جو کام کیا، وہ یہ کہ تعلیمی اداروں میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے، اس کو بدل ڈالا اور اس میں دروغ گوئی کی انتہا کردی۔ تاریخ کی کتابوں سے مسلم مجاہدین آزادی کے ناموں کو حرف غلط کی طرح مٹادیا اور اس کی جگہ ہندو سورمائوں کے نام ٹھونس دیئے۔ اس سلسلہ میں اترپردیش کی سنگھی سرکار کی موجودہ پالیسی یکے بعد دیگرے ہمارے سامنے آرہی ہیں۔

علاوہ ازیں نونہالوں کے ذہن خراب کرنے کے لئے اسکولی نصاب میں بھی ایسی باتوں کو درج کروایا گیا جس کے پڑھنے کے بعد نئی نسل کو اس بات کا تاثر دیا جاسکے کہ مسلمانوں نے اس ملک پر بہت ظلم کیا وغیرہ وغیرہ۔ اردو کو سارے ملک سے مٹانے کی کامیاب کوششیں کی گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی یہ بھی پالیسی رہی کہ انھوں نے بھارتی تہذیب کے نام پر ہندو تہذیب کو پوری شدت کے ساتھ عوام کے سامنے لایا۔ اس سلسلے میں سرکاری محکمہ نشر و اشاعت کو ناجائز طور پر استعمال کرتے ہوئے ریڈیو، ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کا خوب استحصال کیا۔

آزادی کے ان طویل برسوں میں صرف اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ مسلمانوں کو معاشی اعتبار سے کمزور کرنے کے لئے ان کے کاروباری ادارہ جات اور دوکانات کو نذر آتش کیا گیا اور دوسری جانب ملازمت کے لئے سرکاری محکمہ جات و ادارہ جات کے دروازے ان پر بند کردیئے گئے۔ آج یہ حالت ہوگئی ہے کہ مسلمانوں کا سرکاری ملازمتوں میں تناسب گھٹتے گھٹتے صرف دو فیصد رہ گیا ہے جس میں صرف نچلے درجے کی جائیدادیں شامل ہیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلمانوں کی تعداد معدوم ہوگئی۔ مختصر یہ کہ آزادی اس وقت تک حقیقی خوشی و شادمانی کا پیغام پیش نہیں کرسکتی جب تک کہ یہاں کے رہنے بسنے والوں کے ساتھ مساویانہ سلوک نہ کیا جائے۔شاعر نے اس سلسلہ میں اپنی بات یوں رکھی:

جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی

لہٰذا اس ملک پر جتنا حق کسی اور شہری کا ہے اتنا ہی ایک مسلمان کا بھی ہے جو کچھ فوائد کوئی اور شہری حاصل کررہا ہے مساویانہ طور پر مسلمانوں کو بھی ملنے چاہیے، تب جاکر ہم اپنے عظیم بھارت میں یہ نعرہ لگانے میں حق بجانب ہوں گے کہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ ’’سب کا وشواس‘‘۔ تو پھرآئیے پرامید ہوتے ہوئے ہم سب ہندوستانی شہری ایک آواز ہوکر یہ کہیں کہ…

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

٭٭٭

a3w
a3w