مضامین

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں، اقلیتی ادارے متحرک کب ہوں گے!

شیطان نے فون کرکے ایک شخص سے کہا کہ وہ کسی نیک انسان کا موبائیل نمبر دے تاکہ میں اس کو تنگ کرسکوں تو اس شخص نے مسجد کے صدر کا نمبر دے دیا تو شیطان حیران ہوکر بولا کہ بھائی مروائے گا کیا یہ تو ہمارے سردار کا نمبر ہے۔

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی۔ پی ایچ ڈی

شیطان نے فون کرکے ایک شخص سے کہا کہ وہ کسی نیک انسان کا موبائیل نمبر دے تاکہ میں اس کو تنگ کرسکوں تو اس شخص نے مسجد کے صدر کا نمبر دے دیا تو شیطان حیران ہوکر بولا کہ بھائی مروائے گا کیا یہ تو ہمارے سردار کا نمبر ہے۔

متعلقہ خبریں
کسانوں کے قرضوں کی معافی اسکیم ریونت ریڈی کا ایک انقلابی قدم، ڈاکٹر شجاعت علی کا بیان

یہ بظاہر مذاق ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ بیشمار مسجد کمیٹیوں کے ایسے لوگ صدر بن گئے ہیں جن کا کردار مشکوک ہے۔ قارئین آئے دن یہ خبریں پڑھتے اور سنتے ہیں کہ چند مسلم نوجوانوں نے منشیات کا کاروبار کیا کچھ مسلم  نوجوان مجرا چلانے کے کاروبار میں ملوث ہیں جبکہ روز بروز قتل و غارتگری کے قصوں میں بھی مسلم نوجوان ملوث پائے جارہے ہیں۔

اس طرح کے المناک قصے ملت کے ذمہ داروں کو جھنجھوڑ رہے ہیں کہ ان پر کیسے قابو پایا جائے۔  ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم زبانی جمع خرچ میں لگے رہتے ہیں عملی کام ندارد ہے۔ کچھ مساجد میں دانشمند امام ہیں جو ملت کے نوجوانوں کو یہ درس دیتے ہیں کہ تم جو کام کررہے ہو وہ نہ تو دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں سود مند ہیں۔

ابھی تک مکہ مسجد اور باغ عامہ کی شاہی مسجد کے ائمہ اور دیگر اسٹاف کو سرکاری  لیول کی تنخواہیں اجرا نہیں کی گئی ہیں جبکہ ان دو مساجد کو کئی سال پہلے حکومت کی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ ہمارے رسول مکرمؐ نے اوقاف کا نظریہ ہمیں دے کر پچھلی موجودہ اور آنے والی نسلوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے اسی لئے ان کو ساری دنیا محسن انسانیت و کائنات کے نام سے یاد کرتی ہے اور ان پر کروڑوں درود بھیجتی ہے۔

آج جب ہم اوقافی جائیدادو ں کا حال اور استحصال دیکھتے ہیں تو بے حد تشویش اور تردد میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اوقاف کے لئے کوئی جائیداد جب وقف کردی جاتی ہے تو واقف یعنی اس جائیداد کا عطیہ دینے والے کو بھی اس بات کا حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ منشائے وقف کو بدل سکے۔ آج اوقافی جائیدادیں کوڑیوں کے دام پر لیز پر دی جارہی ہیں۔

وقف بورڈس اور سرکاریں ان کا تحفظ کرنے کے بجائے ان کی راست یا بالراست تجارت کرنے میں لگ گئی ہیں۔ ان جائیدادوں پر قبضے اور روز کا معمول بن گئی ہے۔ ہزاروں مقدمات عدالتو ں میں زیر دوراں ہیں۔ 

منشائے وقف کے خلاف جانا جیسے ایک معمول بن گیا ہے۔ یہ تو رہا وقف بورڈس کا حال۔ ہماری نو نویلی ریاست تلنگانہ میں سرکار کی جانب سے اقلیتوں کی خدمات کے لئے جو ادارے قائم کئے گئے ہیں ان کا حال بہت بُرا ہوگیا ہے۔ چاہے وقف بورڈ ہو چاہے حج کمیٹی ہو، چاہے اُردو اکیڈیمی ہو،چاہے اقلیتی فینانس کارپوریشن ہو یا پھر ٹمریز ہو یہ سب ادارے حرکیاتی بیوروکریسی سے محروم ہے۔

ریونت ریڈی کی پُرجوش قیادت میں قائم ہونے والی ریاستی حکومت کی تشکیل کے بعد لوگوں کو یہ بھروسہ ہو چلاہے کہ مسلمانوں کی فلاح و بہبودی کے لئے انقلابی کام انجام دیئے جائیں گے لیکن ان اداروں کی مجہول کارکردگی کے سبب وہ نتائج حاصل نہیں ہوپارہے ہیں جس کی مسلمانوں کو توقع تھی۔ چیف منسٹر ریونت ریڈی جس رفتار سے کام کررہے ہیں وہ رفتار مسلمانوں کے لئے مختص ان اداروں میں نہیں دیکھی جارہی ہے۔ 

اسسٹنٹ سکریٹری کے لیول کا ایک عہدیدار اُردو اکیڈیمی کا ڈائرکٹر سکریٹری ہے، وہ وقف بورڈ کا اور حج کمیٹی کا بھی چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہے۔ چیف سکریٹری کو اس مسئلہ پر فوراً توجہ دینی چاہئے تاکہ تمام اداروں پر الگ الگ عہدیدار رکھے جاسکیں۔ جس کے سبب ان کی کارکردگی میں تیزی آسکے۔ ایک conferred IAS Officer کو دو دو ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے تفویض کردہ عہدوں سے انصاف نہیں کرپارہی ہے۔

خود اسی عہدیدار نے اعتراف کیا کہ اقلیتوں کے لئے بنائے گئے اقامتی اسکولوں میں اس سال لگ بھگ 25ہزار نشستیں خالی ہے۔ اگر اس کوتاہی کا صحیح ڈھنگ سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ٹمریز کی ٹیم مدارس اور غریب مسلم گھرانوں کے نو نہالوں کو اپنی جانب راغب نہیں کر پائی جس کے سبب اتنی زیادہ تعداد میں نشستیں خالی ہیں۔ پچھلے برسوں میں ٹمریز سے متعلق خوب تشہیر ہوتی تھی اور مساجد میں ائمہ کی جانب سے ٹمریز میں داخلوں کی افادیت پر زور دیا جاتا تھا جس کے سبب ان اسکولوں میں داخلے بڑھتے تھے۔

اُردو اکیڈیمی کے بارے میں یہ خبریں آرہی ہے کہ Grants کے خرچ نہ ہونے کے سبب وہ رقم زیرو کردی گئی۔ پچھلے برسوں جن لوگوں کو مختلف زمروں میں انعامات دیئے گئے تھے ان کے چیکس باؤنس ہوئے ہیں۔ دوسرے مد کے تحت دی جانے والی Grants کی رقم بھی ریلیز نہیں ہوئی جو کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔

اُردو اکیڈیمی کے صدر طاہر بن حمدان کو چاہئے کہ وہ فی الفور حرکت میں آئیں اور اُردو کی ترقیاتی سرگرمیوں کی نشاۃ ثانیہ کریں تاکہ اقلیتوں میں اعتماد بحال ہوسکے کہ ہاں ان کی زبان کے تحفظ کے لئے کام کیا جارہا ہے۔ اگر وقت یونہی گزرتا جائے گا تو لوگوں میں منفی سوچ پروان چڑھے گی جو حکومت اور پارٹی کے لئے مضر ثابت ہوگی۔

اس سال حج کے دوران رہائش اور دوسری بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہمارے حاجیوں کو جو غیر معمولی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا  اس کا سد باب ضروری ہے۔ حج کمیٹی کے صدر خسرو پاشاہ کو چاہئے کہ وہ جلد از جلد ایک جامع اجلاس طلب کریں اور خامیوں کی نشاندہی کریں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔

سید عظمت اللہ حسینی کی زیر قیادت مجہول وقف بورڈ کو بھی حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔ عبید اللہ کوتوال کے زیر قیادت اقلیتی مالیاتی کارپوریشن میں بھی بہت ساری تبدیلیوں کی ضرو رت ہے سیلف ایمپلائمنٹ اسکیموں پر خاص توجہ دی جانی چاہئے تاکہ بیروزگار مسلم نوجوانوں کو روزگار سے لگایا جاسکے۔ وہ چبوتروں پر اپنا وقت ضائع نہ کریں اور غیر ضروری پولیس کی لاٹھیوں کا شکار نہ ہوں۔

یہ ساری باتیں غیر ضروری تنقید کے لئے نہیں لکھی جارہی ہے بلکہ مسلمانوں کی خدمت کرنے والے اداروں کو متحرک کرنے کے لئے اُکسایا جاسکے اور جہاں جہاں خامیاں ہیں اسے دور کیا جاسکے۔ ہر بار فنڈس ریلیز ہونے کی بات کہی جاتی ہے یقینا یہ سچائی ہے لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے اور اس کا سد باب کیسے کیا جائے اس پر پُرجوش انداز میں توجہ دی جانی چاہئے تاکہ بہادر شاہ ظفر کو یہ کہنا نہ پڑے کہ

عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

a3w
a3w