جانور سے فائدہ اٹھانااسلامی نقطۂ نظر
اسلام کا ابر رحمت صرف انسانوں پر ہی نہیں برسا؛ بلکہ اس نے پوری کائنات کو آبیار کیا، جہاں اس نے ناطق انسان کو اپنے کرم سے سرفراز فرمایا، وہیں بے زبان جانوروں کو بھی اپنی رحمت ِبے کراں سے مالا مال کیا۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اسلام کا ابر رحمت صرف انسانوں پر ہی نہیں برسا؛ بلکہ اس نے پوری کائنات کو آبیار کیا، جہاں اس نے ناطق انسان کو اپنے کرم سے سرفراز فرمایا، وہیں بے زبان جانوروں کو بھی اپنی رحمت ِبے کراں سے مالا مال کیا، انسان جب شقاوت پر اُتر آتا ہے اور ظلم و جور اس کی طبیعت بن جاتی ہے، تو پھر اس کے ظلم و جور کی کوئی نہایت نہیں رہتی، وہ بے زبان جانوروں پر بھی مشق ستم کرنے لگتا ہے اور تہذیب و شائستگی کا دامن چھوڑ دیتا ہے، اسلام سے پہلے عربوں کے گزر بسر کا ذریعہ یہی جانور تھے، ان کا دُودھ غذا کا کام دیتا، ان کی پشت سواری اور بار برداری کا سب سے بڑا ذریعہ تھی، ان کی تجارت کا دارو مدار ان ہی سواریوں پر تھا، ان کے چمڑوں سے بھی مختلف کام لئے جاتے تھے؛ لیکن ان سب کے باوجود جانوروں کے ساتھ ان کا سلوک بےرحمانہ اور جفا کارانہ تھا۔
آپ ﷺ نے ایسے غیر انسانی سلوک کو منع فرمایا، جانور کے منھ پر مارنے کی ممانعت کی، لوگ جانوروں کو باہم لڑاتے اور اس کا تماشہ دیکھتے تھے، آپ ﷺ نے اس درندگی کو روکا، جانور کی خوراک اور ضروریات کی رعایت کرنے کا بھی حکم دیا، ایک اُونٹ کو دیکھا کہ اس کا پیٹ پشت سے لگا ہوا ہے، آپ ﷺنے فرمایا ان کے معاملہ میں خدا سے ڈرو، اسی سلسلہ میں ایک معجزہ بھی ظاہر ہوا، ایک اُونٹ نے اپنے مالک کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے اس کے مالک کو تنبیہ فرمائی، آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ اگر سر سبز و شاداب موسم میں سفر کرو تو آہستہ چلاؤ اور جانور کو اس سے فائدہ اُٹھانے کا موقع دو اور قحط کا موسم ہو تو تیز تیز چلاؤ، آپ ﷺ نے اس بات کی بھی تلقین کی کہ جو جانور جس کام کے لئے ہے، اس سے وہی کام لو، آپ ﷺ نے ’’منبر ‘‘ کے طورپر جانور سے کام لینے سے منع فرمایا، جانور کو منبر نہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ جانور اسٹیج کے طور پر استعمال نہ کیا جائے کہ اس پر کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر تقریر کی جائے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک بیل پر ایک آدمی سواری کر رہا تھا، اللہ کی قدرتِ خاص سے بیل اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا میں اس کا م کے لئے پیدا نہیں کیا گیا ہوں۔ انی لم اخلق لھذا۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ آخرت کا ثواب وعذاب جانوروں کے ساتھ اچھے اور بُرے سلوک سے بھی متعلق ہے، قیامت کے دن ایک عورت محض اس لئے دوزخ میں ڈالی جائے گی کہ اس نے ایک بلی کو باندھ رکھا تھا، اسے اس کا موقع نہیں دیا گیا کہ وہ خود کھائے اور دوڑدھوپ کر اپنی ضرورت پوری کرے، (بخاری، حدیث نمبر: ۲۳۶۵) اور ایک شخص اس بناء پر جنت میں داخل کیا جائے گا کہ اس نے ایک پیاسے کتے کی پیاس دُور کی ہوگی اور اسے پانی پلایا ہوگا، (بخاری، حدیث نمبر: ۲۳۶۳) آپ ﷺ نے فرمایا کہ انسان کی لگائی ہوئی کھیتیوں میں سے چرند و پرند جو کھالیں، (بخاری، حدیث نمبر: ۲۳۲۰)اس پر بھی صدقہ کا ثواب ہے۔
اسلام نے گوشت خوری کی اجازت ضرور دی ہے؛ لیکن بلا وجہ جانوروں کو مارنے کے درپے ہونا درست نہیں ہے، کسی صاحب نے ایک گوریا پکڑ رکھی تھی اور اس کی ماں بے قرار تھی، آپ ﷺ نے اس پر ناگواری کا اظہار فرمایا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ بلا ضرورت ایک گوریّا کو ذبح کرنے پر بھی جواب دہی ہے؛ (سنن کبریٰ للنسائی، حدیث نمبر: ۴۵۱۹) اسی لئے جو چیزیں انسانی کام نہیں آتیں، آپ ﷺ نے ان کو مارنے سے منع فرمایا، چیونٹی، شہد کی مکھی اور ھُدْ ھُدْ وغیرہ کے مارنے کی آپ ﷺ نے صراحتاً ممانعت فرمائی، (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر: ۵۷۲۸) کسی ذی روح کے جلانے کو آپ ﷺ نے شدت سے روکا ہے، ایک دفعہ لوگوں نے ایسی جگہ چولہا سلگایا، جہاں چیونٹی کے بِل تھے، آپ ﷺ نے چولہا بجھانے کا حکم دیا، (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۵۲۶۸) خود قرآن مجید میں ایک پیغمبر کا ذکر ہے، جن کے حکم سے چیونٹیاں جلائی گئی تھیں، اسی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا۔
بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اسلام نے گوشت خوری کی اجازت دے کر بے رحمی کا ثبوت دیا ہے، ہمارے بعض ناواقف ہندو بھائیوں کے یہاں تو اسلام نام ہی گوشت خوری کا ہے، اس سلسلہ میں اول تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہندوستانی مذاہب کے سوا دُنیا کے تمام مذاہب میں گوشت خوری کی اجازت دی گئی ہے اور گوشت کو ایک اہم انسانی غذا تسلیم کیا گیا ہے، ہندوستانی نژاد مذاہب میں بھی – سوائے ’’ جین مذہب‘‘ کے، حقیقت یہ ہے کہ تمام مذاہب میں گوشت خوری کا جواز موجود ہے، آج کل ہندو بھائیوں کے یہاں یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ ان کے یہاں گوشت خوری سے منع کیا گیا ہے؛ لیکن یہ محض اپنے مذہب اور تاریخ سے ناواقفیت ہے، خود ویدوں میں جانوروں کے کھانے پکانے اور قربانی کا تذکرہ موجود ہے، رگ وید میں ہے:
اے اندر ! تمہارے لئے پسان اور وشنو ایک سو بھینسیں پکائیں۔ (رگ وید:۶؍ ۱۱-۱۷)
یجر وید میں گھوڑے، سانڈ، بیل، بانجھ گایوں اور بھینسوں کو دیوتا کی نذر کر نے کا ذکر ملتا ہے۔ (یجروید، ادھیائے: ۲۰؍۷۸)
منوسمرتی میں کہا گیا ہے:
مچھلی کے گوشت سے دو ماہ تک، ہرن کے گوشت سے تین ماہ تک، بھیڑیئے کے گوشت سے چار ماہ تک اور پرند جانور کے گوشت سے پانچ مہینے تک پتر آسودہ رہتے ہیں۔ (منوسمر تی، ادھیائے: ۳ ؍۲۶۸)
خود گاندھی جی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایک زمانہ تک ہندو سماج میں جانوروں کی قربانی اور گوشت خوری کا عمل عام تھا اور ڈاکٹر تاراچند کے بقول ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے بھی ہوا کرتے تھے۔
جو لوگ گوشت خوری کو منع کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ یہ زندہ و جود کو قتل کرنے یعنی ’’جیوہتیا‘‘ کا باعث بنتا ہے؛ لیکن غور کیا جائے تو کائنات کا فطری نظام یہی ہے کہ خالق کائنات نے کم تر مخلوق کو اپنے سے اعلیٰ کے لئے غذا اور وسیلۂ حیات بنایا ہے، غور کریں کہ کیا اس جیو ہتیا سے بچنا ممکن بھی ہے، آپ جب پانی یا دُودھ کا ایک گلاس اپنے حلق سے اُتارتے ہیں تو سینکڑوں جراثیم ہیں جن کے لئے آپ اپنی زبانِ حال سے پروانہ موت لکھتے ہیں، پھر آپ جن دواؤں کا استعمال کرتے ہیں، وہ آپ کے جسم میں پہنچ کر کیا کام کرتی ہیں؟ یہی کہ جو مضر صحت جراثیم آپ کے جسم میں پیدا ہوگئے ہوں اور پنپ رہے ہوں، ان کا خاتمہ کر دیں، پس جیوہتیا کے وسیع تصور کے ساتھ تو آپ پانی تک نہیں پی سکتے اور نہ دواؤں کا استعمال آپ کے لئے روا ہو سکتا ہے۔
پھر آج کی سائنس نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ جس طرح حیوانات میں زندگی اورروح موجود ہے، اسی طرح پودوں میں بھی زندگی کار فرما ہے اور نباتات بھی احساسات رکھتے ہیں، خود ہندو فلسفہ میں بھی پودوں میں زندگی مانی گئی ہے، سوامی دیانند جی نے ’’آواگون‘‘ میں روح کے منتقل ہونے کے تین قالب قرار دیئے ہیں، جن میں ایک نباتات بھی ہے، یہ نباتات میں زندگی کا کھلا اقرار ہے، تو اگر جیو ہتیا سے بچنا ہو تو نباتاتی غذا سے بھی بچنا ہوگا، گویا اس کائنات میں ایسے انسانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں، جو مکمل طور پر جیو ہتیا سے بچ کر جینا چاہتے ہیں۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ گاؤ کشی وغیرہ کی ممانعت کا مطالبہ ہم مذہبی نقطۂ نظر سے نہیں کرتے؛ بلکہ یہ ایک معاشی ضرورت ہے، جانور اگر ذبح نہ کئے جائیں تو لوگوں کو دُودھ اور گھی سستی قیمتوں میں فراہم ہوں گے اور عام لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچے گا؛ لیکن یہ محض ایک واہمہ کا درجہ رکھتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ جن ملکوں میں ہندوستان سے زیادہ جانور ذبح ہوتے ہیں اورجہاں جانوروں کے ذبح پر کسی قسم کی پابندی نہیں، وہاں بہ مقابلہ ہمارے ملک کے گھی اوردُودھ سستے بھی ہیں اور ان کی فراوانی بھی ہے، اس کی مثال امریکہ اور یورپ ہیں، ہمارے ملک میں باوجودیکہ بہت سے علاقوں میں ذبح گاؤ پر پابندی ہے اور عام جانوروں کے ذبح کرنے پر بھی خاص تحدیدات ہیں؛ لیکن دُنیا کی تاریخ اور خود ہمارے ملک کا موجودہ ماحول اس کی تردید کرتا ہے، آج ہندوستان میں جہاں کہیں ہندو مسلم فسادات ہوئے ہیں اور جن لوگوں نے میرٹھ اور بھاگلپور میں ظلم و ستم کا ننگا ناچ کیا ہے، وہ سب کچھ ان لوگوں کے ہاتھوں ہوا ہے جو سبزی خور ہیں اور گوشت خوری کے مخالف ہیں، رہنمایانِ عالم میں شری گوتم بدھ اورحضرت مسیح علیہ السلام کو عدمِ تشدد اور رحم دلی کا سب سے بڑا داعی اور نقیب تصور کیا جاتا ہے؛ لیکن کیا یہ برگزیدہ شخصیتیں گوشت نہیں کھاتی تھیں؟ یہ سبھی گوشت خور تھے، گوتم بدھ نہ صرف گوشت خور تھے؛ بلکہ دم آخر میں گوشت کھا کر ہی ان کی موت ہوئی تھی اور ہٹلر سے بڑھ کر کوئی تشدد، جور و ستم اوربے رحمی کا نقیب ہوگا؟ لیکن ہٹلر گوشت خور نہیں تھا، صرف سبزی کو اپنی غذا بناتا تھا، اس لئے یہ سمجھنا کہ ہنسا اور اہنسا کا تعلق محض غذاؤں سے ہے، بے وقوفی اور نا سمجھی ہی کہی جاسکتی ہے، جب تک دلوں کی دُنیا تبدیل نہ ہو، انسان انسانیت سے محبت کرنا نہ سیکھے، خدا کا خوف نہ ہو اور آخرت میں جوابدہی کا احساس نہ ہو، محض غذا ئیں انسان کے مزاج و مذاق کو تبدیل نہیں کر سکتیں۔
٭٭٭