دہلی

نفرت انگیز تقاریر، سیکولر تانے بانے کو متاثر کرسکتی ہیں

سپریم کورٹ نے اپنے 2022 کے حکم کے دائرہ کو 3 ریاستوں سے آگے بڑھاتے ہوئے جمعہ کے دن تمام ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں کو ہدایت دی کہ نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف کیسس درج کئے جائیں چاہے کوئی شکایت نہ کی گئی ہو۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اپنے 2022 کے حکم کے دائرہ کو 3 ریاستوں سے آگے بڑھاتے ہوئے جمعہ کے دن تمام ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں کو ہدایت دی کہ نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف کیسس درج کئے جائیں چاہے کوئی شکایت نہ کی گئی ہو۔

متعلقہ خبریں
مذہبی مقامات قانون، سپریم کورٹ میں پیر کے دن سماعت
طاہر حسین کی درخواست ضمانت پرسپریم کورٹ کا منقسم فیصلہ
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ
گروپI امتحانات، 46مراکز پر امتحان کا آغاز
خریدے جب کوئی گڑیا‘ دوپٹا ساتھ لیتی ہے

جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس بی وی ناگارتنا پر مشتمل بنچ نے نفرت انگیز تقاریر کو ایک سنگین جرم قراردیا جو ملک کے سیکولر تانہ بانہ کو متاثر کرسکتی ہیں۔ بنچ نے کہا کہ اس کے 21 اکتوبر 2022کے حکم کو مذہب سے قطع نظر لاگو کیا جائے گا اور متنبہ کیا کہ مقدمات کے اندراج میں کسی بھی تاخیر کو تحقیر عدالت تصور کیا جائے گا۔

عدالت عظمیٰ نے اُس وقت کہا تھا کہ ہم مذہب کے نام پر کہاں پہنچ گئے ہیں۔ ہم نے مذہب کو کس حد تک گھٹادیا یہ واقعی افسوسناک ہے اور اترپردیش‘ دہلی اور اترکھنڈ کو ہدایت دی تھی کہ وہ نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

عدالت نے انہیں ایک ایسے ملک کے لئے صدمہ انگیز قراردیا تھا جو مذہب کے معاملہ میں غیرجانبدارہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ ہندوستان کا دستور ایک سیکولر ملک کا تصور پیش کرتا ہے‘ عدالت نے اترپردیش‘ اترکھنڈاور دہلی کو ہدایت دی تھی کہ وہ شکایت درج کرائے جانے کا انتظار کئے بغیر مجرموں کے خلاف فوری طورپر فوجداری مقدمات درج کریں۔

بنچ نے جمعہ کے روز کہا کہ ”جج غیرسیاسی ہیں اور پارٹی اے یا پارٹی بی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ ان کے ذہن میں صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے دستور ِ ہند۔ بنچ نے کہا کہ عدالت‘ ملک کے مختلف حصوں میں نفرت انگیز تقاریر کے خلاف درخواستوں کو عوام کی وسیع تر بھلائی کے لئے قبول کررہی ہے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لئے ان کی سماعت کررہی ہے۔

عدالت ِ عظمیٰ نے انتباہ دیا کہ انتظامیہ کی جانب سے اس انتہائی سنگین مسئلہ پر کارروائی کرنے میں تاخیر تحقیر عدالت (کارروائی) کو دعوت دے گی۔

عدالت ِ عظمیٰ کا یہ حکم صحافی شاہین عبداللہ کی طرف سے دائر درخواست پر دیا گیا جنہوں نے ابتدائی طورپر دہلی‘ اترپردیش اور اترکھنڈ کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں پر مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دینے کی گزارش کی تھی۔