مضامین

طلاق اور خلع کے بڑھتے واقعات

محمد ہاشم القاسمی

خاندان کی ابتداء’نکاح ‘ سے ہوتی ہے، نکاح کے ذریعے ایک مرد اور عورت ایک دوسرے کے زندگی بھر کے ساتھی بن جاتے ہیں، ان کا باہمی تعلق اِس قدر لطیف اور پاکیزہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے دونوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔اسی ’نکاح‘ کی بدولت ان دونوں کے درمیان ایک مقدس رشتہ قائم ہو جاتا ہے، ان کے مابین پاکیزہ محبت اور حقیقی الفت پر ایک عظیم سلسلہ معرضِ وجود میں آجاتا ہے، اس وقت دونوں مفادات سے بالا تر ہوکر ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی بن جاتے ہیں، ان میں سے ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی اور ایک کی تکلیف دوسرے کی تکلیف شمار ہوتی ہے، وہ ایک دوسرے کے ہمدرد و غم گسار بن کر باہم مل کر زندگی کی گاڑی کو صحیح رخ دیتے ہیں، مرد اپنی جدوجہد کے ذریعے پیسہ کماتا ہے، اپنی شریک حیات اور اپنے بچوں کی ضرورتوں کا کفیل ہوتا ہے، اور بیوی گھریلو امور کی ذمہ دار ، اپنے خاوند کی خدمت گزار اور اسے سکون فراہم کرنے اور بچوں کی پرورش کرنے جیسے اہم فرائض انجام دیتی ہے۔
آج معاشرے میں خلع اور طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات سے ایک خطرناک تصویر سامنے آتی ہے۔ اس صورت حال میں معاشرے کے حساس اور ذمہ دار طبقات اور علماءکرام کو خصوصی توجہ دینے اور اِس کے اسباب و عوامل کا جائزہ لے کر سد باب کی راہ تلاش کرنے کی اہم ضرورت ہے ، چونکہ جس معاشرے میں طلاق اور خلع کی کثرت ہونے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ معاشرہ اپنی فطری زندگی کے راستے سے بھٹک گیا ہے۔ شادیاں کرتے ہوئے شریعت میں کفو یعنی کہ عورت مرد جن کا نکاح باہم مقصود ہے، وہ معاشرت اور سوسائٹی کے لحاظ سے ہم مرتبہ اور ہم درجہ ہوں، تاکہ میاں بیوی میں باہم خوشگوارتعلقات قائم ر ہیں۔ اس کا خیال رکھنا بھی ایک اہم مسئلہ ہے تاہم اب یہ رجحان کم ہوتا جا رہا ہے، اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ پہلے ایک شادی میں بیچ بچاو¿ کروانے والے خاندان کے بے شمار افراد ہوا کرتے تھے، جن کا کردار اب کم ہوگیا ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ و ملازمت پیشہ خواتین میں طلاق و خلع لینے کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھا ہے‘خود کمانے اور خود کفیل ہونے کا گھمنڈ، معاشرتی بے راہ روی نے خاندانی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے‘ تعلیم اور کلاس کے حوالے سے بے جوڑ شادیاں کی جارہی ہیں جو آگے چل کر مسائل کا سبب بنتی ہیں۔
شریعت میں نکاح انسانیت کی بقا اور تسلسل کے لیے ایک مضبوط شرعی معاہدہ ہے‘ جبکہ دین سے دوری، حقوق و فرائض سے غفلت، اپنی تہذیب و ثقافت سے بے پرواہ ، فلموں، ڈراموں اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید، موبائل فون، انٹرنیٹ، سماجی روابط میں بے راہ روی کے ذرائع نے شہوانی جذبات اور ہوس کو اس حد تک ابھار دیا ہے کہ ان جذبات کی تکمیل کے لیے نہ حلال دیکھا جاتا ہے نہ حرام، بلکہ حرام کی لذت میں مگن مرد و زن طلاق و خلع جیسے گناہ کو بغیر سوچے سمجھے استعمال کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ گھریلو و خاندانی تنازعات، نشہ، ذرائع ابلاغ، سماجی روابط میں بے راہ روی اور موبائل فون کے زیادہ استعمال سے نوجوانوں میں عدم برداشت، خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں طلاق اور خلع کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے‘ آج کل آسانی سے دستیاب یو ٹیوب کے ڈراموں میں طلاق اہم موضوع ہے، مگر افسوس کہ ان ڈراموں میں طلاق اور خلع سے بچنے سے زیادہ فوکس طلاق کرنے یا کرانے پر دیا ہے، گھر بسانے اور مضبوط رکھنے کے حوالے سے رہنمائی کے بجائے طلاق کے لیے ماحول سازگار بنانے کی نئی تراکیب متعارف کروائی گئی ہیں۔
یوں تو مسلمان عورتوں کا غیر مسلم سے، ہندو عورتوں کا مسلمان مردوں سے شادی کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے، ایسا جدید اعلی تعلیم یافتہ لوگوں، ہیرو، ہیروئنوں اور بڑے کاروباریوں میں پہلے سے ہوتا آرہا ہے، جس میں اکثر پیار محبت اور عشق کی کارفرمائی ہوا کرتی تھی، مگر آج جو کھلے عام دکھائی دے رہے ہیں کہ فلاں مسلم لڑکی فلاں ہندو دوست کے ساتھ بھاگ کر شادی کرلی ہے، یا فلاں لڑکی اپنے ہندو کلاس میٹ کے ساتھ کورٹ میرج کر لی، یہ کوئی اتفاقیہ واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے. حالیہ دنوں میں مسلمان لڑکیوں میں ہندوو¿ں سے شادی کرنے کی جیسے لہر آئی ہوئی ہے، جسے سن کر دل مسوس کر رہ جاتا ہے، کیا امیر کیا غریب، کیا پڑھا لکھا کیا گنوار ، کیا شہری کیا دیہاتی یہ ایسی آندھی ہے جس نے مسلم معاشرے کے ہر طبقہ کو بے انتہا متاثر کر رکھا ہے، جو ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ مسلم لڑکیوں کی اسکول و کالج کی مخلوط تعلیم بھی ہے، جس کی آڑ میں ہمارے معاشرے کے لڑکے لڑکیاں نہ صرف ایک دوسرے کے مذہب سے متاثر ہو رہے ہیں، بلکہ ان کے غیر معمولی تعلقات بھی بڑھ رہے ہیں، اور نوبت کورٹ میرج تک پہنچ رہی ہے، غیر مسلم لڑکوں کے غلبے میں مسلم لڑکیاں مذہب اسلام سے مرتد ہو رہی ہیں، جس کے چند دلخراش واقعات حال ہی میں رونما ہوئے ہیں۔
کاش ! اگر بچوں کو بچپن سے اسکول و مدارس اور کالجوں میں ایمان کا صحیح تصور، شعور، دین کا فہم، اللہ کی توحید کا عقیدہ راسخ کیا جاتا، اور مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کو سمجھایا جاتا اور انہیں صوم و صلوٰة کا پابند بنایا جاتا تو اس چیلنج سے نمٹا جا سکتا تھا اور یہ ذہن نشین کیا جاتا کہ مشرکین سے نکاح مذہب اسلام میں ممنوع قرار دیا ہے، اس عقیدہ کو دماغ میں راسخ کیا جاتا کہ اس حرام راستے پر جانے کے انجام کتنے بھیانک و خطرناک اور دل دہلانے والے ہیں، تو ایسے تمام راستوں کو بند کیا جا سکتا تھا، اس کے علاوہ مزید ایسے چیلنجز ہیں، اس کے لی ے امت کے اہل علم اور باثر طبقہ کو سامنے آکر اپنا اہم کردار نبھانا ہوگا۔ تاکہ معاشرے کو ایک پاکیزہ اسلامی ماحول فراہم کیا جاسکے۔